یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں جوان اور میری بیوی کی عمر ۲۲؍ سال تھی۔ جوانی میں بالعموم میاں بیوی ایک دوسرے کے تقریباً دیوانے ہوتے ہیں، مگر اسے میری بدقسمتی بھی کہہ لیجیے کہ میری ازدواجی زندگی میں مسرت و خوشی کا ایک بھی پھول نہ کھلا۔ شادی ماں باپ کی مرضی سے ہوئی تھی، لڑکی کا انتخاب بھی انہوں نے کیا تھا۔ ان کے تجربات کی بنا پر مجھے یقین تھا کہ دوسرے نوجوانوں کی طرح شادی کے بعد میرے گھر میں بھی بہار آجائے گی۔ میں بھی محبت کے نغمات میں کھویا رہوں گا۔ یہ تو میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ شادی کے بعد خزاں کی کوئی پرچھائیں بھی ہمارے گھر میں پڑے گی۔مگر ہوا یہی کہ بہار کے بجائے خزاں میرا مقسوم ہوگئی۔ میری شریکِ حیات نہ صرف شکل و صورت کے اعتبار سے میرے معیار سے قطعی مختلف بلکہ اس کی مزاجی کیفیت بھی میرے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ اس کے ہونٹوں پر میں نے کبھی تبسم کی پریوں کو رقص کرتے نہ دیکھا۔ اس کے لبوں نے کبھی میرے کان میں شہد نہیں گھولا۔ اس کے بجائے اس کی تیوری ہمیشہ چڑھی رہتی۔ اس کے تلخ جملوں میں مجھے زہر کی تلخی محسوس ہوتی، یہ سب باتیں میرے لیے انتہائی روح فرسا تھیں، مگر شاید میں ان کا خوگر ہوجاتا لیکن مصیبت یہ آ پڑی کہ شادی کے بعد وہ شدید بیمار ہوگئی اور ایسی بیمار کہ مجبور ہو کر اُسے ہسپتال میں داخل کرنا پڑا۔ڈاکٹروں نے پہلے ہی دن معاینہ کے بعد بتا دیا کہ وہ زیادہ دن زندہ نہیں رہے گی۔ میں سنگ دل نہیں ہوں کہ کسی کی تکلیف سے متاثر نہ ہوں لیکن اس کی خطرناک بیماری سے یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ نہیں بچے گی، میں ذرا بھی متاثر نہ تھا۔ چنانچہ میں اس کی عیادت کے لیے ہسپتال بھی کبھی کبھی اخلاقاً چلا جاتا تھا۔ اُس نے میری اِس سردمہری کا اس نے کبھی شکوہ نہیں کیا۔ وہ کبھی ایک حرف بھی شکایت کا زبان پر نہیں لائی بلکہ ایک دن جب میں کئی دن کے بعد ہسپتال گیا تو اس نے رخصت ہوتے وقت مسکرا کر کہا کہ اب تمہیں زیادہ دن زحمت نہیں اٹھا نا پڑے گی۔ پابندی کی یہ زنجیرجو تمہارے پائوں میں پڑی ہے، بہت جلد ٹوٹ جائے گیاس کے ان الفاظ میں کرب تھا یاا س کی بدمزاجی کا زہر گُھلا ہوا تھا، میں نے اس کو محسوس نہیں کیا، لیکن یہ میری خواہش ضرور تھی کہ جلد از جلد یہ پابندی ختم ہو، چنانچہ میں بڑی شدت سے اس کا منتظر تھا کہ اس کے الفاظ حقیقت کا رنگ اختیار کریں، میرے علاوہ میرے والدین بھی اس کی صحت سے مایوس ہوچکے تھے اور ساتھ ہی انہیں یہ بھی یقین ہوچکا تھا کہ اس عورت کے ساتھ میری ازدواجی زندگی کبھی مسرتوں سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ اب وہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ میں اس کے صحت یاب ہونے کا انتظار کروں اور شاید اسی جذبہ کا ردِعمل تھا کہ انہوں نے انتہائی تیزی کے ساتھ کوئی ایسی شریف اور خوبصورت لڑکی تلاش کرنا شروع کر دی تھی جو میرے معیار کے مطابق اور میری خزاں رسیدہ زندگی کو بہار کے مفہوم سے آشنا کرسکے۔ لیکن میں نے مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ اس مرتبہ میں والدین کو شادی کا اختیار نہیں دوں گا۔ ایک بار سعادت مندی کا اظہار کرکے میں اپنی زندگی تباہ کرچکا تھا، اب میں دوبارہ اس کا اعادہ کرنے کے لیے اپنے کو کسی طرح آمادہ نہیں کرپاتا تھا۔اس پروگرام کے مطابق اس بار میں نے خود اپنے گرد نظر ڈالی، اپنے ملنے والوں، دوستوں سے کہا اور خاندان کی لڑکیوں کا جائزہ لیا۔ اس جائزے میں مجھے لادن کی شکل میں ایک متبسم کلی نظر آئی۔ لادن ایک ۲۰؍ سالہ الھڑ سکول کی طالبہ تھی۔ وہ کہنے کو ایک یتیم لڑکی مگر اس کے چہرے پر یتیموں کی طرح بے کسی نہیں برستی تھی۔ وہ سنگِ مرمر سے تراشا ہوا ایک حسین بُت تھی۔ تمام فکروں سے آزاد، سکول آتے جاتے میں نے کئی بار اُسے دزدیدہ نگاہوں سے دیکھا اور میرے دل نے یہ سرگوشی کی کہ لادن عمرخیام کی کسی حسین رباعی کی مکمل تفسیر ہے۔ مگر اس سرگوشی کے ساتھ میں یہ بھی سُن چکا تھا کہ بعض بڑے بڑے لوگ اس کے متمنی ہیں کہ یہ پھول اُن کے حصے میں آئے۔لادن کے گھروالوں سے ہمارے اچھے تعلقات تھے، وہ کبھی کبھی ہمارے گھر آتی بھی تھی۔ ایک روز میں نے سوچاکہ اگر میں اس طرح وقت گنواتا رہا اور لادن میرے ہاتھ سے نکل گئی تو پھر کیا ہوگا؟ اگر یہ بھی میں مان لوں کہ مجھے لادن سے بہتر لڑکی بھی نظر آسکتی ہے۔ پھر بھی یہ ضروری تو نہیں کہ وہ مجھے قبول بھی کرے۔ یہ سوچ کر میں نے ارادہ کرلیا کہ میں ضرور لادن کو اپنے دل کی لطیف دھڑکنوں سے آشنا کروں گا۔ اسے اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ جس روز میں نے یہ ارادہ کیا اس کے دوسرے ہی روز وہ کوئی کتاب مانگنے کے لیے میرے کمرے میں آئی۔ میں اس وقت بالکل تنہا تھا۔ والدہ اور والد بھی دوسرے کمرے میں تھے۔ اس سے اچھا موقع پھر کبھی نہیں مل سکتا تھا۔ چنانچہ میں نے مُسکرا کر اس کا استقبال کیا اور قبل اس کے کہ وہ کتاب وغیرہ کے سلسلے میں کوئی سوال کرے، میں نے آہستہ سے کہا:
’’لادن! میں نے سُنا ہے کہ تمہارے بہت سے خواستگار ہیں مگرتم نے سب کو ٹھکرا دیا ہے۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟‘‘لادن میرا سوال سن کر بری طرح گھبرا گئی اور وفورِحیا سے اس کا چہرہ سُرخ ہوگیا اور اس نے نگاہیں نیچی کرلیں۔ میرا حوصلہ بڑھ گیا اور میں نے بڑی لجاجت سے کہا۔
’’لادن! اگر میں یہ خواہش کروں کہ تم میری زندگی کی ساتھی بن جائو تو کیا میری یہ خواہش شرمندۂ تکمیل ہوسکے گی؟‘‘
جیسے کسی زہریلے جانور پر پیر پڑ گیا ہو، اس طرح گھبرا کر وہ پیچھے ہٹی اور پھر اس نے اپنا چہرہ اُٹھایا اور مجھے قہرآلود نگاہوں سے دیکھا۔ اس کے چہرہ پر برہمی کے آثار تھے اور غصے سے اُس کا بدن کانپ رہا تھا۔
’’تم… اور…میں۔‘‘ غصے کی وجہ سے وہ اپنا جملہ بھی مکمل نہ کرسکی۔
لادن کی یہ کیفیت دیکھ کر میں چند لمحے کے لیے تو بُری طرح گھبرا گیا۔ مگر میں نے جلد ہی اپنے اُوپر قابو پالیا اور اسے بڑی نرمی سے مخاطب کیا:
’’لادن میں نے کوئی بُری بات تو نہیں کہی ہے، بجائے بگڑنے کے تم جو کہنا چاہتی ہو صفائی سے کہو۔‘‘
اس نے میری بات اَن سنی کرتے ہوئے کہا۔
’’عجیب بات ہے، مجھے جانے دو۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہ تیر کی طرح کمرے سے باہر نکل گئی۔مجھے عشق و محبت کا اس سے پہلے کوئی تجربہ نہیں ہوا تھا۔میری زندگی کا یہ پہلا موقع تھا۔ میں نے حُسن کو اس طرح برہم ہوتے ہوئے بھی کبھی نہ دیکھا تھا۔میں اپنے اس اقدام پر کئی دن منفعل رہا مگر یہ عجیب بات ہے کہ اس انفعال کے باوجود میں لادن کو نہ بھلا سکا۔ اس کی تصویر میرے دل پر منعکس ہوگئی تھی۔
اس کے بعد پھر مجھے لادن سے ملنے کا اتفاق ہوا، مگر والدہ کی موجودگی میں اس لیے زبانی تو میں اس سے کچھ نہ کہہ سکا البتہ میری نظروں نے بہت کچھ کہہ دیا۔ اس کے بعد کئی بار اسکول آتے جاتے میرا اس کا سامنا ہوا۔ نظروں کا تبادلہ ہوتا رہا اور میں نے دیکھا کہ مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک پیدا ہوجاتی ہے اور پھر اس چمک کے ساتھ ساتھ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی کلیاں چٹکنے لگیں۔ ہم دونوں بہت قریب ہوگئے۔ میں نے اس سے وہ تمام محبت بھرے جملے کہہ دیے جن کو ادا کرنے کے لیے میں مدت سے ترس رہا تھا۔لادن کی ماں چاہتی تھی کہ وہ جلد از جلد اس کے بوجھ سے سبکدوش ہوجائے۔ اس کے اقتصادی حالات اب جوان لڑکی کو زیادہ عرصے تک گھر میں بٹھائے رکھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ مجھے لادن کی والدہ کی اس خواہش کا علم تھا اور اسی کے پیشِ نظر میں نے لادن سے کہہ دیا تھا کہ میں اپنی بیوی کے مرنے سے پہلے اس کے ساتھ شادی نہیں کرسکتا۔ اس معصوم دوشیزہ کو میری مجبوری کا صحیح اندازہ تھا مگر وہ اپنے گھریلو حالات کی بنا پر مجبور تھی کہ اپنی ماں کی خواہش کا احترام کرے۔ لیکن میری محبت کے جو پھول اس کے دل میں کِھلے ہوئے تھے، ان کی بنا پر میرے علاوہ کسی دوسرے مرد کا تصور بھی اسے گوارہ نہ تھا۔
ہم دونوں روزبروز قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے تھے۔ وہ میری محبت میں تقریباً دنیا کی ہر چیز کو فراموش کرچکی اور اس درجہ جذباتی ہوچکی تھی کہ بغیر کسی دینی و دنیاوی رسم کے میری زندگی میں شریک ہونے کے لیے بے تاب تھی۔ جوانی کے تقاضے اخلاقی تقاضوں سے منحرف ہوئے جا رہے تھے اور یہ ایک ایسا نازک مرحلہ تھا جب کہ ایک نوجوان اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ قریب تھا کہ میں بھی اس ہیجان کا شکار ہوجاتا کہ اچانک میرے دل نے مجھے متنبہ کیا اور میں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا۔ میرے منہ سے نکلا ’’تم پرائی امانت ہو۔‘‘لادن سپردگی کا جو انداز لے کر آگے بڑھی تھی، اس سے انکار کرکے میں نے حُسن کو برہم کردیا۔ یہ بہت بڑی خطا تھی، چنانچہ لادن مجھ سے خفا ہوگئی۔ اس نے نفرت سے مُنہ سکیڑ لیا۔ اس کے چہرے پر جلال برسنے لگا اور وہ یہ کہہ کر غصہ سے پائوں پٹکتی ہوئی چلی گئی۔
’’بے قدرے انسان! میرے دل میں اب تیرے لیے نفرت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔‘‘
مجھے لادن کی خفگی سے شدید صدمہ ہوا لیکن اس صدمہ کے ساتھ میں نے ایک عجیب سی راحت محسوس کی، بہت ہی عجیب اور میرے دل نے کہا:
اگر تو حُسن کے اس التفاتِ بے پایاں
کو نہ ٹھکراتا تو عشق میں وفا کا لفظ
ہمیشہ کے لیے بے معنی ہوجاتامیری بیو ی ابھی تک زندہ تھی۔ بظاہر وہ موت کے نزدیک تھی مگر معلوم ایسا ہوتا تھا کہ جیسے موت اس سے کھیل رہی ہے اور نہ معلوم موت کا یہ کھیل کب تک جاری رہے۔ بیوی کی اس زندگی اور اپنی محبت کی خودساختہ ناکامی سے میں بے حد غمگین تھا۔ مزاج میں شدت سے چڑچڑاپن پیدا ہوگیا تھا۔ کسی محفل میں دل نہیں لگتا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ کپڑے پھاڑ کر کسی ویرانے میں نکل جائوں۔ میرے دوستوں نے میری اس حالت کو محسوس کیا اور مجھے بہلانے کے لیے رقص و نغمہ کی محفلوں میں لے جانا شروع کیا۔ اس قسم کی ایک محفل میں پہلی مرتبہ میں نے سوسن کو رقص کرتے دیکھا۔ اس کے خدوخال بے حد دل آویز تھے۔ آنکھوں میں سمندر کی سی گہرائی، مُسکرانے کا ایک خاص انداز، اُسے دیکھ کر کئی مہینے بعد پھر مجھ میں زندگی کے آثار پیدا ہوئے، میں نے اس کے رقص میں خاص دلچسپی لی اور میری اس دلچسپی کے پیشِ نظر میرے ایک عزیز دوست نے مجھے سوسن سے باقاعدہ متعارف کرادیا۔ پہلی ہی ملاقات میں ہم بہت جلد گُھل مل گئے۔ باتیں کرنے میں اس کی زبان سے پھول جھڑتے تھے۔ وہ ایک حسین اور صحت مند خوش اخلاق اور مہذب لڑکی تھی اور ایک اچھے گھرانے سے تھی اور رقص و نغمہ سے اُسے کافی لگائو تھا۔وہ لادن سے ہر اعتبار سے بہتر تھی۔ اسے دیکھ کر یہ احساس ہوتا تھا کہ جیسے وہ کہہ رہی ہے ’’اگر میں تمہارے قریب رہوں تو دُنیا کا کوئی غم تمہارے پاس نہیں آسکتا۔‘‘
لادن کی بے مہری و بے اعتنائی نے جو زخم میرے دل میں ڈال دیا تھا سوسن کی سحرانگیز شخصیت نے بہت جلد اس گھائو کو بھر دیا۔
ہماری ملاقاتوں میں تسلسل پیدا ہوگیا اور ایک دن جبکہ میں اس سے کہنے ہی والا تھا کہ میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، اس نے خود مسکراتے اور شرماتے ہوئے کہا۔
’’تم میرے ہوش و حواس پر چھا گئے ہو۔‘‘یہ میری زندگی کا ایک انتہائی مسرورکن لمحہ تھا۔ میں اس ایک لمحے کی صحیح کیفیت الفاظ کے ذریعے بیان نہیں کر سکتا۔ اس اعترافِ محبت کے بعد ہم دونوں دنیا و مافیہا سے بے نیازہوگئے۔ میری پوری شدت سے خواہش تھی میں سوسن سے جلدازجلد شادی کرلوں لیکن میری بدبخت بیوی بدستور زندہ تھی۔ موت و زندگی کا مشترکہ رقص ہنوز جاری تھا۔
اس دوران کئی ایسے مواقع آئے جب ہم دونوں جذبات میں سب کچھ فراموش کردینے کو آمادہ ہوگئے لیکن ہرموقع پر میری بیوی کی بیماری کے ہیبت ناک و بھیانک تصور نے مجھے بڑی سختی سے روکا اور محبت کی نادانی کے سامنے خود کو سرجھکانے کا موقع نہیں دیا۔
اس زمانے میں جبکہ میں اور سوسن محبت کی وادیوں میں کھوئے ہوئے تھے، ایک دن اچانک میرے خُسر نے مجھے بلا کر کہا۔
’’اسٹاک ہام میں ایک مشہور ڈاکٹر ہے جو اُس مرض کا اسپیشلسٹ ہے جو تمہاری بیوی کو ہے۔ اس سے قطعِ نظر کہ تم اس بدبخت لڑکی کے شوہر ہو، انسانیت کا بھی یہ تقاضا ہے کہ تم اس کو اس مصیبت سے نجات دلانے کی کوشش کرو۔‘‘یہ کہہ کر میرے خُسر نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پھر ایک چیک میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا ’’یہ سوہزار تومان کا ہے۔ تم فوراً اپنی بیوی کو سویڈن لے جائو۔ رقم کی اگر اور ضرورت پیش آئے تو مجھے لکھ دینا۔ میں بھیج دوں گا۔‘‘
یہ حکم میرے لیے سوہانِ روح تھا۔ کئی روز تک فرض اور محبت میں جنگ ہوتی رہی اور آخر محبت ہار گئی اور میں سوسن، لادن اور بکھری ہزاروں حسین یادوں کو کلیجے سے لگائے ہوئے تہران سے روانہ ہوگیا۔ چلتے وقت میری آنکھوں سے آنسو جھانک رہے تھے اور میں بار بار رومال آنکھوں کے قریب لانے پر مجبور تھا۔
اسٹاک ہوم آئے مجھے ۱۵؍ دن گزر چکے تھے۔ بیوی ہسپتال میں داخل تھی۔ ڈاکٹر پوری توجہ سے اس کا علاج کر رہا تھا۔ علاج کے ۱۶؍ویں دن اس وقت مجھے انتہائی تعجب ہوا جب میری قریب المرگ بیوی نے آنکھیں کھولیں اور مجھے مُسکرا کر عجیب نگاہوں سے دیکھا۔ نہ جانے ان آنکھوں میں کیا جادو تھا کہ میں بھی مُسکرانے لگا اور بے ساختہ میں نے اس کے لاغر ہاتھ کو بڑی محبت سے دبایا۔تقریباً ۶؍ماہ ہسپتال میں گزر گئے۔ اس ۶؍ماہ میں میرے لیے اس کے سوا اور کوئی کام نہ تھا کہ میں اپنی بیوی کے سرہانے بیٹھا رہوں۔ میں نہیں جانتا کہ اس عمل نے کیا کیا کہ میرے اور میری بیوی کے درمیان اجنبیت اور بیگانگی کے جو پردے حائل تھے، وہ ایک ایک کرکے خودبخود ہٹ گئے۔ اس کی مسکراہٹ میں ایک عجیب سی اپنائیت اور اس کے لہجے میں خلوص کی کھنک تھی۔ اس کے بات کرنے کا انداز بالکل ہی بدلا ہوا تھا۔ اب میں اس کے لیے دُنیا کی سب سے قابلِ اعتماد شخصیت تھا اور آپ تعجب کریں گے وہی بدمزاج عورت جس کی موت کا متمنی تھا،اب مجھے اس قدر عزیز ہوگئی تھی کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔جب وہ ہسپتال سے صحت یاب ہو کر نکلی تو بالکل بدلی ہوئی تھی۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے غائب ہوچکے تھے چہرے پر زردی کی جگہ سُرخی تھی، وہ بات بات پر مُسکراتی تھی۔ آواز میں لوچ اور نرمی پیدا ہوگئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ علاج نے اس کے ذہن، دل اور اندازِفکر کو بالکل ہی بدل دیا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ میرا قصور ہے یا میری آنکھوں کا کہ اب اس کے حُسن کو دیکھ کر مجھے لادن اور سوسن اس کی کنیزیں دکھائی دیتی تھیں۔ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہم نے ایک سال تک یورپ کی سیاحت کی۔ اس سیاحت کے دوران مجھے تجربہ ہوا کہ وہ مجھے دیوانہ وار چاہتی، میری چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا خیال رکھتی اور میرے آرام و آسائش کی خاطر اپنے وجود کو بھلا دیتی ہے۔ ظاہر ہے اسی وفاشعار، خوش اخلاق بیوی کی موجودگی میں سوسن اور لادن کا تصور بھی میرے ذہن میں نہیں رہ سکتا تھا۔ چنانچہ ہم دونوں ایک سال کی سیاحت کے بعد جب تہران پہنچے تو میں ایک ایسا مثالی شوہر تھا کہ جس کے دل پر صرف بیوی کی حکومت تھی اور میرا گھر میرے لیے جنت تھا۔ تہران کی کوئی دلچسپی، کوئی ہنگامہ، رقص و نغمہ کی کوئی محفل اب میرے لیے باعثِ کشش نہ تھی۔ میں اپنی گم شدہ جنت پاکر بہت کچھ پاسکا تھا۔ گھر کے اندر میرے لیے سب کچھ تھا اور گھر کے باہر کچھ نہیں۔ان واقعات کو گزرے ۲۵؍ سال ہوچکے ہیں۔ میرے ۲؍لڑکے امریکا اور انگلستان میں اور ۲؍ تہران میں تعلیم پا رہے ہیں۔ دونوں لڑکیوں کی شادی اچھی جگہ ہو چکی ہے اور وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ مطمئن زندگی گزار رہی ہیں۔
اس سال کے شروع میں جب میری بیوی میٹرنٹی ہوم میں داخل تھی، مجھے ایک شادی میں شریک ہونا پڑا۔ وقت گزر رہا تھا مگر ابھی تک رخصتی عمل میں نہیں آئی تھی۔ میں ایک کونے میں خاموش بیٹھا سوچ رہا تھا کہ بیوی کے بغیر اس قسم کی تقریبات میں آکر آخر کیوں میں اپنے آپ کو تنہا تنہا محسوس کر رہا ہوں کہ اتنے میں ایک خوش لباس عورت باوقار انداز سے چلتی ہوئی میرے سامنے سے گزری۔ اس نے مجھے دیکھا چند قدم چلی اور پھر مجھ پر ایک نظر ڈالی اور پھر اچانک میرے قریب آ کر اس نے مجھے سلام کیا۔ میں نے اس کو نہیں پہچانا مگر اخلاقاً بڑی تہذیب سے سلام کا جواب دیا۔
وہ میرے قریب آ کر بیٹھ گئی اور مسکرا کر پوچھا:
’’کیا آپ نے مجھے نہیں پہچانا؟‘‘
’’جی نہیں، شاید آپ کو کسی اور کا مجھ پر دھوکا ہوا ہے۔‘‘’’جی نہیں میں آپ کو پہچانتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی نوجوان لڑکی کو آواز دی، جو مجھ سے کچھ دور چند دوسری لڑکیوں سے باتوں میں مشغول تھی، قبل اس کے کہ لڑکی میرے قریب آئے، اس عورت نے مجھے بغور دیکھا، تاکہ میں اُسے پہچان لوں۔ مجھے خیال آیا کہ میں اس قسم کا چہرہ پہلے دیکھ چکا ہوں۔ مگر کہاں یہ مجھے یاد نہیں آرہا تھا۔
اتنے میں لڑکی قریب آگئی۔ اس عورت نے اسے مجھ سے متعارف کراتے ہوئے کہا۔
’’بیٹی ان سے ملو یہ ہیں وہ جن کا ذکر میں اکثر کرتی ہوں۔ جنھوں نے مجھے نیک و بد کی تمیز کرنا سکھائی۔‘‘
لڑکی نے بڑے اَدب سے مجھے سلام کیا مگر میں چکرا رہا تھا کہ یہ عورت آخر ہے کون؟ اتنے میں وہ پھر بولی۔
’’میں لادن ہوں، لادن! تم میرے محسن ہو، تم نے مجھے زندگی کا حسن اور کردار کی پاکیزگی عطا کی ہے۔ میں تمہاری عظمت کا اعتراف کرتی ہوں اور میری تمنا ہے کہ میرے بچے اور شوہر تم جیسے مثالی انسان ثابت ہوں۔ دراصل میری خوشگوار زندگی تمہاری مرہونِ منت ہے۔ سچ کہتی ہوں میں اب بھی اکثر اس تصور سے خوفزدہ ہوجاتی ہوں کہ اگر ان لمحات میں جبکہ میں جوانی کے جوش میں سب کچھ بھول گئی تھی اگر خدانخواستہ تم بھی جذباتی ہوجاتے تو میر اکیا حشر ہوتا اور آج میں کیا ہوتی۔ اے عظیم انسان! تم ہمیشہ خوش رہو۔‘‘یہ کہہ کر وہ عورت باوقارانداز سے لڑکی کا ہاتھ تھام کر دوسری طرف چلی گئی۔ اس وقت اس کے چہرے پر بچوں کی سی معصومیت تھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ لادن سے ملاقات کے ایک ہفتے بعد مجھے ایک تجارتی ضرورت سے لندن جانا پڑا جہاں سوسن سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ لندن میں اپنے لڑکوں کے پاس جو یہاں زیرِتعلیم ہیں، چھٹیاں گزارنے آئی ہوئی تھی۔
سوسن نے اپنے گھر پر میری پُرتکلف دعوت کی اور کھانے کے دوران اس نے کہا ’’شادی کے بعد بھی کئی سال تک تمہاری دشمن رہی۔ تم کو بے وفا اور اسی قسم کے اَن گنت القاب سے نوازتی رہی لیکن اب جبکہ میں کئی بچوں کی ماں ہوں تو مجھے یہ احساس ہوا ہے کہ حقیقی محبت اور انسانی عظمت کیا ہے۔‘‘
میں نے ہنس کر کہا ’’چھوڑو اُن گزشتہ باتوں کو۔‘‘میرا یہ جملہ سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور انتہائی کربناک لہجہ میں بولی’’یقین مانو! میں تم سے اب بھی محبت کرتی ہوں، بے پایاں محبت! لیکن یہ محبت اس محبت سے مختلف ہے! اب مجھے تمہارے کردار اور تمہاری عظمت سے پیار ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ تم نے مجھے شوہر اور محبت سے سچی محبت کرنا سکھایا ہے۔‘‘
’’اگر تم اس زمانے میں میرے اندازِسپردگی سے متاثر ہوکر جذباتی ہوجاتے تو آج میری اس چھوٹی سی دنیا کا وجود نہ ہوتا۔ جس میں میرے شوہر کی حکمرانی ہے۔ جہاں نیک اور سعادت مند بچے ہیں جہاں مامتا کا اصل روپ ہے۔‘‘
پھر وہ خاموش ہوگئی۔ کھانے کے بعد جب میں چلنے لگا تو اس نے دردناک لہجے میں کہا:
’’میں نہیں جانتی کہ تم کس طرح زندگی گزار رہے ہو لیکن مجھے یقین ہے کہ تم یقینا خوش قسمت ہوگے کیونکہ ایسا انسان کبھی بدقسمت نہیں ہو سکتا جو دوسروں کو عفت مآبی کے مفہوم سے آشنا کرے، جوانی کے جذبات بھی جس کے کردار سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں۔ سلام! اے عظیم شخص۔۔ اے بلند انسان۔۔۔