میکوٹن نے سامنے بیٹھے امیدوار کی طرف غور سے دیکھا۔ یہ دبلا پتلا گندمی رنگت کا آدمی کام کی تلاش میں آیا تھا۔ میکوٹن نے اُسے بتایا کہ یہ کام بہت مشقت والا اور عارضی ہے تمھیں نقد ادائیگی کی جائے گی۔ یہ پرانی عمارتیں گرانے کا کام ہے جس میں خطرہ بھی ہے لیکن بیمہ یا صحت کے علاج کے سلسلے میںہماری کوئی ذمے داری نہیں ہوگی۔رام لعل نے اقرار میں سر ہلا دیا ۔ اس کاتعلق بھارتی علاقے راجستھان کے ایک غریب گھرانے سے تھا۔وہ طب کی تعلیم پانے آئرلینڈ آیا تھا۔ اس کاآخری سال تھا، اپنی ضروریات پورا کرنے کی خاطر اُسے مزید آمدن درکار تھی۔ اسی لیے وہ ٹھیکیدار کے دفتر عارضی ملازمت حاصل کرنے آیا تاکہ موسم گرما کی چھٹیوں میں کچھ آمدن حاصل کر سکے۔میکوٹن نے رام لعل سے کہا، وہ کل سے کام پر جائے۔ اوقات صبح ۷؍بجے سے شام کے ۷؍ بجے ہیں۔ تمام مزدوروں کو ٹرک صبح ۶؍بجے اسٹیشن کے سامنے سے لیتا ہے۔ ان کا انچارج بل کیمرون ہے، میں اسے بتا دوں گا۔رام لعل دفتر سے باہر آیا اور ایک کمرا تلاش کرنے لگا۔ کوشش کے بعد اسے اسٹیشن کے قریب ایک کمرا مل گیا۔ اتوار کے روز وہ اپنے مختصر سامان کے ساتھ اس کمرے میںمنتقل ہوگیا۔دوپہر کے وقت وہ بستر پر لیٹا اپنے گائوں کی پہاڑیوں، کھیتوں اور کسانوں کو یادکرتا اور سوچتا رہا تھا کہ جلد اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر بن کر گائوں چلا جائے گا۔پیر کی صبح رام لعل جلدی اٹھا اور ۶؍بجے کے قریب مقررہ مقام پر پہنچ گیا۔ کچھ دیر بعد ٹرک پہنچ گیا۔ اس وقت تک ۱۲ ؍ افراد جمع ہو چکے تھے۔ رام لعل کچھ دور ہٹ کر انتظار کرنے لگا۔تھوڑی ہی دیر میں گروپ انچارج بھی پہنچ گیا ۔ اس کے پاس مزدوروں کی فہرست تھی اور وہ سب کو جانتا تھا۔ رام لعل اُس کے قریب پہنچاتو فورمین نے پوچھا ’’کیا تم وہی کالے آدمی ہوجسے میکوٹن نے ملازم رکھا ہے۔‘‘اس نے کہا ’’ہاں میں ہی ہری کشن رام لعل ہوں۔‘‘فورمین بل کیمرون کا رویہ اس کی شخصیت کا آئینہ دار تھا۔ اس کا قد ۶؍فٹ ۳ا؍نچ اور جسم طاقتور تھا، شکل سے بھی وہ ایک پہلوان معلوم ہوتا ۔ غصہ اس کی ناک پر دھرا رہتا تھا۔ اس نے حقارت سے زمین پر تھوکا اور رام لعل سے کہا ’’جائو ٹرک میں بیٹھو‘‘۔ دورانِ سفر ایک شخص نے پوچھا ’’تم کہاں سے آئے ہو۔‘‘ اس نے کہا ’’بھارت کے علاقے راجستھان سے۔ ‘‘آدمی نے پوچھا ’’کیا تم عیسائی ہو؟‘‘رام لعل نے کہا ’’میں ہندو ہوں۔‘‘اس شخص نے پھر جس کا نام برنس تھا، باقی لوگوں سے رام لعل کا تعارف کرایا۔ ایک شخص نے کہا ’’تمھارے پاس کھانا نہیں ہے؟‘‘رام لعل نے کہا’’میں کل سے لاؤں گا۔‘‘ دوسرے شخص نے پوچھا ’’کیا تم نے ایسا مشقتی کام پہلے کیاہے؟‘‘رام نے نفی میںسر ہلادیا۔ اس شخص نے کہا’’ تمھیں مضبوط جوتے اور دستانے بھی خریدنے ہوں گے‘‘۔ باتوں باتوںمیں رام لعل نے بتایا کہ وہ طب کا طالب علم ہے اور اسے مجبوراً یہ کام کرناپڑرہاہے تاکہ کچھ زائد آمدن حاصل کرسکے۔ٹرک ڈوپلڈ روڈ پر ایک کچے راستے پر درختوں کے قریب رک گیا۔ وہاں کومبرکے کنارے شراب کی ایک پرانی فیکٹری تھی جسے گرایاجاناتھا۔ عمارت کے مالک کی خواہش تھی کہ کم سے کم رقم خرچ ہو۔ لہٰذا اس نے کسی بڑی کمپنی کے بجائے ٹھیکیدار میکوٹن سے بات کی جومناسب رقم میں بغیر مشینری کے عمارت گرانے کے لیے تیار ہوگیا۔ میکوٹن کے مزدوروں نے یہ کام بھاری ہتھوڑوں اور کدالوں کی مدد سے کرنا تھا۔ میکوٹن کو یہ بھی لالچ تھا کہ عمارت ٹوٹنے سے نکلنے والی لکڑی اور سیکڑوں ٹن اینٹیں فروخت کرکے اضافی آمدنی حاصل ہوگی۔مزدور اوزار اٹھائے عمارت کے قریب پہنچ گئے۔ ان کے پاس بڑے ہتھوڑے، لمبی چھینیاں اور رسے تھے۔ فورمین نے کہا ’’چلو بھئی کام شروع کرو۔ ہم سب سے پہلے چھت کی ٹائلیں توڑیں گے۔‘‘ رام لعل نے اندر چھت دیکھی جو کسی چار منزلہ عمارت کے برابر اونچی تھی۔ اسے اونچائی سے خوف آتا تھا۔ ایک آدمی نے پرانی لکڑی کا دروازہ توڑا اور آگ جلا کر چائے کا پانی رکھا۔ سب لوگوں نے تام چینی کے مگ نکالے اور چائے پینے لگے۔ رام لعل نے سوچا کہ کل وہ مگ بھی خرید لے گا۔ تاہم برنس نے اپنے مگ میں رام لعل کو چائے دی۔ چھت پر کام شروع ہوگیا۔ ٹائلیں اکھاڑ کے نیچے پھینکی جانے لگیں۔ ۱۲؍بجے کے بعد کھانے کا وقفہ ہوا اور سب لوگ نیچے آگئے۔ چائے بنی اوررام لعل کے سوا سب مزدورں نے کھاناکھایا۔ اس نے اپنے ہاتھ دیکھے جو جگہ جگہ سے چھل گئے تھے اور سارا جسم دکھ رہا تھا۔ برنس نے رام لعل سے کہا’’ لو تم بھی سینڈوچ کھا لو، میرے پاس کافی ہیں‘‘۔ بل کیمرون سامنے بیٹھا تھا ،اس نے برنس سے کہا’’ تم کیا کررہے ہو۔ کالے کو اپنا کھانا خود لانے دو، تم صرف اپنی فکر رکھو‘‘۔ برنس نے اپنی نظریں جھکالیں کیونکہ کوئی بھی فورمین کے آگے نہیں بول سکتا تھا۔پورے ہفتے کام چلتا رہا۔ عمارت کی چھت، دیواریں، دروازے اور کھڑکیاں نیچے ملبے کے ڈھیر پر گرتی رہیں۔ رام لعل کے لیے یہ سخت محنت کا کام تھا، ہاتھ زخمی ہوگئے لیکن رقم کی خاطر وہ محنت کرتا رہا۔ اس دوران فورمین بل کیمرون جسے لوگ ’’بگ بلی‘‘ بھی کہتے تھے، رام لعل کے پیچھے لگا رہا۔ مشکل سے مشکل کام اسے دیا جاتا اور وہ بے عزتی کرنے کا بھی کوئی موقع ضائع نہ کرتا ۔ہفتے کے روز تک اندر کا کام پورا ہوچکا ۔ اب باہر کی دیواریں باقی تھیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دیواروں میں نیچے ڈائنامائٹ لگایا جاتا تو ایک ساتھ پورا ملبہ نیچے آ گرتا۔ لیکن میکوٹن کے لیے یہ طریقہ ناقابلِ عمل تھا۔ اس کے لیے لائسنس کی ضرورت تھی جو شمالی آئرلینڈ میں مشکل کام تھا۔ اس کے علاوہ محکمہ ٹیکس اور انشورنس والوں کو بھی ادائیگی کرنا پڑتی۔ لہٰذا یہ سارا کام مزدوروں کے ہاتھوں ہو رہا تھا۔ خودکو خطرہ میں ڈالتے دیواریں ہتھوڑوں سے توڑ رہے تھے۔کھانے کے وقت فورمین نے ادھر اُدھر گھوم کر کام کا جائزہ لیا اور پھر کہا کہ اس طرف کی دیوارکا بڑا حصہ پہلے توڑنا ہے۔ پھروہ رام لعل کی طرف مڑا اور کہا ’’ میں چاہتا ہوں کہ تم اوپر چڑھو اور جب دیوار گرنے لگے تو اسے باہر کی طرف دھکا دو‘‘۔ بل کیمرون جانتا تھا کہ رام لعل اونچائی سے ڈرتا ہے۔رام لعل نے جواب دیا ’’ اس پوری دیوار میں دراڑ پڑی ہوئی ہے۔ جو بھی اوپر گیا، وہ اس کے ساتھ ہی گرے گا۔‘‘ بل کیمرون کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا ، وہ چیخ کر بولا ’’تم مجھے میرا کام مت سمجھائو ۔ کالے آدمی،جیسا تم سے کہا،وہی کرو‘‘۔رام لعل اٹھااور فورمین کے سامنے جا کربولا۔’’ مسٹر کیمرون! ایک بات صاف ہونی چاہیے۔ میرا تعلق راجپوت قبائل سے ہے۔ گو اس وقت میرے پاس تعلیمی اخراجات کے لیے رقم کم ہے لیکن میرے آبا ء واجداد میں دو ہزار سال قبل راجہ، مہاراجہ ، شہزادے اور فوج کے سپہ سالار گزرے ہیں۔ اس وقت تم لوگ بندروں کی طرح چاروں ہاتھ پیر پر چلتے اور کپڑوں کی جگہ کھال پہنتے تھے ۔ براہِ مہربانی آپ میری بے عزتی کرنا بند کردیں۔ ہر انسان کی اپنی عزت ہوتی ہے جس کی حفاظت اس کا فرض ہے‘‘۔رام لعل کی یہ مختصر تقریر سب لوگوں نے دم بخود سنی۔ بل کیمرون کا غصہ انتہا کو پہنچ گیا۔ اس نے چیخ کر گالی دی اور کہا ’’اچھا تو تم واقعی عزت دار تھے‘‘۔ ساتھ ہی اس نے رام لعل کے منہ پر الٹے ہاتھ کا زوردار تھپڑ رسید کیا۔ بیچارا رام لعل زمین سے اُڑ کر کئی فٹ دور جا گرا۔ برنس کی آواز آئی ’’لڑکے زمین سے اٹھنا مت، ورنہ بگ بلی تمھیں جان سے ہی مار دے گا۔‘‘ رام لعل نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو دیوزاد بل کیمرون مٹھیاں بند کئے اس کے اٹھنے کا منتظر تھا۔ رام لعل کا اس سے کوئی مقابلہ نہ تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور خاموشی سے پڑا رہا۔ دُکھ اور بے عزتی کی تکلیف سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔بند آنکھوں سے رام نے خود کو وطن میں پایا جہاں اس کے آباء واجداد گھوڑوں پر سوار، تلواروں اور نیزوں سے لیس آس پاس سے گزرتے اسے صرف ایک لفظ کہہ رہے تھے’’ انتقام، انتقام۔ تمھیں اپنی بے عزتی کا انتقام لینا ہوگا۔‘‘ رام لعل خاموشی سے اٹھا اور کام میں لگ گیا۔ سارا دن نہ وہ کسی سے بولا اور نہ کوئی بات کی۔اس رات جب وہ اپنے کمرے میں پہنچا تو باہر گرج چمک ہو رہی تھی اور طوفانی بارش کے آثار تھے۔ وہ بسترپرلیٹ گیا اورکوئی ایسی تدبیر سوچنے لگا جس سے انتقام لے سکے۔تھوڑی دیربعد بارش شروع ہونے لگی۔اس کی نظرکھڑکی کے شیشے پرپڑی جہاں بارش کی بوندیں ایک قطار کی شکل میں بہنے لگی تھیں۔ شیشے پر پڑی مٹی کی وجہ سے پانی کی قطار سیدھی کے بجائے لہراتی ہوئی بہنے لگی۔ اچانک رام لعل کی نظر کونے پر پڑی ڈریسنگ گائون کی ڈوری پہ گئی جو ہوا سے نیچے گر گئی تھی۔ گری ڈوری ایسی لگتی تھی کہ پتلا سانپ کُنڈلی مارے بیٹھا ہو۔ رام لعل سمجھ گیا کہ اسے کیاتدبیراختیارکرنی چاہیے۔اگلے روز رام لعل بذریعہ ریل بیلفاسٹ گیا اور اپنے سکھ دوست سے ملا۔ رنجیت سنگھ بھی اس کی طرح طالب علم تھا لیکن اس کے والدین دولت مند تھے اور اسے ماہانہ اچھی رقم اخراجات کے لیے بھیجتے ۔ رام لعل نے اس سے کہا کہ مجھے گھر سے اطلاع ملی ہے، میرے والد بستر مرگ پر ہیں۔ میں سب سے بڑا بیٹا ہوں۔ وہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ مجھے واپس ہندوستان جانا ہوگا۔ رنجیت سنگھ نے کہا کہ ہاں یہی روایت ہے کہ والد کے انتقال کے وقت بڑا بیٹا اس کے پاس ہو۔ رام لعل نے کہا ،میرا مسئلہ ہوائی سفر کے ٹکٹ کا ہے۔ میں کام بھی کررہا ہوں لیکن میرے پاس کافی پیسے نہیں ۔ کیا تم مجھے کچھ رقم ادھار دے دو گے؟ میں زائد کام کرکے تمھاری رقم لوٹا دوںگا۔ سکھ نے کہا کہ کوئی بات نہیں، میں کل بینک سے رقم نکلوا کر تمھیں دے دوںگا۔اس روز شام کو رام لعل اپنے ٹھیکیدار مسٹر میکوٹن سے ملا اور اپنے والد کے بارے میں بتایا کہ اس کا آخری وقت قریب ہے۔ میں اس سے ملنے جا نا چاہتا ہوں۔ یہ ہمارا مذہبی طریقہ ہے کہ مرنے والے کی آخری رسوم اس کا بڑا بیٹا ادا کرے۔ رام لعل نے یہ بھی کہا ’’ میں نے ہوائی کرائے کی رقم دوست سے اُدھار لی ہے۔ اگر میں کل کی پرواز سے روانہ ہوجائوں تو اگلے ہفتے واپس آ سکتا ہوں۔‘‘ٹھیکیدار نرم دل آدمی تھا، اس نے کہا ’’ٹھیک ہے !تم جاسکتے ہو۔ اگر تم وعدے کے مطابق واپس پہنچ جاتے ہوتو انہی شرائط پر دوبارہ کام شروع کردینا‘‘۔رام لعل نے شکریہ ادا کیا اور واپس آگیا۔ اگلے روز اس نے اپنے سکھ دوست سے رقم ادھار لی اور بذریعہ ریل لندن پہنچ کر بھارت جانے کے لیے ٹکٹ خرید لیا ۔ اس طرح ۲۴؍گھنٹوں کے اندر وہ بمبئی پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر وہ ایک دکان پر پہنچا جہاں پالتو پرندے، سانپ اور دیگر جانور فروخت ہوتے تھے۔ اُسے دراصل ایک چھوٹے زہریلے سانپ کی تلاش تھی۔ دکاندار نے بتایا کہ تمھاری خوش قسمتی ہے کہ کل ہی میرے پاس ایک چھوٹا سانپ آیا ہے جو آراکھیراناگ (Saw Scaled Viper )کہلاتا ہے۔ یہ سانپ مغربی افریقہ سے عرب، ایران، پاکستان اور بھارت کے خشک اور نم علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کی لمبائی ۱۰۔۱۵ سینٹی میٹر تک، رنگ گہرا بھورا اور جسم پتلا ہوتا ہے۔ زہریلے دانت شکار کی جلد پر سوئی جیسے دو سوراخ چھوڑتے ہیں۔ زہر اتنا تیز اثر ہوتا ہے کہ دوتین گھنٹوں میں موت واقع ہوجاتی ہے۔ موت کا سبب دماغ میں خون کا اخراج ہوتا ہے۔رام لعل نے دکان کے مالک سے پوچھا کہ اس سانپ کی کیا قیمت لوگے؟ کچھ دیر بحث کے بعد سودا ۳۵۰؍روپے میں طے ہوگیا۔ رام لعل سانپ کو ایک ڈھکن والی بوتل میں بند کرکے گھرچلاآیا۔ لندن سفر کے لیے رام لعل نے ایک سگار بکس خریدا۔ اسے خالی کرکے اس میں پندرہ چھوٹے سوراخ کیے اور سانپ نرم پتوں کے ساتھ سگار بکس میں بند کرکے اسے اچھی طرح ٹیپ سے بند کردیا۔ اس طرح لندن واپسی کا سفر شروع ہوا۔ شام تک رام لعل اپنے کمرے میں پہنچ چکا تھا۔ اس نے سگار بکس نکال کر دیکھا۔ سانپ بالکل صحیح حالت میں سیاہ چمک دار آنکھوں سے رام لعل کو گُھور رہا تھا۔رام لعل نے شیشے کا ایک ڈھکن دار مرتبان خالی کیا تاکہ صبح استعمال کیا جائے۔ صبح جلدی اٹھ کر اس نے انتہائی احتیاط سے سانپ کو سگاربکس سے مرتبان میں منتقل کیا۔ مضبوطی سے ڈھکن لگایا اور اسے اپنے لنچ بکس میں حفاظت سے رکھ دیا۔مقررہ وقت وہ اسٹیشن پہنچاجہاں سے ٹرک سب مزدوروں کو لیے کام کی جگہ جاتا تھا۔بل کیمرون کی یہ عادت تھی کہ کام شروع کرنے سے پہلے وہ اپنی جیکٹ اتار کر کسی شاخ پہ اُتار دیتا تھا۔ کھانے کے وقفے میں وہ جیکٹ کی جیب سے اپنا پائپ اور تمباکو کی تھیلی نکال کر پائپ ضرور پیتا ۔رام لعل کا ارادہ تھا کہ وہ موقع پاکر سانپ کو بل کیمرون کی جیکٹ کی جیب میں چھوڑ دے گا۔ پھروہ جیکٹ کی جیب سے پائپ اور تمباکو نکالے گا۔ اس دوران سانپ بل کیمرون کو ڈس لے گا۔ بل کیمرون گھبرا کر ہاتھ جیب سے نکالے گا، تو سانپ اس کے ہاتھ سے لٹکا ہوگا کیونکہ اس کے دانت گوشت میں گڑے ہوں گے۔ منصوبے کے مطابق رام لعل کسی بہانے ۱۱؍بجے کے قریب اٹھا۔ اپنا لنچ بکس کھول کر سانپ کا مرتبان نکالا ، ڈھکن کھول کر بل کیمرون کی جیکٹ کی داہنی جیب میں الٹا اور فورًا واپس آکر کام میں لگ گیا۔ کھانے کے دوران سب لوگ دائرے میں بیٹھ کر سینڈوچ کھانے لگے۔ رام لعل کا دل کھانے میں نہیں لگ رہا تھا، وہ زبردستی سب کے ساتھ بیٹھا ۔ کبھی کبھی نظر اٹھا کر فورمین کی جیکٹ کی طرف دیکھتا ۔ آخرکار بل کیمرون نے کھانا ختم کیا ، اُٹھ کر اپنی جیکٹ کی طرف گیا اور داہنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ چند سیکنڈ بعد اس نے پائپ اور تمباکو کی تھیلی نکالی ، پائپ بھر کر جلایا اور پینا شروع کردیا۔رام لعل مایوسی اور ناُامیدی کا شکار تھا کہ اس کی چال نے اپنا کام نہیں دکھایا۔ اس نے ایک مرتبہ پھر بے یقینی سے جیکٹ کی طرف دیکھا۔ اسے چند سیکنڈ کے لیے جیکٹ کے ایک کنارے پر کوئی چیز چلتی نظر آئی۔ جیکٹ کی جیب میں پائے جانے والے چھوٹے سے سوراخ سے سانپ نکل کر اندرونی سلائی میں چھپ گیاتھا۔شام کو واپسی کے وقت فورمین نے اپنی جیکٹ اتار کر اپنے برابر رکھ لی اور مقررہ مقام پر سب لوگ اتر کر اپنے گھر جانے لگے۔ رام لعل نے برنس سے پوچھا کہ کیا بل کیمرون کے بیوی بچے ہیں؟ اس نے اثبات میںجواب دیا۔رام لعل اپنے کمرے پہنچا اور دل سے دعا کرنے لگا کہ میں اپنی بے عزتی کا بدلہ بل کیمرون سے لینا چاہتا تھا لیکن اس کے بیوی بچوں کو نقصان پہنچانا میرا مقصد ہرگز نہیں ۔ اتوار کا دن بھی انہی سوچوں میں گزر گیا۔پیر کی صبح بل کیمرون اور اس کے بیوی بچے صبح ۶؍بجے کے قریب اٹھے اور ناشتاکرنے باورچی خانے میں جمع ہوگئے۔ بل کیمرون کام پہ جانے کے لیے تیار ہوا۔ اس نے بیٹی سے کہا کہ ذرا میری جیکٹ تو لانا۔ وہ الماری سے نکال کر لائی۔ بل نے کہا: ’’اسے دروازے کے پیچھے ٹانگ دو۔میں ابھی لیتا ہوں۔‘‘ جب بیٹی نے جیکٹ ٹانگی تو وہ پھسل کر باورچی خانے کے فرش پر گر پڑی۔ بلی نے غصے سے کہا ’’تم سے کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہوتا۔ جیکٹ اٹھا کر اچھی طرح ٹانگو۔‘‘’’بابا، یہ آپ کی جیکٹ سے کیا چیز گری ۔‘‘ بگ بلی کی بیوی، بیٹے اور سب نے اس طرف دیکھا۔ ایک چھوٹا سا جاندار فرش پر پڑا چمکیلی آنکھوں سے سب کو دیکھ رہا تھا۔ باریک دو شاخہ زبان لہراتی نظر آرہی تھی۔ بل کی بیوی بولی’’ خدا ہمیں محفوظ رکھے ،یہ تو کوئی سانپ ہے‘‘۔بل کیمرون غصے سے بولا: ’’پاگل نہ بنو، کیا تمھیں معلوم نہیں کہ آئرلینڈ میں قدرتی طور پر کوئی سانپ نہیں پایا جاتا۔ ہر شخص یہ بات جانتا ہے۔ ‘‘ پھر اُس نے بیٹے سے پوچھا: ’’بوبی، تم تو اسکول میں سائنس پڑھتے ہو، تمھارے خیال میں یہ کیا چیز ہے۔‘‘ لڑکے نے سانپ کی طرف غور سے دیکھا اور کہا: ’’یہ یقینا کیچوا ہے جو عموماً جنگل کی گھاس میں پایا جاتاہے۔‘‘ بگ بلی نے اپنے بیٹے سے کہا: ’’یہ جو کچھ بھی ہے، اسے مار کر باہر پھینک دو۔‘‘ بوبی اٹھا اور اپنا جوتا نکال کراس جانور کو مارنے چلا۔ بل کیمرون کے دماغ میں ایک اور خیال آیا۔ اس نے کہا: ’’ذرا رک جائو اور مجھے ایک ڈھکن والا مرتبان دو۔‘‘مرتبان آیا تو بلی اٹھا اور بہت احتیاط اور پھرتی سے سانپ کو مرتبان میں منتقل کردیا۔ سانپ بھی آئرلینڈ کے سرد موسم سے کچھ سست ہوگیا تھا۔ بلی کے بیٹے نے پوچھا: ’’ابوآپ اس کا کیا کریں گے؟‘‘بلی نے کہا: ’’ہمارے گروہ میں ایک کالا بھارت سے آیا ہے، وہاں بہت سانپ ہوتے ہیں۔ میںذرا اس کے ساتھ مذاق کروں گا۔وہ تو شاید خوف کے مارے مر ہی جائے گا۔‘‘اس نے جیکٹ پہنی، کھانا لیا اور بیگ میں پھر سانپ والے مرتبان کے ساتھ رکھ دیا۔پھروہ اسٹیشن روانہ ہوگیا۔ وہاں سب لوگ مع رام لعل موجود تھے۔ ٹرک میں سوار ہوکر یہ پارٹی کام والی جگہ پرروانہ ہوگئی۔ وہاں کام شروع ہونے سے پہلے چائے کے دوران بل کیمرون نے چپکے چپکے دیگر لوگوں کو بھی بتا دیا کہ وہ اس کالے کے ساتھ کیا مذاق کرنے والا ہے۔اس کے ساتھیوںنے سوچا کہ یہ ایک بے ضرر کیڑا ہے ، رام لعل کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا لہٰذا ایسے مذاق میں کوئی حرج نہیں ۔کھانے کے وقفے میں سب لوگ حسبِ معمول دائرے کی شکل میں بیٹھے ۔ رام لعل نے کچھ خیال نہ کیا لیکن باقی لوگ اس کی طرف دیکھ رہے تھے کہ اب کیا ہوگا۔ اس نے اپنا لنچ باکس گھٹنوں پر رکھا اور اسے کھولا۔ سینڈوچ اور سیب کے بیچ چھوٹاسانپ کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔ رام لعل کی زبردست چیخ سے علاقہ گونج اٹھا اور ساتھ ہی سب مزدوربے ساختہ زور دار قہقہے لگانے لگے۔ رام لعل نے گھبرا کر اپنا لنچ باکس زور سے ہوا میں اچھال دیا۔ سانپ اور سینڈوچز تمام چیزیں چاروں طرف گھاس میں گر پڑیں۔ رام لعل چیختے ہوئے کھڑا ہوگیا اوربولا’’ یہ سانپ بہت زہریلا اور خطرناک ہے۔ ‘‘سب لوگ پھر سے ہنسنے لگے۔ رام لعل نے ان سے کہا: ’’ یقین کرو، یہ انتہائی زہریلا سانپ ہے۔‘‘بل کیمرون کی آنکھوں میں ہنستے ہنستے آنسو آگئے ۔ وہ رام لعل سے کہنے لگا: ’’کالے آدمی، تم تو بہت ہی بے وقوف ہو۔ کیا تمھیں نہیں معلوم کہ آئرلینڈ میں کوئی سانپ نہیں پایا جاتا۔‘‘بگ بلی ہنستے ہنستے کچھ تھک گیا تھا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ سر کے پیچھے رکھ گھاس پر لیٹ گیا کہ چند منٹ آرام کرلے۔تب اسے معمولی چبھن کا بھی احساس نہیں ہوا۔ اس کی داہنی کلائی پر سوئی کی نوک کے برابر دو انتہائی باریک سوراخ ہو چکے تھے۔ کھانا ختم ہوچکا تھا۔ سب لوگ کام کے لیے اٹھ گئے۔ عمارت توڑنے کا کام تقریبًا ختم ہوچکا تھا۔ سارا ملبہ ڈھیر کی صورت میں پڑا تھا۔ دو گھنٹے بعد بل کیمرون نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا، اسے کچھ پسینہ آ رہا تھا۔ اس نے کچھ خیال نہ کیا۔تھوڑی دیر بعد اس نے ہتھوڑا ہاتھ سے رکھا اور اپنے ساتھی سے کہا ’’ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔ میں ذرا دیر سایہ میں آرام کر لیتا ہوں۔‘‘ پھر وہ درخت کے نیچے بیٹھا سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ اس کے سر میں شدید درد ہورہا تھا۔ بیٹھے بیٹھے اس کے پورے جسم کو جھٹکا لگا اور وہ پیچھے کی طرف الٹ کر گرا۔ سب سے پہلے برنس نے اس کی طرف دیکھا۔ اس نے پیٹرسن کو آواز دی اورکہا: ’’بگ بلی بہت بیمار لگ رہا ہے۔ میری بات کا اُس نے جواب بھی نہیں دیا۔‘‘ سب مزدوروں نے کام چھوڑ دیا اور اس درخت کے پاس آگئے جہاں بل کیمرون زمین پر پڑا ہوا تھا۔ اُس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں لیکن اُن میں زندگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ پیٹرسن نے رام لعل کو آواز دی کہ ادھر آئو اور اسے دیکھو۔ تم طب کے طالب علم ہو، تمھارا کیا خیال ہے؟ رام لعل کو کسی معاینے کی ضرورت تو نہ تھی لیکن پھر بھی اس نے جھک کر نبض دیکھی اور پیٹرسن سے کہا کہ یہ تو مر چکا۔پیٹرسن نے کہا ’’ سب لوگ یہیں ٹھہریں۔ میں ایمبولینس بلاتااور ٹھیکیدار میکوٹن کو بھی مطلع کرتا ہوں۔‘‘ وہ پھر پیدل سڑک کی طرف روانہ ہوا تاکہ بوتھ سے فون کرسکے۔ ایمبولینس کے پہنچنے پر بل کیمرون کو ہسپتال پہنچا دیا گیا۔وہاں ڈاکٹروں نے معاینہ کیا اور بتایا کہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اس شخص کی موت واقع ہوچکی ۔ میکوٹن بھی پریشانی کے عالم میں ہسپتال پہنچ گیا۔پولیس اور عدالتی کارروائی میں چند روز لگے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق بل کیمرون کی موت قدرتی طور پر ہوئی۔ وجہ دماغ میں شدید اخراجِ خون تھا۔ عیسائی مذہب کے طریقے کے مطابق تدفین ہوئی جس میں اس کے خاندان، میکوٹن اور دیگر ساتھی بھی شریک ہوئے۔رام لعل نے تدفین میں شرکت نہیں کی بلکہ وہ اس مقام پر جا پہنچا جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔وہ گھاس میں کھڑے ہوکر دل ہی دل میں کچھ کہنے لگا ’’اے زہریلے سانپ !کیا تم میری بات سن سکتے ہو۔ تم نے وہ کام کردکھایا جس کے لیے تمھیں راجستھان کی پہاڑیوں سے یہاں لایا گیا تھا۔ میرا انتقام پورا ہوگیا۔ میرے منصوبے کے مطابق تمھیں کام کرنے کے بعد مر جانا تھا۔ کیا تم میری بات سن رہے ہو؟ ابھی نہیں تو کچھ عرصے بعد تم مر جائو گے۔ بغیر مادہ کے تمھاری نسل آگے نہیں چل سکتی کیونکہ آئرلینڈ میں کوئی سانپ نہیں پائے جاتے۔