اسلام نے عورت کو چار بہترین روپ میں عصمت کی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ عورت ماں کے روپ میں شفقت کی دیوی، بہن کے روپ میں پیکر ایثار، بیوی کے روپ میں پیار کا سمندر اور بیٹی کے روپ میں باپ کی بخشش کا سامان اور عزت و تکریم کا نشان ہے۔

میڈیا اور ترقی نے عورت کو اس کے مقام سے کہیں دور دھکیل دیا ہے۔ شرم وحیا کی پیکر آج نہایت بلیغ انداز میں انڈین فلموں پہ تبصرے کرنا اپنا اولین فرض سمجھتی ہیں۔ مغرب ممالک نے ہماری دکھتی رگوں پہ ہاتھ رکھ کے فیشن کی مار مارا ہے۔ انہی ممالک کی دیکھا دیکھی مسلم معاشرے بھی جدت پسند بنتے جا رہے ہیں اور کچھ تعلیم یافتہ لوگوں نے پردے کو ترقی کی راہ میں حائل قرار دیتے ہوئے عورت کو جو ترقی دی ہے اس کا صحیح اور جائز حق نظر نہیں آتا۔

انتہائی افسوس کا مقام ہے جس قوم کی عورت کو دیکھ کر کافر ادب سے کھڑے ہو جایا کرتے تھے آج اسی قوم کی بیٹیاں سر پہ ڈوپٹہ اوڑھنا اور پردہ کرنا جہالت سمجھتی ہیں اور اپنے لیے نمائش پسند کرتی ہیں۔ شاید انہیں یہ علم ہی نہیں کہ خود کو ڈھانپنے کا حکم اللہ کی طرف سے ہے مگر نوجوان نسل اتنی منہ زور ہو چکی ہے کہ مائیں سمجھانے سے پہلے سو بار خود سوچتی ہیں۔ فیشن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانے والی لڑکیاں اپنے دائمی نفع کو اور بخشش چھوڑ کر عارضی آشائشوں میں مگن عذاب جہنم کو خوب دعوت دے رہی ہیں۔

کہاں سے لائی جائیں وہ مائیں جنہوں نے قرآن سیکھا اور اس کی تعلیمات کو حرف آخر بنا کر اپنی زندگیوں کو روشن بنایا جن کے بطن سے امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل، امام شافی اور شیخ عبدالقادر جیسے بیٹے پیدا ہوئے۔ بد نظری زنا کی پہلی سیڑھی ہے اگر انسان اپنی نگاہ نیچی رکھے تو اس فتنہ سے بچا جا سکتا ہے، جب نفس پاک ہو تو چہرے پر پاکیزگی کا نمایاں نکھار نظر آتا ہے۔

اگر عورت کے ہاتھ میں مرد کے سکون اور ترقی کی ڈور ہے تو مرد کی پستی کی وجہ بھی یہی ہے موجودہ دور میں مردوں کی بڑی تعداد پردے کے خلاف ہے کہیں بھائی بہن کو، باپ بیٹی کو اور کہیں خاوند بیوی کو سرے عام بے پردہ لیے گھومتے ہیں، بے پردہ عورت نہ صرف بے برکتی اور افلاس کو گھر میں دعوت دیتی ہے بلکے مرد کو بھی بے غیرت ظاہر کرتی ہے اور جب مرد بے غیرت ہو تو ایک فرد بے غیرت ہوتا ہے جبکہ عورت بے غیرت ہو تو پورا معاشرہ تباہی کا شکار بنتا ہے۔