’’نہیں بھائی آج آٹا نہیں ملے گا پہلے کا ادھار چکتا کرو ‘‘ یہ دوکاندار کے الفاظ تھے جو اجمل کے زہن میں گھوم رہے تھے جبکہ اس کا چار سال کا بیٹا بلک بلک کے رو رہا تھا ، اجمل کی بیوی تو نوکری چھوٹنے کے دوسرے دن ہی اسے چھوڑ کے چا چکی تھی ، اس کی بڑی بیٹی سانیہ کو فوت ہوئے آج ایک سال ہو چکا تھا ۔۔ یہی وجہ تھی حد سے زیادہ ہی اداس تھا اور گہری سوچوں میں گم تھا، آنسوں اس کی داڑھی میں گر کر موتیوں کا سماں باندھ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اجمل آج سے 6 مہینے پہلے فیصلہ آباد کی ایک فیکٹری میں کام کر رہا تھا اس کی دو بیٹیاں تھی اور ایک بیٹا تھا جو چار سال کا تھا ، بڑی بیٹی آٹھویں میں تھی جبکہ چھوٹی بیٹی چھٹی میں پڑھتی تھی ، اجمل کی بیوی ایک مقامی دیہات سے ہی تھی ۔۔ ایک سال پہلے اس کی بڑی بیٹی کو اچانک بخار ہوا ، ڈاکٹروں نے بتایا ڈینگی ہے اسے لاھور لے جاؤ ، اجمل وہاں لے گیا ڈاکٹروں نے کہا بھئی 50 ہزار لگے گا ، اجمل نے اپنی بیوی کے کچھ زیورات تھے وہ بیچ ڈالے اور بیٹی کے علاج کے لیے پیسہ دے دیا ، ابھی ہسپتال میں ہی تھی کی ڈاکٹروں نے 50 ہزار اور مانگ لیے اجمل نے اپنی فیکٹری سے رابطہ کیا لیکن سیٹھ نے دینے سے انکار کر دیا ، باقی رشتہ داروں سے قرض لیا،سامان بیچا اور بمشکل 12 ہزار اکٹھے کیے ، لیکن ڈاکٹروں نے اس کی بیٹی کی لاش تھما دی بولے کہ وائیٹ سیل ختم ہو گئے تھے ، اجمل نے 12 ہزار کی تجہیز و تکفین کر دی ، اس کے بعد وقت گزرتا گیا ، اجمل کی بیوی بھی ایک فیکٹری میں کام کرتی تھی لیکن مہنگائی کی وجہ سے خرچ پورا کرنا مشکل ہو گیا پھر ایک دن گیس شٹ ڈاؤن اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے سیٹھ نے 500 مزدور فوری فارغ کر دیئے اجمل بھی انہی میں تھا ، اجمل بیروزگار ہو کہ گھر پہ آ گیا ، دو مہنیے اس کہ بیوی بیمار رہی ، اجمل اس کا علاج نہیں کروا سکا بس دیسی ٹوٹکے اور اسپرین دیتا رہا، اس کو سسر ایک دن دیکھنے آیا بیٹی کی حالت برداشت نہ کر سکا جب دیکھا کہ بیٹی کے گھر بھوک کے لالے پڑے ہیں تو اجمل کو خوب لعن طعن کی اور بیٹی کو ساتھ لے گیا ، اجمل کیا کرتا وہ روزانہ صبح مزدوری تلاش کرنے کے لیے نکل جاتا دن بھر زلیل ہوتا اور دھکے کھاتا ،کبھی کام مل جاتا کبھی خود بھی بھوکا سو جاتا اور بچے بھی رو دہو کے چپ ہو جاتے ، اجمل نے گھر کا سارا سامان بھی بیچ ڈالا تھا ، آج اس کے گھر میں کوئی چیز نہیں تھی جو کہ وہ بیچ کے کچھ آٹا خرید کے اپنے بچوں کے لیے لاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے گھر میں ہر شام ہی شام غرباں تھی ۔۔۔۔۔۔۔

کافی دیر یوں ہی گزر گئی ، پھر اچانک اجمل اپنی گہری سوچوں سے واپس آیا اس کی 8 سال کی بیٹی رباب سو چکی تھی جبکہ اس کا 4 سالہ بیٹا بھی روتے ہوئے نیند کی وادی میں جا چکا تھا ۔۔۔۔ اجمل نے اپنے بچوں کو پیار سے دیکھا اور گھر سے باہر نکلتے ہی اندھیرے میں غائب ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوچئیے نجانے کتنے اجمل آج ایسی صورتحال سے دوچار ہیں کہ ان کے بچوں کو بھوکا سونا پڑتا ہے ، نجانے کتنے بیروزگار اب تک خودکشیاں کر چکے اور دوسری طرف ہمارے امراء جن کی اولاد منہ میں سونے کا چمچے لے کے پیدا ہوتی ہے اور جن کے کتوں کے لیے بھی باہر سے ڈاگ فوڈ امپورٹ کیا جاتا ہے ۔۔۔۔