تحقیقات کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ برطانیہ نے ایک بدنام اور عریاں تصاویر کی اشاعت کے مشہور اخبار دی سن نے ایک پاکستانی کو استعمال کر کے پاکستان کے خلاف جھوٹا پاسپورٹ اسکینڈل کھڑا کیا تھا اور اسی بدنام اور عریاں تصاویر شائع کرنے والے برطانوی اخبار کی جھوٹی خبر پر ہی پاکستان میں میڈیا نے طوفان کھڑا کردیا اور حکومت نے دھڑا دھڑ گرفتاریاں شروع کردیں۔حالانکہ اس اخبار کی خبر پر برطانیہ میں بھی کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ اب جب کہ گرد بیٹھ چکی ہے اور حقائق سامنے آئے ہیں کہ خبر مکمل طور پر جھوٹی تھی توجعلي اولمپکس ويزا اسکينڈل ميں گرفتار نادرا کي 3 خواتين سميت8 ملازمين کے خلاف مقدمے ختم کردئيے گئے ہین اور وزير داخلہ رحمن ملک اور وزير قانون فاروق نائيک آئندہ ہفتے ملاقات کريں گے جس ميں جعلي ويزا اسکينڈل ايشو پر برطانوي اخبار کے خلاف قانوني چارہ جوئي کا فيصلہ کيا جائے گا ۔ذرائع کے مطابق بدھ کو کابينہ کے اجلاس ميں متعدد وزيروں نے اس بات پر شديد تنقيد کي کہ ايک غيرملکي بے بنياد خبر پر پاکستان کے ميڈيا ميں ايک ہنگامہ کھڑا کرديا گيا جنگي ہيرو کرنل احمد خان خٹک کو جو نادرا ميں خدمات انجام دے رہے ہيں‘ صفائي کا موقعہ دئيے بغير برطرف کرديا گيا ذرائع کا کہنا ہے کہ قانون وانصاف کے وزير فاروق ايچ نائيک نے کہا کہ جس نے نادرا اہلکاروں کي گرفتاري کے احکامات جاري کئے اسے گرفتار کرليا جائے وزيراطلاعات ونشريات قمر زمان کائرہ نے کہا کہ ايک بے بنياد خبر پر پاکستان ميں ابھار پيدا کرنے کا کوئي جواز نہيں تھا اور سب کچھ جلد بازي ميں کيا گيا سيد خورشيد احمد شاہ نے کہا کہ اس سارے معاملے کي غيرجانبدارانہ تحقيقات ہوني چاہئے اور فيصلہ وزيراعظم پر چھوڑ ديں۔ بابر غوري نے کہا کہ اگربرطانوي اخبار کي خبر غلط تھي تو پاکستان ميں گرفتارياں کيوں کي گئيں۔ ذرائع نے کہا کہ چيئرمين نادرا طارق ملک نے جب کابينہ ميں اس جعلي اسکينڈل اور پاکستان کو بدنام کرنے کي سازش بے نقاب کي تو وزراء ششدر رہ گئے طارق ملک نے بتايا کہ نادرا نے تحقيقات کے بعد اخبار دي سن کي لندن اولمپک کيلئے پاسپورٹ اور ويزا کے بارے ميں جعلي اسکينڈل کے بارے ميں اہم حقائق معلوم کئے ہيں‘ تحقيقات کے مطابق پاسپورٹ اور شناختي کارڈ بنواتے وقت کوئي خلاف ضابطہ يا غيرقانوني کارروائي نہيں کي گئي محمد علي اسد ولد محمد انور صديقي نامی پاکستانی جو کہ برطانیہ میں رہتا ہے اسنے دراصل دي سن اخبار کے ايما پر خود ہي دستاويزات کيلئے پراسس کيا تھا ۔محمد علي اسد نے دي سن کيلئے انڈر کور کے طور پر کام کيا وہ 10 جولائي کو نادرا آفس باغبانپورہ گيا تاکہ اپنے کميپوٹرائزڈ شناختي کارڈ ميں فوٹو تبديل اپ ڈيٹ کروا سکے يہ تاثر غلط ہے کہ وہ کسي اور کے کارڈ پر اپني تصوير اپ ڈيٹ کروانے کيلئے گيا تھا جيسا کے دي سن ميں دعوی ديا گيا ہے ڈيٹا بيس ميں اس کے پرانے ريکارڈ کي جانچ کے بعد محمد علي اسد کے کمپيوٹرائزڈ شناختي کارڈ کو اپ ڈيٹ کرديا گيا شناختي کارڈ ميں مزکورہ تبديلي کروانے کے بعد اس نے 13جولائي 2012کو مشين ريڈ ايبل پاسپورٹ کيلئے درخواست پراسس کروائي جو 18 جولائي 2012کو اسے دے ديا گیا۔ یہ سب کرانے کے بعد برطانوی اخبار نے دعوی کردیا کہ اس کے رپورٹر نے کسی اور کے پاسپورٹ کو اپنے نام سے حاصل کرلیا ہے حالانکہ یہ سفید جھوٹ تھا اور یہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ خود اس ایجنٹ کا اپنا تھا۔چشم کشا حقائق کے منظرعام پر آنے کے بعد اس بات ميں کوئي شک نہيں ہے کہ اس خطرناک کوشش کا مقصد نادرا کے کمپيوٹرائزڈ قومي شناختي کارڈ اور پاسپورٹ اجراکے نظام کي وقعت کو ختم کرنا تھا اور پاکستانی میڈیا اور حکومت نے اس مشن میں پوری طرح معاونت کی اور پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی۔