‎6 ستمبر 1929ء کو علم دین بازار سے ایک چھری خریدکر سیدھا راجپال کی دکان کی طرف روانہ ہوا۔ راجپال ابھی دکان پر نہیں آیا تھا۔ علم دین نے اس کا انتظار کیا اور جیسے ہی راجپال اپنی دکان میں داخل ہوا علم دین نے چھری سے اس کے سینے پر زوردر وار کیا جو اس کے دل میں پیوست ہوگیا۔راجپال موقع پر ہی ڈھیر ہوگیا۔ پولیس نے اسے گرفتار کرلیا اور اس پر قتل کا مقدمہ درج کرکے کیس چلایا گیا۔ علامہ اقبال کی درخواست پر قائداعظم محمد علی جناح نے علم دین کا مقدمہ لڑا۔ قائداعظم نے ایک موقع پر علم دین سے کہا کہ وہ جرم کا اقرار نہ کرے۔ غازی علم دین نے کہاکہ میں یہ کیسے کہہ دوں کہ میں نے یہ قتل نہیں کیا،مجھے اس قتل پر ندامت نہیں بلکہ فخر ہے، کورٹ نے علم دین کو سزائے موت دی۔ قائداعظم محمد علی جناح لبرل تصور کئے جاتے تھے اور اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے بہت بڑے حامی تھے، ہندو اخبارات نے ان پر کڑی تنقید کی لیکن قائداعظم نے اس تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا ”مسلمانوں کیلئے حضور اکرمﷺ کی ذات مبارکہ ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔ “
31 اکتوبر 1929ء غازی علم دین شہید کی سزائے موت پر عملدرآمد کا دن تھا۔

علم دین سے ان کی آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ غازی علم دین کو جب پھانسی گھاٹ پر لایا گیا اور جب پھندا ان کی گردن میں ڈالا گیا تو اس نے وہاں موجود لوگوں سے کہا ”اے لوگو! گواہ رہنا میں نے راجپال کو نبی کریمﷺ کی شان میں گستاخی کرنے پر واصل جہنم کیا ہے، آج میں آپ سب کے سامنے کلمہ طیبہ کا ورد کرکے حرمت رسولﷺ پر اپنی جان نچھاور کررہا ہوں۔“غازی علم دین شہید کو پھانسی کے بعد برطانوی حکومت نے ان کی میت بغیر نماز جنازہ جیل کے قبرستان میں دفنادی جس پر مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور علامہ اقبال نے ایک مہم چلائی اور آخر کار انگریزوں کو یہ یقین دہانی کے بعد کہ” لاہور میں تدفین کے موقع پر ہنگامہ آرائی نہیں ہوگی“ اس کی اجازت دے دی گئی۔ 15 دن بعد جب غازی علم دین شہید کی میت کو قبرسے نکالا گیا تو ان کا جسد خاکی پہلے دن کی طرح تروتازہ تھا۔ علم دین شہید کے والد نے علامہ اقبال سے علم دین کی نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی جس پر علامہ اقبال نے ان سے کہا کہ وہ بہت گناہ گار انسان ہیں، اس لئے اتنے بڑے شہید کی نماز جنازہ وہ نہیں پڑھاسکتے۔“غازی علم دین شہید کی نماز جنازہ لاہور کی تاریخ کی سب سے بڑی نماز جنازہ تھی جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ عاشق رسول کے جنازے کو کندھا دے۔ علامہ اقبال نے غازی علم دین شہید کی میت کو کندھا دیا اور اپنے ہاتھوں سے انہیں قبر میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ اقبال نے نم آنکھوں کے ساتھ کہا ۔ ”ترکھان کا بیٹا آج ہم پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا اور ہم دیکھتے ہی رہ گئے۔“ علم دین شہید کی پھانسی کے بعد ایسے حالات پیدا ہوئے جس کے بعد انگریزوں کو قوانین میں تبدیلی کرنا پڑی اور کسی بھی مذہب کی توہین کو جرم قرار دیا گیا اور اس طرح ایک نوجوان کی قربانی قانون میں تبدیلی کا پیش خیمہ بنی۔آزادی پاکستان کے بعد توہین رسالت کے قانون کو ”پاکستان پینل کوڈ“ کا حصہ بنایا گیا اور 1982ء میں اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق نے اس قانون میں ترمیم کرتے ہوئے قرآن کریم کی توہین کی سزا عمر قید جبکہ حضور اکرمﷺ کی توہین کی کم از کم سزا موت رکھی۔