ابّا کے انتقال کے بعد مجھے جو سب سے بڑا بوجھ اٹھانا پڑا، وہ تھا پورے ہردوئی شہر کے سارے دوکانداروں، دفتروں میں کام کرنے والوں اور ہر محلے میں مقیم عمر رسیدہ لوگوں سے ملتے، راہ چلتے، خرید و فروخت کرتے سلام کرنا، ان کی کبھی نہ ختم ہونے والی ہمدردی کا سرجھکاکر متانت سے جواب دینا۔ حد یہ تھی کہ مجھے یتیم ہوئے سال گذر گیا ، میرے زخم بھر گئے، لیکن ان تمام لوگوں نے بلا تفریق مذہب و ملت اپنے سلوک میں ذرا بھی کمی نہیں آنے دی۔ پتہ نہیں ابا نے ان کے درمیان کس قدرمحبت لٹائی تھی اور اخوت کی کون سی روایت جاری کی تھی کہ اچانک ان کے بعد وہ سب مجھ کو ہی مع سود واپس کر رہے تھے۔
مجھے ایک کاپی خریدنے کے لئے بڑے چوراہے جانا ہے، لیکن راستہ میں ابراہیم ٹیلرماسٹر کی آواز پر رکنا ضروری ہے، دو قدم بعد خراد کے کارخانے سے مختار چچا کو اپنی خیریت بھی بتانا ہے اور انکے گلے کی خرابی پر تشویش بھی ظاہر کرنی ہے۔ چھوٹے چوراہے پر قطار سے ابا کے چاہنے والے پنساری دوکانداروں، پان فروشوں، سبزی فروشوں اور کپڑے کی دوکانوں میں بیٹھے سبھی لوگوں کو میرے لئے بنی انکی تشویش کا ازالہ کرنا ضروری تھا۔ یہ سب ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ ۔۔۔ کیسے لوگ تھے اور کیا زمانہ تھا۔۔۔محبت بھی بوجھ بن سکتی ہے اس کا تجربہ بھر پور ہو رہا تھا۔ کسی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کے لئے بھی مجھے واپس آنے کے لئے آدھا گھنٹہ چاہئے ۔ ابا نے اپنی وراثت میں دولت چاہے کم چھوڑی ہو ، لیکن پیار و اخوت کی بارش میں بھیگ بھیگ کر میرا برا حال تھا۔ یہ دنیا تھی جو میرے ابا نے میرے لئے چھوڑی تھی اس پر نہ تو تقسیم ملک کا کالا سایہ پڑا اور نہ ہی بدلتی تہذیب کے تند جھونکے اس کا رخ موڑ سکے۔
انٹرمیڈئیٹ تک تعلیم مکمل کرکے بالآخر مجھے ہردوئی سے باہر نکلنا پڑا۔
لکھنؤ میں الکٹرکل انجینیرنگ ڈپلوما کی تعلیم شروع ہوئی۔ تین سال گذرے، پھر دو سال اسی پالی ٹیکنک میں ڈمانسٹریٹر کی سروس کے بعدریلوےکے ڈیزیل انجن کارخانہ بنارس میں بطور جونیر انجینیر سروس کرلی۔ اس درمیان لگ بھگ چھہ سال ہردوئی سے ناتا صرف تیوہاروں تک سمٹ گیا ۔ صرف عید یا بقرعید پر ایک دو دن کے لئے جاتا تھا۔
ایسے ہی کسی موقع پر ہردوئی کی پرانی سڑکوں پر کسی ضرورت سے گذر رہا تھا۔ احتیاطاً نظریں نیچی کر رکھی تھیں کہ مبادہ کسی بزرگ سے نظریں ملیں اور میں پھر اسی جال میں پھنس جاؤں۔ راستہ کی بھیڑ، جو ان چھہ سالوں میں دو گنی ہو چکی تھی، کے درمیان سے گذرتے ہوئے سامنے سے آنے والی سواریوں سے بچنا ضروری تھا۔ آگے نظر اٹھی تو ایک کمزور لاغر سی ‘ کایا ’ دوسرے فوٹ پاتھ پر سامنے سے آتی ہوئی دکھی۔ کچھ کشش کا سبب ضرور تھا کہ میں بار بار اس طرف دیکھنے کو مجبور ہورہا تھا۔ آنکھیں ان کی بھی مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہی تھیں۔۔۔ مستقلاً گھورتی آنکھیں۔۔۔۔
جب میں نے محسوس کیا کہ وہ میرے پاس آنے کے لئے فوٹ پاتھ کراس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو میں خود ہی ان کی جانب چلا گیا۔ اس بیچ ان کا بایاں ہاتھ دھوتی کی کناری پکڑ چکا تھا اور میرے دماغ میں‘ گنیش جی’ کا لفظ بجلی کی مانند کَوند گیا۔ یہ تو میرے درجہ چھہ سات میں سناتن دھرم انٹر کالج کے ہندی ٹیچر شاستری جی ہیں۔ اس وقت یہ پستہ قد لیکن اچھی صحت اور بڑے پیٹ کی وجہ سے ہم لوگوں کے بیچ گنیش جی کے نام سے مشہور تھے۔ آج وقت کے تند جھونکوں نے انھیں ایکدم خستہ اور لاغر بنا دیا۔ نہایت ضعیف لگ رہے تھے۔
قریب پہونچنے پر جیسے ہی میرے ہاتھ سلام کے لئے بلند ہوئے، کانوں میں آواز آئی ‘‘ کیسے ہو ۔۔۔احتشام؟’’
مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ اُن سے میں تقریباً بارہ سال بعد مل رہاتھا اور پھر بھی انھوں نے میرا نام یاد رکھا۔
ان کا اگلا سوال تھا ـ ‘‘ بنارس سے کب آئے؟’’۔۔۔ اسکا مطلب تھا کہ وہ میرے بارے میں ساری جانکاری رکھتے تھے۔
اسکے بعد تو انھوں نے پُرانی یادوں اور ابا سے اپنے تعلقات بیان کرنے کا ایک لمبا سلسلہ شروع کردیا۔ بتایا کہ وہ پانچ سال پہلے اسکول سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ اُس وقت کے ہمارے کلاس ٹیچر بابو وجے شنکر کا انتقال ہو گیاہے۔
ہاں ! جب انھوں نے یہ بتایا کہ میرے ہسٹری ٹیچر اوم دت شرماؔ جی بھی اس دنیا میں نہیں رہے تو میرے منھ سے بے تحاشہ ‘‘ ہُرّ ا ’’ کی صدا نکلنے جارہی تھی جسے فوراً کسی طرح گلے میں ہی دبا دیا۔ در اصل میری پوری اسکولی زندگی میں کبھی کسی استاد نے مارا نہیں تھا، لیکن یہ ظالم شرما ؔ جی وہ شخص تھے جنھوں نے مجھے بھی نہیں بخشا۔ ان کے مرنے کی خبر سے میرے دل میں کہیں بند پڑے خوف نے اچانک دم توڑ دیا۔ بالآخر مجھے ضرر پہونچانے والی آخری ہستی بھی اس دنیا میں نہیں رہی۔
شاستری جی بیچارے سمجھ رہے تھے کہ مجھے اس خبر نے بہت صدمہ پہونچایا ہے۔ بولے ارے بیٹے اب تو ہم پکے پھل ہیں ، کون پہلے ٹپک جائے معلوم نہیں۔ جب تمہارے والدین بچھڑ گئے تو ہم سب بھی تیار ہیں۔ دل پر مت لینا۔ وغیرہ وغیرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اپنی زندگی کے آخری کنارے پر کھڑے ہوئے سوچتا ہوں میرے بزرگوں نے میرے لئے ورثہ میں کیا معاشرہ، کیا تہذیب اور کیا اخوت چھوڑی تھی۔ محبت کی وہ بارشیں تو اب بھائی بہنوں میں بھی عنقا ہیں، محلہ شہر کی تو بات دور کی ہے۔ اور پھر ہم آج دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اپنے بچونکو کیا وراثت دے رہے ہیں؛ اس لٹی ہوئی دنیا کا ذمہ دار ہمارے علاوہ کون ہے۔ سلوک کس طرح سودے میں بدل گیا۔ بے لوس محبت ہم سے کہاں کھوگئی ۔آج کے معاشرہ میں بارودی بدبو اور گولیوں کا خوف کس نے پیدہ کیا۔ کیا ہم اس کے ذمہ دار نہیں ؟؟؟