جیل کے صدر دروازے پرلوگوں کا ہجوم ہاتھوں میں ہار لیے موجود تھا ، ڈھول باجے والے بھی ساتھ تھے۔ شایدکوئی بڑا آدمی جیل سے رہا ہونے والاتھا۔ واقعی یہی بات تھی ۔ اُس دِن ایسا شخص رہا ہونے والا تھا جس نے وفا کی نئی داستان رقم کی تھی اوراپنے مالک کی خاطر سات پہاڑ جیسے برس جیل میں گزار دیے۔ اُس دن کالو رہا ہونے والا تھا جواب میاں کالے خاں تھا۔ کالو نے ایک قتل کا الزام اپنے سر لے لیا تھا اور اُسی جرم بے گناہی میں جیل کی بلندوبالا دیواروں کے پیچھے پہنچ گیا تھا۔ آج اس کی رہائی کادن تھا۔علاقے کے سیکڑوں لوگ اُس کا استقبال، اُس کی وفا،دلیری اور بہادری کو خراجِ تحسین پیش کرنے جیل کے صدر دروازے پر جمع تھے۔اسی ہجوم میں میاں باقر بھی موجود تھا، کالے خاں کے علاقے کا سب سے بڑا زمیندار ۔ وہ ۵۰؍مربع زمین کا مالک اور اُس کا خاندان گزشتہ ۱۵؍سالوں سے علاقے کابے تاج بادشاہ چلاآرہا تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں اُس کے بزرگوں نے اسے غدر کا نام دے کر انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ مزارعوں اور نوکروں کو انگریز فوج میں بھرتی کروا کر انگریزوں سے حقِ دوستی ادا کیا۔ انگریزوں نے وفاداری کے صلے میں میاں باقر کے بزرگوں کو سیکڑوں مربع زرعی زمین بخش دی۔ نسل در نسل وراثتی تقسیم کے باعث میاں باقر کے ہاتھ صرف ۵۰؍مربع زمین لگی۔ لیکن اب بھی یہ زمین انھیں علاقہ کی سب سے بڑی طاقت بنانے کو کافی تھی۔ اس جاگیر کے بل بوتے پر باقر خاندان نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں حاصل کیں اور بلدیاتی انتخابات بھی جیتے۔ علاقے میں کسی کو ان کے سامنے سر اٹھانے کی جرأت نہ تھی۔ لیکن وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ تعلیم اور میڈیا کی ترقی نے علاقے کے لوگوں میں احساسِ بغاوت پیدا کر دیا اور انہوں نے میاں باقر کے خاندان سے نجات حاصل کرنے کی تدابیر سوچنی شروع کردیں۔بلدیاتی انتخابات میں میاں باقر خاندان کا ایک فرد یونین کونسل کے ایک حلقہ سے کونسلر کا انتخاب تو جیت گیا لیکن اسے چیئرمین منتخب ہونے میں دشواری پیش آئی۔ یونین کونسل ۹؍ ارکان پرمشتمل تھی جس میں سے ۳؍ارکان اُن کے حمایتی لیکن ۵؍ارکان مخالف تھے۔ میاں خاندان کو یہ مشکل زندگی میں پہلی بار پیش آئی تھی۔ پہلے تو انھوں نے مخالف ارکان کو بہلاپھسلاکراپنے ساتھ ملاناچاہا۔ لیکن مراد بَر نہ آئی تو ڈرانا دھمکانا شروع کیا مگر کوئی حربہ کامیاب نہ ہوا۔علاقے کی یونین کونسل کی سربراہی سے محرومی باقر خاندان کے لیے بڑا دھچکا تھا۔ انھوں نے سوچا کہ کسی طرح الیکشن کی تاریخ بڑھائی جائے اوراسی دوران منت سماجت کے ذریعے ایک دو ارکان ساتھ ملا لیں گے۔ وکلا سے مشورہ کیا، سیاسی اثرورسوخ استعمال کیا، طاقت، دولت خرچ کی لیکن کامیابی نہ ہوئی۔الیکشن ملتوی نہ ہوسکے تو درہم برہم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اپنے وفادار جمع کیے گئے، مقامی پولیس اسٹیشن کے عملے سے سازباز کی گئی، الیکشن کے نگران عملے سے رابطہ کیا گیا۔ ہوائی فائرنگ اور سنگ زنی کامنصوبہ بنایا گیا تاکہ پولنگ نہ ہو۔سب کچھ منصوبے اور توقع کے مطابق ہوا۔ پولنگ شروع ہوتے ہی اسٹیشن کے اردگرد گھروں اور درختوں میں چھپے افراد نے شدید فائرنگ کرکے خوف و ہراس پیدا کردیا،اینٹوں اور پتھروں سے پولنگ اسٹیشن پر بارش کر دی گئی۔ پولیس اور عملہ بھاگ گیا، میزیں کُرسیاں اُلٹ دی گئیں، بینر جلا دئیے گئے۔ سب کچھ توقع کے مطابق ہوا۔ لیکن ایک گڑبڑ ہوگئی۔ اینٹوں سے حملہ ہوا تو پولنگ سٹیشن پرمتعین نگران عملہ افراتفری میں پولنگ اسٹیشن سے نکل بھاگا۔ پریذائیڈنگ آفیسر کمرے سے نکلا ہی تھا کہ اُس کے سر پر ایک زوردار اینٹ لگی اور وہ زخمی حالت میں زمین پر گرپڑا۔ پریذائیڈنگ آفیسر قریبی سکول کا ادھیڑعمر ہیڈماسٹر تھا۔ اینٹ کی چوٹ اُس کے لیے کاری ضرب ثابت ہوئی، سر سے بے تحاشا خون بہنے لگا اور وہ بے ہوش ہوگیا۔گولیوں کی تڑتڑ اور برستی اینٹوں میں ہر کوئی خوفزدہ حالت میں بھاگ رہا تھا ، کسی کو ہوش نہیں تھا کہ اس زخمی بوڑھے کو اُٹھاتا، سنبھالتا اور طبی امداد پہنچانے کے لیے اسے ہسپتال منتقل کرتا۔ کافی دیر بعد مقامی تھانے کے انچارج کو صورت حال سے آگاہی ہوئی ۔ تھانے دار اپنی گاڑی میں زخمی پریزائیڈنگ آفیسرکولییسرکاری ہسپتال پہنچا۔لیکن اتنے شدید زخمی مریض کے علاج کا مناسب بندوبست نہ تھا لہٰذا اسے ضلعی ہسپتال منتقل کیا گیا۔مریض کو فوری طور پر ایمرجنسی روم پہنچایا گیا۔ مخدوش حالت دیکھتے ہوئے ڈاکٹر نے سرجن کو بلایا۔ لیکن سرجن کے پہنچنے سے قبل ہی زخمی زندگی کی بازی ہار گیا۔پولنگ اسٹیشن پر پتھرائو میاں باقر کے سب سے چھوٹے، پیارے اور خوبصورت بیٹے میاں نادر کی قیادت میں کیاگیا تھا۔ لوگوں کے مطابق میاں نادر کی پھینکی ہوئی اینٹ سے پریذائیڈنگ آفیسر زخمی ہوا۔ اس کے شدید زخمی اور ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال میں منتقل ہونے پر میاں باقر قدرے پریشان تھا لیکن جب اس کی ہلاکت کی خبر پہنچی تو ہر طرف سراسیمگی پھیل گئی۔ میاں باقر بھاگم بھاگ مقامی تھانے پہنچا ۔اس کی کوشش تھی کہ قتل کا معاملہ خردبُرد کردیا جائے یا زیادہ سے زیادہ کسی نا معلوم فرد کے خلاف پرچہ درج کیا جائے۔تھانیدار میاں باقرکا تابع فرمان تھا۔ اُس میں انکار کی جرأت تو نہیں تھی لیکن مجبوری یہ آن پڑی کہ مرنے والا پریذائیڈنگ آفیسر تھا۔ تھانیدار نے اپنی مجبوری کا اظہار کیا تو میاں باقر کو اندازہ ہوا کہ اس کاسب سے پیارا بیٹا قتل کے مقدمہ میںملوث ہونے کوہے۔ مقدمہ بنتا تو میاں نادر جیل چلا جاتا، پھر نہ جانے کتنا عرصہ مقدمہ چلتا، یہ سارا عرصہ میاں نادر کو جیل میں گزارنا پڑتا ۔ پھر نہ جانے مقدمہ کا فیصلہ کیا ہوتا، چند سال قید، عمر قید یا پھانسی…!وقت کم تھا،میاں باقرکادماغ کوئی ترکیب سوچنے میںمصروف تھا۔ اس کے علاوہ تمام خاندان، برادری اور سارا گائوںبھی اس سوچ میں گم تھا کہمعاملہ کیسے ختم کیاجائے۔ آخر فیصلہ ہوا کہ کوئی شخص قربانی دے اور قتل کا الزام اپنے سر لے ورنہ میاں نادر کو جیل جانے سے نہیں بچایا جا سکتا۔میاں باقر کے انتہائی وفادار لوگ گائوںکے علاوہ اردگرد کے علاقوں میں بھی بستے تھے لیکن کوئی شخص اتنی بڑی قربانی دینے پر آمادہ نہ تھا، میاں نادر کے بجائے کوئی شخص پھانسی کا پھندا اپنے گلے میں ڈالنے کو تیار نہ تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب کالو کے جذبۂ وفا نے جوش مارا اور اُس نے لوگوں کے ہجوم میں اعلان کیا کہ پریذائیڈنگ آفیسر کو لگنے والی اینٹ اُس نے پھینکی تھی، میاں نادربے قصور ہے۔ میاں باقر کو اپنی سماعت پر شک ہوا کہ وہ یہ کیا سن رہا ہے؟ کیا کوئی شخص ایسا بھی ہے جو دوسروں کا پھندہ اپنے گلے میں بقائمی ہوش و حواس ڈال لے۔ لیکن یہ کوئی وہم یا خواب نہیں بلکہ حقیقت تھی۔میاں باقر نے کالو کو گلے لگالیا۔ وہ میاں باقر جس نے اپنے سے کم تر کسی شخص سے کبھی ہاتھ ملانا بھی گوارا نہ کیا تھا، انتہائی محبت اور خلوص سے کالو کو گلے لگائے آنکھوں سے آنسو بہا کر کہہ رہا تھا’’ کالو! تم بہت اچھے آدمی ہو۔ تم نے وفا اور دوستی کی لاج رکھ لی ، میں ساری عمر تمھارا اور تمھارے خاندان کا احسان مند رہوں گا۔‘‘ پھراس نے ہجوم کے سامنے اعلان کیا:’’لوگو! گواہ رہنا کالو آج سے میرا بھائی ہے۔ کالو آج سے میاں کالے خاں ہے۔ ‘‘جب میاں باقر نے بلند آواز سے یہ کہا تو خوشامدی کالو کا جذبہء وفا بھول کر میاں باقر کی اعلیٰ ظرفی کے گن گانے اور کہنے لگے کہ میاں باقر وفا کرنے اور دوستی نبھانے والوں کی دل و جان سے قدر کرتا اور اُنہیں سر آنکھوں پر بٹھاتا ہے۔ کالو کی قربانی اور میاں باقر کی بندہ پروری کی خبر جنگل کی آگ کی طرح سارے علاقے میں پھیل گئی ۔ گائوں کے مرد وزن کالو کے خاندان کو مبارک باد دینے پہنچ گئے۔ اب کالو اور اس کا خاندان گائوں کا کمی کمین نہیں تھا، وہ میاں باقر کے رشتہ دار بن گئے تھے۔تھانیدار نے پریذائیڈنگ آفیسرکو قتل کرنے کے الزام میں کالوکا چالان کردیا۔ کالو کچھ دن تھانے اور پھر جیل چلا گیا۔ تھانے اور جیل میں میاں باقر کی وجہ سے کالو کو ہر ممکن سہولت پہنچائی گئی ، اُسے گھر سے پکا ہوا کھاناپہنچ جاتا۔ سپرنٹنڈنٹ جیل سے معاملہ طے کیا گیا اور جیل میں کالو کو وی۔آئی۔پی سہولتیں مہیا کی گئیں۔ وہ میاں باقر کا بھائی جو تھا…!میاں باقر نے ۱۰ ؍ایکڑ زمین کالو کے خاندان کو دے ڈالی تاکہ وہ کاشت کاری کرکے آرام سکون سے زندگی گزاریں۔ میاں باقر نقد رقم سے بھی کالو کے لواحقین کی مدد کرتارہا۔ ہر عید پر سارے خاندان کو کپڑے وغیرہ بنوا دیتا اور آتے جاتے کالو کے گھر چکر لگاتا، کالو کی بیوی کے سر پر ہاتھ پھیرتا اور بچوں کو پیار کرتا۔کالو کو عمر قید کی سزا ہوئی تھی لیکن اچھے چال چلن کی وجہ سے ۷سال بعد ہی رہائی عمل میں آگئی۔ اُس دن کالو نے رہا ہونا تھا۔ کالو کا سارا گائوں میاںباقر کی سرکردگی میں کالو کو لینے جیل کے دروازے پر پہنچ گیا۔ بہت سے لوگ ہاتھوں میں پھولوں کے ہار پکڑے کھڑے تھے ۔ جیل کے دروازے سے کچھ دور ڈھول بجائے جا رہے تھے۔جیسے ہی کالو جیل کے گیٹ سے باہر آیا، میاں باقر نے آگے بڑھ کر کالو کو گلے لگایا اور اُس کے گلے میں ہار ڈالا۔ پھر باری باری سب لوگ کالوسے گلے ملے اور اُسے ہاروں سے لاد دیا۔ کالو کو ایک سجی سجائی گاڑی میں بٹھایا گیا جواسے لیے گائوں روانہ ہوگئی۔گاڑی سیدھی میاں باقر کی حویلی پہنچی۔ کالو کو میاں باقر کے ساتھ اونچی کُرسی پر بٹھایا گیا۔ باقی لوگ نیچی کرسیوں، چارپائیوں اور زمین پر بچھی چٹائیوں پر حسب مراتب بیٹھ گئے۔ مٹھائی آگئی۔ سب لوگوں میں مٹھائی بانٹی گئی اور میاں باقر نے پھر اعلان کیا ’’ میاں کالے خاں میرا بھائی ہے۔ سب لوگ میاں کالے خاں کا اُتنا ہی ادب اور احترام کریں جتنا وہ میرا اورمیرے خاندان کا کرتے ہیں‘‘۔ میاں باقر نے یہ بھی اعلان کیا کہ میاں کالے خاں جب بھی اُن کی حویلی میں آیا، اُن کی برابر کرسی پر بیٹھے گا۔ سب لوگوں نے میاں کالے خاں کو ایک بار پھرمبارک باد دی۔میاں کالے خاں کی قربانی اور میاں باقر کی اعلیٰ ظرفی کی داستاں علاقہ بھر میں پھیل گئی ۔ لوگ میاں کالے خاں کو میاں باقر کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھا دیکھنے دور دور سے آنے لگے۔ لوگ آتے، کالے خاں اور میاں باقر سے ہاتھ ملاتے ، دونوں کے جذبوں کی تعریف کرتے اور لوٹ جاتے۔میاں باقر خوش تھا کہ اُس نے اپنے پیارے بیٹے نادر کو جیل جانے سے بچا لیا تھا۔ وہ اس بات پر بھی خوش تھا کہ اُس نے میاں کالے خاں کے جذبۂ ایثار کی بھی قدر کی اور علاقے بھر کے عوام نے اُس کا یہ فعل پسند کیا ہے ۔ اس وجہ سے وہ علاقہ میں ہر دل عزیز ہوگیا ۔ لوگ اس کا زیادہ دم بھرنے لگے ۔ لوگ سمجھنے لگے کہ جو شخص بھی میاں باقر سے وفا نبھائے گا، وہ ضرور اُس کا اچھا صلہ دے گا۔دن گزرتے گئے۔ ایک دن ، ایک ہفتہ ، ایک مہینا اور ایک سال گزر گیا۔ ہر چیز معمول پر آگئی۔ میاں کالے خاں، میاں باقر کے بخشے ۱۰؍ایکڑ رقبے پر دن بھر کاشتکاری کرتا اور شام ڈھلے ہاتھ منہ دھو کر نسبتاً صاف کپڑے پہن کر میاں باقر کی حویلی پہنچ جاتا۔وہ وہاں میاں باقر کی ساتھ والی کرسی پر بیٹھتا۔ میاں باقر گائوں والوں کے مسائل سُنتے اور وہ اُن کو حل کرتے دیکھتا۔رفتہ رفتہ لوگ اور میاں باقرکے خاندان والے بھی پریذائیڈنگ آفیسر کے قتل کے واقعہ اور میاں کالے خاں کی قربانی بھولتے گئے۔ اب میاں باقر کے بیٹوں اور اُس کے بھائیوں کو میاں کالے خاں کا ساتھ والی کرسی پر بیٹھنا کھٹکنے لگا۔ بیٹے پہلے دبی زبان اور پھر اونچی زبان میں تنہائی میں میاں باقر سے احتجاج کرنے لگے۔ انہوں نے اپنی ماں کو بھی اپنا ہم خیال بنا لیا۔ پہلے پہل تو میاں باقر باتیں سُن کر ناراض ہوا اور اُنہیں ڈانٹنے ڈپٹنے لگا لیکن آہستہ آہستہ غیر محسوس طریقے سے اُن کا ہم خیال ہوتا چلا گیا۔شروع میں میاں باقر کا خیال تھا کہ میاں کالے خان نے بہت بڑی قربانی دی ، اور اس قربانی کا جتنا بھی صلہ دیا جائے، کم ہے۔ لیکن اب وہ سوچنے لگا کہ وہ علاقہ کا بے تاج بادشاہ ہے اور کالو اُس کی رعایا کا ایک فرد۔ رعایا بادشاہوں پر قربان ہوتی ہی ہے۔ یہ کوئی اتنا بڑا کارنامہ نہیں کہ کالو جیسے عام شخص کو اپنا ہم مرتبہ بنا لیا جائے۔ کالو کو ۱۰؍ایکڑ زمین کا ٹکڑا دے دیا گیا، وہ جب تک زندہ ہے، اس پر کاشت کرے اور مزے کرے لیکن اب مزید اسے اپنے برابربٹھانا مشکل ہے۔پہلے پہل میاں کالے خاں حویلی میں آکر میاں باقر کے ساتھ بیٹھتا تو وہ خوش ہوا کرتا۔ لیکن اب بظاہر تو کسی ردِعمل کا اظہار نہ کرتا لیکن دل ہی دل میں ناگواری محسوس کرتا۔ میاں باقر سوچتا کہ کیاتدبیر کروں، کالوپہلے کی طرح بن جائے۔ لیکن کیسے؟ اُس نے علاقہ بھر کو گواہ بنا کر اعلان کیا تھا کہ میاں کالے خاں اُس کا بھائی ہے۔ اب اگر وہ میاں کالے خاں کی شان میںکمی کرکے اُسے دوبارہ کالو کے مرتبہ تک پہنچاتا ، تو علاقہ بھر میں اس کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔میاں باقر اِسی ادھیڑ بن میں تھا کہ سندھ سے ایک دوست اُس سے ملنے آگیا۔ سندھی وڈیرہ ہزاروں ایکڑ زمین کا مالک تھا۔ کالو کو بھی میاں کالے خاں کے طور پر اس سے متعارف کرایا گیا ۔ اپنی اور اپنے سندھی مہمان کی اونچی کرسی کے برابر والی کرسی پر میاں کالے خاں کو بھی بٹھانا پڑا۔ س دن میاں باقر کوخاصی خفت ہوئی۔میاؔں باقر خاں نے بالآخر پریشانی کا حل ڈھونڈ نکالا۔ ایک دن شام اس نے میاں کالے خاں کو کہا کہ کل صبح اذان کے وقت وہ گائوں سے باہر والی ندی کے پل کے نیچے پہنچ جائے۔ اُس سے ایک راز کی بات کہنی ہے۔ میاں باقر نے اُسے تاکید کی کہ وہ یہ بات کسی کو نہ بتائے۔ میاں کالے خاں دل ہی دل میں خوش ہوا کہ میاں باقراب اس پر اتنا اعتماد کرنے لگا ہے کہ جس راز میں وہ اپنے بیٹوں اور بھائیوں کو شریک نہیں کرتا، اُسے بتا دیتا ہے۔کالے خاں وقت مقررہ پر پل کے نیچے پہنچ گیا۔ اُس وقت سارا گائوں ابھی سویا پڑا تھا۔ کالے خاں اِدھر اُدھر دیکھتا چلا آیا کہ کوئی شخص اُسے دیکھ تو نہیں رہا لیکن ویران ندی کے کنارے کوئی ذی روح موجود نہ تھا۔ میاں کالے خاں پُل کے نیچے پہنچا تو میاں باقر چادر اوڑھے موجود تھا۔ میاں کالے خاں نے ہاتھ ملانے کے لیے اپنا ہاتھ پھیلایا۔ میاں باقر نے بھی چادر سے ہاتھ باہر نکالا۔ پل کے نیچے اندھیرا تھا ،اگر روشنی ہوتی تو میاں کالے خاں دیکھ لیتا کہ میاں باقر کے ہاتھ میںکوئی شئے تھمی ہوئی ہے۔ میاں باقر کا ہاتھ میاں کالے کے سینے کے برابر آگیا۔ ایک شعلہ لپکا اور پل کے نیچے آواز گونجی۔ میاں باقر کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے ریوالور سے گولی نکلی اور میاں کالے خاں کے سینے میں پیوست ہوگئی۔ کالو نے بے یقینی کے عالم میں میاں باقر کی طرف دیکھا اور زمین پر گر پڑا۔’’مجھے افسوس ہے کالو لیکن میرے پاس اس کے سوا کوئی حل نہ تھا۔‘‘میاں باقر نے کہا اور دوسری گولی کالو کے سر میں اُتار دی۔