امریکہ ہو کہ آسٹریلیا ۔۔۔کینیڈا ہو کہ یورپ مسلمانوں کے لئے وحشت بنتے جا رہے ہیں ۔۔ جاب نہیں ۔ترقی نہیں ۔۔ رہنا مشکل ۔۔ مہنگائی ۔۔ توبہ ۔۔ میں فون پر پاکستان میں امی جی کو بتا رہا تھا ۔۔ مجھے یقین تھا کہ وہ وہی سن سن کر ہولا رہی ہونگی اور ان کی دعائیں مزید طویل ہو گئی ہونگی ۔۔ لیکن کیا کرتا کل ہی اپنے لبنانی دوست اسماعیل سے بات ہوئی تھی وہ توایک عرصہ سے سڈنی کا رہنے والا تھا اس تک نے اپنا نام بدلنے کا سوچ رکھا تھا ۔۔ اور کئی دنوں سے مجھے بھی قائل کر رہا تھا ۔۔ اورمیں اپنی ہی سوچ میں گم تھا ۔۔ سوچتا رہتا ہوں کہ ترقی کے لئے شائد ایسا نام ہونا چاہئے جس سے یہ پتہ نہ چلے کہ میں مسلمان ہوں ۔۔باقی کون پوچھتا ہے کہ تم کون ہو ؟ ۔۔کہاں سے آئے ہو ۔۔؟

کیا فرق پڑتا ہے پاکستانی ہو کہ سری لنکن یا انڈین ۔۔ ؟ اسماعیل نے آخر مجھے قائل کر ہی لیا ۔۔ اور اب میں “ برتھ اور میرج رجسٹری آفس“ کی طرف جا رہا تھا ۔۔ سفید ٹیکسی دروازے پر آچکی تھی ۔۔ دروازہ کھول کر میں ڈرائیور کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔۔ ٹیکسی ڈرائیور اپنے چہرے مہرے اور لہجہ سے فلپائن کا رہنے ولا لگ رہا تھا ۔۔ بوٹا سا قد ۔۔ گندمی رنگ ۔۔ چھوتی روشن آنکھیں ۔۔ خوش اخلاق سی مسکراہٹ ۔۔یونیفارم میں بھی وہ جاذب نظر لگ رہا تھا ۔۔ میں نے کوٹ اور بیریف کیس دونوں پچھلی سیٹ پر رکھ دئے اور خود تھوڑی دیر کو آنکھیں بند کر لیں . ۔۔ اب ٹیکسی آہستہ آہستہ سڑک پر دوڑتی ہوئی اپنی منژل کی طرف بڑھ رہی تھی ۔ میں چپ اپنی سوچوں میں ڈوبا خود کو ہی مطمئن کر رہا تھا کہ کیا واقعی مجھے اچھی نوکری پانے اور اچھی محفوظ زندگی گزارنے کے لئے اپنا نام بدل لینا چاہئے ۔

محمد علی ، میرے شہزادے ، نام انسان کی پہلی پہچان ہوتا ہے جو اسے اس کے ماں باپ ، اپنے ماں باپ سے پوچھ کر رکھتے ہیں ۔۔اور وہ بھی خود نام نہیں رکھتے بلکہ پہلے استخارہ کر کے اللہ کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں پھر کو ئی اچھا سا با معنی نام رکھتے ہیں ، برکت کے لئے عقیقہ کرتے ہیں ۔۔ صدقہ خیرات کر کے ساری عمر کے لئے حفاظت میں رہنے کی دعا کرتے ہیں ۔۔ ایسے ناموں کی برکتیں نسل در نسل اس خاندان میں منتقل ہوتی ہیں اور اپنے نام کی انہیں برکتوں کے ساتھ جب وہ سب سے ملتا ہے تو میرے بچے وہاںاپنے آپ روشنیاں پھیل جاتی ہیں ۔۔ امی جی کا فلسفہ ہمیشہ ہی میری سوچ کے آڑے آجاتا تھا۔۔ پر جانےکیوں مجھے اپنا نام صدیوں پرانا لگتا تھا ۔۔ اور میں جب بھی اپنے نام کو بدیسی نظروں سے دیکھتا تو ہر کوئی اسے ٹکڑے ٹکڑے کرتا دیکھائی دیتا تھا ۔۔اور میری خواہس ہر پل اور بڑھ جاتی ۔

مجھے یاد ہے پچھلی بار جب پاکستان گیا تھا تو میں کئی بار اپنا نقطہ نظر سمجھاتے ہوئے چیخ پڑا تھا ۔۔میرا نام سنتے ہی جاہل سے جاہل انسان کو بھی پتہ لگ جاتا ہے کہ میں مسلمان ہوں ۔۔۔ اب بھلا مسلمانوں میں رہاہی کیا ہے ،نہ کردار ، نہ حیا ،نہ زمیداری نہ غیرت نہ حمیت ۔۔ جب مجھ میں کچھ ہے ہی نہیں تو میں کیوں اپنے نام کو ان میں رکھوں ۔۔ ہونگے بہادر غیر مند اسلامی ۔۔ اب نہیں ہیں تومیرا کیا قصور ہے ابا جی .. جو دنیا کا سارا خسارہ میں اٹھاؤں ۔۔

اب ابا جی بھی تو دنیا دار نہیں تھے ۔۔ انہیں بھی نام کے حوالے سے جتنی حدیثیں یاد ہوتی سنائے بغیر نہ رہتے ۔۔ اور آخر میں ضرور کہتے کہ “ نام بھی سفارش ہوتا ہے محمد علی ۔۔ سوچ قیامت کے دن اس نام سے اٹھائے جاؤ گے ۔۔ کیا وہ پاک رب ان ناموں کی لاج نہ رکھے گا ۔۔ ویسے بھی یہ نام اللہ بخشے تمہارے داد دادی کا تحفہ ہے ۔۔ انہیں واپس کرتے ہوئے کیسا لگے گا ۔۔ ابا جی نے ایک امید سے مجھے دیکھا تھا اور میں مایوسی سے انہیں دیکھ رہا تھا ۔۔

اس بحث کو سننے کے بعد بھلا بڑے ماموں کیوں چپ رہتے جو مجھ سے ملنے اسی دن لاہور سے کراچی پہنچے تھے ۔۔ اپنی مہربان سی آوازمیں مجھے سمجھاتےرہے ۔۔جب انسان اپنی حفاظت کے لئے اپنی تہذیب اور مذہب کو لاوارث چھوڑ کر دفن کر دیتے ہیں تو اس کے جد امجد نہیں مرتے بیٹا بلکہ وہ خود مر جاتا ہے اور اپنی آنے والی نسلوں کا بھی گلا گھونٹ دیتا ہے ۔۔۔اور میں ان سے بھی یہی کہتا رہا تھا کہ “ میرا نام اولڈ فیشن نام “ ہے اور سب کی نظروں میں بھی رہتا ہے ۔۔ اس نام سے نہ تو نوکری ملتی ہے اور نہ ترقی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اپنے مسلمان بھی فرقہ واریت کی نظر کر دیتے ہیں ۔۔ پھر بڑے ماموں بھی افسوس میں سر ہلاتے ہوئے مایوس سے اٹھ کر چلے گئے تھے ۔۔

بڑی پھوپھو سیدہ جو گاؤں سے کچھ دنوں کے لئے ہمارے گھر آئی ہوئی تھیں وہ بھی الٹا مجھے ہی سمجھانے بیٹھ گئی .. سن بیٹے جو لوگ اپنی جد امجد کے ناموں سے شرم کرتے ہوں سوچ زرا انہیں دین و دنیامیں سوائے رسوائی کے ملے بھی تو کیا ملے ۔۔ اپنے رب سے احسان فراموش نہیں کرتے میرے بچے .. پھوپھو کو تو ضرور ہی ایسے موقع پر لیکچر دینا ہوتا ہے ۔۔میں جھنجھلا کر اٹھ گیا تھا ..

مجھے جانے کیوں یہ باتیں یاد آئے جا رہی تھیں پر آج میں ہر سوچ کو جھٹک دینا چاہتا تھا ۔۔ سچ تو یہ تھا کہ میری ضد سڈنی آ کر بے لگام سی ہوگئی تھی کیونکہ اس دیرینہ خواہش کو بدیسی ملکوں میں پورا کرنا آسان تر ہوتا ہے ۔۔ سو فون پر مسلسل بحث و تکرار کے بعدگھر والوں کو بھی میری بات ماننا ہی پڑا ۔۔ بھلا وہ میری نوکری ، ترقی اور اپنی حفاظت کی مشکل کو کیسے پڑتا دیکھ سکتے تھے ۔۔

آپ کیسے ہیں ۔۔؟ ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے مسلسل چپ دیکھ کر میٹھی سی آواز میں انگریزی میں پوچھا ۔۔

میں پہلے تو مسکرا دیا پھر جانے کیوں اس سے وہ سب کچھ کہہ گیا جو شاید میں ابھی تک کھل کر کسی سے نہ کہہ پایا تھا .. شاید اس کے پوچھنے میں اپنایت ہی اتنی تھی ۔۔ دیکھئے نہ پچھلے دس پندرہ برسوں میں دنیا بھر کے حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ اب اپنے نام سے بھی ڈر لگنے لگا ہے ۔ آئے دن کی پکڑائی اور بلیک لسٹڈ اور ٹیرارزم کے لیبل سے پریشان ہو رہا ہوں ۔۔ ٹیکسی ڈرائیور سے باتیں کرتے ہوئے میں نے الجھن سے باہر کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں اندازہ بھی لگایا کہرجسٹری آفس کتنی دور رہ گیا ہے ۔۔

کیوں خیر ہے نہ ؟ کیا آپ کسی مشکل میں ہیں ۔۔ اب فلپائینی ٹیکسی ڈرائیور مجھے سوچوں میں گھرا دیکھ کر اور میری تفصیل سن کر فکرمند سا لگ رہا تھا ۔۔
مسلمان ہونے سے بڑی مشکل اور کیا ہو سکتی ہے ۔۔ ؟ میں نے افسردگی سے کہا
آپ مسلمان ہیں کیا ۔۔؟ اس نے اشتیاق سے پوچھا
آپ کا نام ۔۔ ؟ ٹیکسی ڈرائیور نے بڑی محبت سے میری طرف دیکھتے ہوئے دوسرا سوال کر دیا ۔۔
محمد علی ۔۔ میں نے اداسی سے اسے بتایا اور گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے اسے منزل تک جلد پہنچانے کی درخواست بھی کی
اوہ ۔۔ اس نے حیرت اور استعجاب سے میرے ملال کو سمجھنا چاہا ۔۔ وہ قطعا میرے دکھ سے ناواقف تھا
اور .. ..
آپ کا نام ۔۔ جانے کیوں جب مجھے اس کی آئی ڈی ڈیش بورڈ کے اوپر لگی نہ ملی تو میں نے بھی جھجھکتے ہوئے اس سے اس کا نام پوچھا ہی لیا حالانکہ میں جانتا تھا کہ اس کا نام بینکی ، ڈاتو یا زیادہ سے زیادہ ڈانیلو ہی ہو گا ۔۔
جی میرا نام ۔۔ میر انام ۔۔ “ علی بابا “ ہے ۔۔ اس کے لہجے کا فخر ایک ٹھنڈ کی طرح مجھ میں اتر رہا تھا
کیا ۔۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف گردن موڑتے ہوئے قدرے اونچی آواز میں کہا ۔۔ اور وہ میری حیرت کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا .. اس کی چھوٹی پر روشن آنکھوں کا نور ہی کچھ اور تھا ..
جی میرا نام علی بابا ہے ۔۔ “ علی “ میں نے خود رکھا اور “ بابا“ یار دوست میری باتوں کی وجہ سے مجھے محبت میں کہتے ہیں ۔۔ وہ بتا رہا تھا ..وہ بھی کئی سال پہلے اسی برتھ اور میرج رجسٹری آفس میں اپنا نام بدلنے آیا تھا ۔۔
کیوں ۔۔؟ کیسے ۔۔ ؟ مجھے جانے کیوں وہ فلپائنی اپنے قد سے کہی بڑا لگا ۔۔ وہ بڑے جذب میں مجھے تفصیل بتا رہا تھا ۔۔ کہ وہ ایک دن یونہی کوئی اخبار پڑھ رہا تھا جس میں ایک کوٹیشن لکھی ہوئی تھی ۔۔

“ زندگی میں ہمشیہ اپنے چاہنے والوں کی کمی محسوس کرواو مگر یہ دوری اتنی لمبی نہ ہو کہ کوئی آپ کے بغیر جینا سکیھ لے ۔۔ مولائے کائینات علی علیہ السلام “

محمد علی صاحب اس کوٹیشن کو پڑھ کر مجھے یوں لگا جیسے میرے ماں باپ بہن بھائی بیوی بچے دوست احباب سب مجھ سے دور ہو گئے ہوں ۔۔ بس یوں سمجھیں کہ اس دن وہ سب اتنا یاد آئے کہ بتا نہیں سکتا .. اورسوچا کہ واقعی اس سے پہلے کہ میری دوری ان سب سے اتنی بڑھ جائے کہ وہ سب میرے بغیر جینا سیکھ لیں اور میں یہاں صرف پیسے بنانے والی مشین بن کر رہ جاؤں ، مجھے واپس اپنوں میں چلے جانا چاہئے ۔۔ اور پھر میں ان کے پاس فلپائین واپس چلا گیا ۔۔ اور تھوڑے ہی عرصے میں ان سب کو یہاں اپنے ساتھ ہی لے آیا ۔۔ اس نے مسکرا تے ہوئے مجھے اور میری حیرت کو دیکھا اور توقف کر کے بولا ۔۔ یہ میری سوچ نہیں محمد علی صاحب بلکہ یہ میرا یقین ہے کہ جس نام نے مجھے دنیا کی ہر خوشی کا پتہ دیا ہو، سوچیں اس نام کی نسبت مجھے کتنا اونچا اڑا سکتی ہے ۔۔۔اتنا اونچا .. شاید آسمان کی دوسری طرف بھی .. اس کی خوشی اس کے چہرے پر تھی اور روح کا سکون اس کی باتوں سے چھلکا پڑ رہا تھا .. اور میں ساکت تھا .. وہ کہہ رہا تھا

محمد علی صاحب میں آپ جیسا مسلمان نہیں ہوں ۔۔ نہ میرے ماں باپ مسلمان ہیں ۔۔ نہ مسلمانوں میں رہتا ہوں ۔۔ لیکن مجھے فخر ہے کہ میرا نام “ علی بابا“ ہے ۔۔ اور مجھے اپنے نام سے عشق ہے ۔۔ کاش ہر انسان اپنی پہچان کو سمجھ سکے ۔۔اور اس کی قدر بھی کر سکے ..

لیجئے جی محمد علی صاحب آپ کی منزل آ چکی ہے ۔۔۔ علی بابا نے رجسڑی آفس کی پارکنگ میں گاڑی پارک کرتے ہوئے کہا
آپ صحیح کہتے ہیں ۔۔ میں نے مسکرا تے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور پھر سکون سے آنکھیں بند کر کے اپنا سر سیٹ کی پشت سے ٹکا دیا .. میری آواز میں میری روح کی صدا تھی ..
آپ گاڑی واپس موڑ لیجئے علی بابا ۔۔۔ محمد علی کو اب کہیں نہیں جانا ۔۔