ایک راستہ ہے اس میں کانٹے دار جھاڑیاں ہیں – ایک آدمی بے احتیاطی کے ساتھ اس راستے میں گھس جاتا ہے –

اس کے جسم میں کانٹے چبھ جاتے ہیں –

کپڑا پھٹ جاتا ہے –

اپنی منزل پر پہنچنے میں اسے تاخیر ہو جاتی ہے –

اس کا ذہنی سکون درہم برہم ہو جاتا ہے –

اب وہ آدمی کیا کریگا – کیا وہ کانٹے کے خلاف ایک کانفرنس کریگا –

کانٹے کے بارے میں دھواں دھار بیانات شائع کریگا –

وہ اقوام متحدہ سے مطالبہ کریگا کہ دنیا کے تمام درختوں سے کانٹے کا وجود ختم کر دیا جائے –

تا کہ آئندہ کوئی مسافر کانٹے کے مسئلے سے دو چار نہ ہو –

کوئی سنجیدہ اور با ہوش انسان کبھی ایسا نہیں کر سکتا اس کے بر عکس وہ صرف یہ کریگا کہ وہ اپنی نادانی کا احساس کریگا –

وہ اپنے آپ سے کہے گا کہ تم کو الله تعالیٰ نے جب دو آنکھیں دی تھیں ، تو تم نے کیوں نہ ایسا کیا کہ کانٹوں سے بچ کر چلتے –

تم اپنا دامن سمیٹ کر کانٹوں والے راستے سے نکل جاتے –

اس طرح تمہارا جسم بھی محفوظ رہتا اور تم کو منزل تک پہنچنے میں دیر بھی نہ لگتی –

الله تعالیٰ نے درختوں کی دنیا میں یہ مثال رکھی تھی –

تا کہ انسانوں کی دنیا میں سفر کرتے ہوئے اس سے سبق لیا جائے –

مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی اس آیت کو کبھی کسی نے نہیں پڑھا –
خدا کو اس پیغام کو سن کر کسی نے اس سے سبق نہیں لیا –

آج کی دنیا میں آپ کو بیشمار ایسے لوگ ملیں گے جو انسانی کانٹوں کے درمیان بے احتیاطی کے ساتھ سفر کرتے ہیں –

اور جب کانٹے ان کے جسم کے ساتھ لگ کر انھیں تکلیف پہنچاتے ہیں ، تو وہ ایک لمحہ سوچے بغیر کانٹوں کو برا کہنا شروع کر دیتے ہیں –

وہ اپنی ناکامی کو دوسروں کے خانہ میں ڈالنے کی بے فائدہ کوشش کرنے لگتے ہیں –

ایسے تمام لوگوں کو جاننا چاہیے کہ جس طرح درختوں کی دنیا سے کانٹے دار جھاڑیاں ختم نہیں کی جاسکتیں ، اسی طرح سماجی دنیا سے کانٹے دار انسان بھی ختم نہیں ہونگے ، یہاں تک کہ قیامت آجائے –

اس دنیا میں محفوظ اور کامیاب زندگی کا راز کانٹے دار انسانوں سے بچ کر چلنا ہے –

اس کے سوا ہر دوسرا طریقہ صرف بربادی میں اضافہ کرنے والا ہے ، اس کے سوا کچھ نہیں –