جس شخص کی بھی رسائی انٹرنیٹ تک ہے وہ وکی پیڈیا پر محمد علی جناح کا نیلا پاسپورٹ دیکھ سکتا ہے جو انڈین پاسپورٹ ایکٹ مجریہ انیس سو بیس کے تحت اٹھائیس نومبر انیس سو چھیالیس کو پانچ برس کی مدت ( تا اٹھائیس نومبر انیس سو اکیاون ) کے لیے جاری کیا گیا تھا۔

اس پر بڑا بڑا لکھا ہے ’برٹش انڈیا پاسپورٹ، انڈین ایمپائر‘۔
اسی بارے میں

محمد علی جناح کا اہم خطاب خفیہ رکھا گیا؟
’جناح پاکستان نہیں چاہتے تھے‘

متعلقہ عنوانات

پاکستان

جناح صاحب کی تصویر پر جو مہر لگی ہوئی ہے اس پر پاسپورٹ آفس کراچی گورنمنٹ آف سندھ درج ہے ۔چونکہ یہ پاسپورٹ برٹش انڈیا کے سبجیکٹ ( شہری ) کو جاری کیا گیا ہے لہذٰا اندر کے پہلے صفحے پر انگلستان کے بادشاہ کے بجائے گورنر جنرل برٹش انڈیا کی جانب سے یہ درخواست چھاپی گئی ہے کہ حاملِ ہذا کی دورانِ آمدورفت بلارکاوٹ راہداری، مدد اور ضروری تحفظ فراہم کیا جائے۔

یہ پاسپورٹ حاملِ ہذا (محمد علی جناح) کو جن ممالک کے سفر کی اجازت دیتا ہے وہ مجاز افسر نے ہاتھ سے لکھے ہیں اور درجِ زیل ہیں۔

برطانیہ براستہ عراق، ٹرانس جارڈن، فلسطین، مصر، اٹلی، فرانس، ہالینڈ، بلجئیم، سوئٹزرلینڈ اور مالٹا۔

نیشنل سٹیٹس (قومیت ) کے خانے میں لکھا ہوا ہے ’برٹش سبجیکٹ بائی برتھ ‘۔

انیس سو انچاس تک سرسئید احمد خان سے لے کر اقبال، علی برادران، حسرت موہانی، نہرو، سبھاش چندر بوس، محمد علی جناح، زوالفقار علی بھٹو، اندراگاندھی، میرے والد اور الطاف حسین کے والد سمیت ہر اس شخص کو برٹش سبجیکٹ کہتے تھے جو سلطنتِ برطانیہ کی زیرِ عملداری دنیا کے کسی بھی خطے میں پیدا ہوا ہو۔انیس سو انچاس میں برٹش سبجیکٹ کی اصطلاح میں ترمیم ہوئی اور دولتِ مشترکہ ( کامن ویلتھ سٹیزن ) کے شہری کی اصطلاح متعارف ہوئی۔

(انیس سو اکیاسی کے برٹش سٹیزن شپ ایکٹ کے تحت برٹش سبجیکٹ کی اصطلاح میں مزید ترمیم ہوئی اور اسے برطانیہ اور آئرلینڈ کے شہریوں تک محدود کردیا گیا۔

اس خطے سے باہر برطانوی عملداری میں جو علاقے موجود تھے جیسے ہانگ کانگ، مکاؤ، جبرالٹر، فاک لینڈ وغیرہ تو ان کے لیے برٹش اوورسیز اور برٹش ڈیپنڈنٹ ٹیررٹریز کی اصطلاحات و اقسام وضع کی گئیں۔)

چنانچہ جب کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ محمد علی جناح اسی طرح برطانوی شہری تھے جس طرح میں ہوں تو ایسا دعویٰ کرتے وقت ازحد تاریخی و قانونی احتیاط کی ضرورت ہے۔

جب آئین نافذ ہوگیا تو گورنر جنرل صدر ہوگیا اور گورنر جنرل کا انیس سو پینتیس کے ایکٹ کے تحت حلف بھی نئے حلف سے بدل گیا

پہلی بات تو یہ ہے کہ جدید پاسپورٹ برطانیہ اور اس کی نوآبادیات میں انیس سو بیس کے پاسپورٹ ایکٹ کے تحت وجود میں آیا۔اس سے پہلے راہداری اور پرمٹ پر سفر ہوتا تھا۔

دوم یہ ہے کہ اگر برٹش سبجیکٹ ( شہری ) اور برٹش انڈین سبجیکٹ ایک ہی چیز تھی تو پھر برطانیہ کو اپنی نوآبادیات کے شہریوں سے خود کو الگ شناخت دینے کے لیے انیس سو بیس میں علیحدہ پاسپورٹ جاری کرنے کی کیوں ضرورت پڑ گئی جس پر موٹا موٹا لکھا تھا ’برٹش پاسپورٹ۔یونائٹڈ کنگڈم آف گریٹ برٹن اینڈ آئرلینڈ ‘ ( یہ نیلا پاسپورٹ انیس سو اٹھاسی میں یورپی یونین والے سرخ جلد کے پاسپورٹ سے بدل گیا )۔تو کیا برطانیہ اور اس کی تمام نوآبادیات میں صرف ایک پاسپورٹ کی ایک ہی جیسی عبارت سے کام نہیں چل سکتا تھا ؟

اگر بحث برائے بحث یہ مان لیا جائے کہ برٹش انڈین پاسپورٹ رکھنے والا بھی برطانیہ کا اتنا ہی شہری تھا جتنا کہ یوکے اینڈ آئرلینڈ کا پاسپورٹ ہولڈر، تو پھر مجاز افسر کو اپنے ہاتھ سے محمد علی جناح کے پاسپورٹ پر برطانیہ براستہ عراق لکھنے کی کیا ضرورت تھی اور اس پاسپورٹ پر آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ، کینیڈا اور دیگر برطانوی ڈومینینز اور نوآبادیات کے ناموں کا اندراج کیوں نہیں کیا گیا تاکہ جناح صاحب ایک ’برطانوی شہری ‘ کے طور پر جمیکا سے کینیا تک جس برطانوی نوآبادی میں چاہتے آ جا سکتے۔۔۔

اگر برٹش انڈین پاسپورٹ رکھنے والا خود بخود برطانوی شہری بن سکتا تو تیرہ اپریل انیس سو اکیاون کو پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ کیوں نافذ ہوا جبکہ اس تاریخ کو بھی برطانوی بادشاہ پاکستان کا آئینی حکمران تھا اور گورنر جنرل پاکستان اس کا نمائندہ تھا۔تو کیا حکومتِ پاکستان کے اس ایکٹ کو بین الاقوامی قانون کے تحت برٹش انڈیا کی جانشین حکومت ( سکسیسر نیشن ) کا ایکٹ تصور کیا جائے یا تاجِ برطانیہ سے بغاوت سمجھا جائے ؟

رہی یہ بات کہ برطانوی بادشاہ یا ملکہ آزادی کے بعد بھی بھارت اور پاکستان کا آئینی سرپرست کیونکر رہے ؟ اس لیے رہے کہ چودہ اور پندرہ اگست انیس سو سینتالیس کے دن نہ انڈیا کا اپنا آئین تھا اور نہ پاکستان کا۔ چونکہ خلا میں کسی مملکت کا انتظام نہیں چلایا جاسکتا لہذٰا نئے آئین کے نفاز تک دونوں ممالک گورنمنٹ آف برٹش انڈیا ایکٹ مجریہ انیس سو پینتیس کے تابع رہے۔جب آئین نافذ ہوگیا تو گورنر جنرل صدر ہوگیا اور گورنر جنرل کا انیس سو پینتیس کے ایکٹ کے تحت حلف بھی نئے حلف سے بدل گیا (جیسے یحییٰ خان کی معزولی کے بعد انیس سو تہتر کے عبوری آئین کے نفاز تک خلا پر کرنے کے لیے بھٹو صاحب کو عبوری صدر کے ساتھ ساتھ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا حلف مجبوراً اٹھانا پڑ گیا تھا۔)

تیس جنوری انیس سو اڑتالیس کو برٹش انڈیا کے ایک اور پاسپورٹ ہولڈر موہن داس کرم چند گاندھی کو گولی لگی

بات شہریت اور پاسپورٹ کی ہو رہی تھی اور جانے کہاں سے کہاں نکل گئی۔ کیا کسی کو یاد ہے کہ پہلا پاکستانی پاسپورٹ انیس سو اکیاون کے سٹیزن شپ ایکٹ کے تحت پاکستانی دفترِ خارجہ کے مڈل ایسٹ ڈویژن کے ڈپٹی سیکرٹری محمد اسد کو جاری ہوا۔تب تک برٹش انڈیا کے جاری کردہ پاسپورٹ پر پاکستان کی مہر لگا کر کام چلایا جاتا تھا ۔جبکہ بھارت میں تو سٹیزن شپ ایکٹ مجریہ انیس سو پچپن کے نفاز تک پرانے پاسپورٹوں پر نئی ریپبلک آف انڈیا کی مہر لگتی رہی۔بالکل ایسے جیسے پاکستان کے کرنسی نوٹوں کے اجرا تک برطانوی ہند کے کرنسی نوٹوں پر پاکستان کا ٹھپہ لگا کر کام چلایا جاتا رہا۔

چونکہ پاکستان میں تیرہ اپریل انیس سو اکیاون تک شہریت کا قانون ہی نہیں تھا اور برٹش انڈین دور کے قوانین سے کام چلایا جا رہا تھا تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ گورنر جنرل اور وزیرِ اعظم سمیت پوری کابینہ اور لیجسلیٹو اسمبلی کے انہتر ارکان سمیت مغربی اور مشرقی پاکستان کے سات کروڑ شہریوں میں سے ایک بھی پاکستانی شہری نہیں تھا۔سب کے سب ایک منقسم برٹش انڈیا کے شہری تھے اور اس ناطے برطانوی شہری تھے اور اس ناطے وہ جتنے ڈھاکہ اور کراچی میں بسنے کے قانوناً مجاز تھے اتنے ہی لندن اور برمنگھم میں بھی بسنے کے اہل تھے ؟؟؟

سوال یہ ہے کہ اگر جناح صاحب گیارہ ستمبر انیس سو اڑتالیس کے بجائے گیارہ ستمبر انیس سو اکیاون کو وفات پاتے تو ان کے پاس کون سا پاسپورٹ ہوتا ۔تو کیا ان کی وفات برطانوی شہری یا برٹش انڈین شہری کے طور پر ہوئی ؟؟؟

اور جناح صاحب کی وفات سے بھی نو ماہ پہلے تیس جنوری انیس سو اڑتالیس کو برٹش انڈیا کے ایک اور پاسپورٹ ہولڈر موہن داس کرم چند گاندھی کو گولی لگی تو جناح صاحب نے اپنے تعزیتی پیغام میں یہ کیسے کہہ دیا کہ ’ہی واز اے گریٹ انڈین‘۔انہیں تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ ’ہی واز اے گریٹ برٹش سٹیزن ‘۔۔۔۔

اور پھر برطانیہ نے اپنے اس مایہ ناز شہری کی راکھ کنگا میں بہانے کی اجازت کیسے دے دی۔گاندھی جی کی ایک سمادھی لندن میں بھی تو بننی چاہیے تھی ؟؟؟

جناح صاحب کا مزار کراچی میں ہے۔۔تعجب ہے کہ لندن میں ایک مجسمہ تک نہیں۔۔۔کیا ایسے ہی قدر کرتا ہے برطانیہ عظمیٰ اپنے شہریوں کی ؟؟؟

ہم تاریخ کا مضمون سیاق و سباق و وقت و حالات کی روشنی میں پڑھنا کبھی سیکھ بھی پائیں گے یا پھر ’ کاتا اور لے دوڑی ‘ کے فارمولے سے ہی کام چلاتے رہیں گے ؟؟؟