میں حسب معمول صبح کی پہلی زیر زمین گاڑی سے اپنے کام کی طرف جا رہا تھا۔ گاڑی کے کچھ مسافر پر سکون انداز میں بیٹھے اخبار کے مطالعے میں مصروف تھے تو کچھ اپنی سوچوں میں گم اور کئی ایک تو بیٹھے اونگھ بھی رہے تھے۔
سب کچھ ٹھیک جا رہا تھا کہ اچانک ایک سٹیشن سے ایک آدمی اپنے دو بچوں کےساتھ گاڑی میں سوار ہوا۔ بچے کیا تھے کہ آفت کا پرکالا تھے، انہوں نے آتے ہی گاڑی میں وہ اودھم مچایا کہ الامان الحفیظ۔ ٹک کر بیٹھنا تو انہوں نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ مگر اس سب سے بر عکس ان بچوں کے ساتھ گاڑی پر سوار ہونے والا شخص میرے پہلو میں ان سب باتوں سے بے خبر اپنی آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا۔ بچے ایک دوسرے سے لڑنے اور جھگڑنے اور خوب چیخ و پکار کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر چیزیں بھی اُٹھا کر پھینک رہے تھے۔ مسافر بھی بچوں کے شر سے محفوظ نہیں تھے کیوں کہ بچے کبھی کبھار تو مسافروں سے اخبار چھین کر بھاگ رہے تھے تو کبھی مسافروں کے اخبار پھاڑ رہے تھے۔ جبکہ یہ شخص ان سب باتوں سے بے نیاز بے حس اور ساکن بیٹھا تھا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس دنیا میں کوئی شخص اتنا بھی احساس سے عاری اور اسقدر گھٹیا ہو سکتا ہے کہ بچوں کو اودھم مچانے کی کھلی چھٹی دیکر بیٹھ جائے؟
میرا صبر جواب دے گیا۔ میں نے اس شخص سے مخاطب ہوکر کہا، جناب آپ کے بچوں نے پوری گاڑی میں سوار لوگوں کے ناک میں دم کر رکھا ہے، آپ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ آپ پر اس سب کچھ کا ذرا برابر بھی اثر نہیں ہو رہا؟
آدمی نے اپنی آنکھیں کھولیں اور گردو نواح پر ایک نظر ڈالی اور سب کچھ ایسے دیکھا گویا پہلی بار یہ سب کچھ دیکھ رہا ہو۔ اس نے بڑی نرمی سے مجھے کہا، جی آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مجھے اس صورتحال کا تدارک کرنا چاہئے۔ ہم لوگ ابھی ابھی ایک ہسپتال سے آ رہے ہیں جہاں گھنٹہ بھر پہلے ان بچوں کی ماں کا انتقال ہو گیا ہے۔ میرا دماغ سوچنے سے عاجز ہوا بیٹھا ہے کہ ان بچوں کو اس صدمے سے کیسے آگاہ کروں اور ان بچوں کو بھی کچھ احساس نہیں ہے کہ ان پر کیسی قیامت گزر چکی ہے اور وہ کیسے اس صورتحال کا سامنا کریں گے۔
کوفی کہتا ہے کہ آپ خود اندازہ کیجئے یہ سب کچھ سن کر میرا کیا حال ہوا ہوگا؟ چند لمحات پہلے تک اگر میں بچوں پر تلملایا اور جھنجھلایا بیٹھا تھا تو اب میرا دل بچوں کیلئے رحم اور ترس سے بھرا ہوا تھا۔ میں اس گھمبیر صورتحال کا خوب اندازہ کر سکتا تھا، دل تھا کہ رونے کو آ رہا تھا مگر میں نے جس انداز سے اس آدمی سے بات کی تھی اس پر خجالت بھی اپنی جگہ پر تھی۔ آخر میں نے ہمت کر کے اس سے پوچھ ہی لیا تو گویا گھنٹہ بھر پہلے آپ کی گھر والی کا انتقال ہو گیا ہے؟ مجھے یہ سب جان کر بہت صدمہ ہوا ہے۔ کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟
********
جی یہ قصہ بس اتنا سا ہی تھا جو ختم ہو گیا ہے۔مگر۔۔۔۔۔ اس قصے کو سن کر جو محسوسات پیدا ہوتے ہیں وہ کچھ یوں ہیں کہ :
ہمارے عجلت میں کئے ہوئے فیصلے اکثر و بیشتر بد گمانی اور بد ظنی پر مبنی ہوتے ہیں جو صحیح اسباب جاننے کے بعد ہمارے لئے ندامت اور پشیمانی کا باعث بنتے ہیں۔ گویا ہم کئی بار دوسروں پر ظلم کر کے اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں۔