واقعہ تو شاید آپ میں سے کئی لوگوں نے سنا ہو لیکن حالات کے تناظر میں اسے ایک بار پھر رقم کرنا زیادہ بہتر محسوس ہوتا ہے۔ گئے وقتوں کی بات ہے کہ جب نہ بجلی ہوتی تھی اور نہ پانی سے بجلی بنانے کا فن ایجاد ہوا تھا اس لئے وزیر بجلی و پانی کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ایک بادشاہ اور چند وزرا اپنے سے زیادہ اپنی رعایا کا خیال رکھنے ki سعی میں مصروف رہتے تھے۔اس دور میں راتوں کو لوگ چراغ کی روشنی میں اہم امور سے جلد از جلد فراغت حاصل کرکے بستروں میں دبکنے کو ترجیح دیتے تھے۔ نہ تو راتوں کو اعلی ایوانوں میں سازشیں ترتیب دی جاتی تھیں اور نہ ہی غریب گلیوں کوچوں کے تھڑوں پر بیٹھ کر ان پر محو گفتگو نظر آتے تھے۔ ہر شخص اپنے کام میں سے کام رکھتا تھا اور ہر کسی کے دکھ درد میں شریک رہنے کو ترجیح دیتا تھا۔راوی ہر طرف امن و چین کی بانسری بجائے گھومتا تھا ۔لیکن اس دور میں بھی بدقسمتی سے کچھ ایسے بدبخت موجود تھے جو کام چور ہونے کے باعث گھر بیٹھے روزی رزق حاصل کرنے کی اسکیمیں بنایا کرتے تھے اور اس میں ناکامی کے بعد چھوٹی موٹی چوری کی وارداتوں سے اپنا دال دلیا چلانے کی کوشش کرتے تھے۔لیکن چونکہ حکمران آج کل کے برعکس اچھے تھے اور زندہ لوگوں کے گھروں میں چوری کی واردات میں پکڑے جانے کا ڈر لاحق رہتا تھا اس لئے اس زمانے کے ایک بدبخت شخص نے اپنے دیگر حواریین سے مشاورت کرکے ایک نیا پیشہ ایجاد کیا۔ یہ تھا کفن چوری کا پیشہ۔ اس پیشے میں نہ تو کوئی دنیاوی ڈر تھا نہ خوف۔زندہ لوگ تو شاید چوری کی واردات کے بعد حاکم وقت کے پاس شکایت لے پہنچتے جس کے بعد ہونےو الی تحقیق میں چور کی نشاندہی ممکن ہوتی لیکن مردے اس زمانے میں بھی نہیں بولا کرتے تھے۔کچھ عرصے تک تو کفن چور انتہائی احتیاط اور کامیابی سے وارداتیں کرتا رہا لیکن کچھ عرصے بعد جب بارش کے پانی سے کچھ قبریں بیٹھ گئیں تو لوگ چند تازہ قبرو ں میں بے کفن مردے پڑے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس دن یہ انکشاف ہوا کہ حاکم وقت کے خوف سے ایک کفن چور پیدا ہوچکا تھا۔علاقے محلے کے لوگوں نے حاکم وقت کو بتایا، بڑی تگ و دد اور کوششیں کیں لیکن کوئی یہ جاننے میں کامیاب نہ ہوسکا کہ کفن چوری کی وارداتیں کرنے میں کون ملوث تھا۔معاملات اسی طرح چلتے رہے اور وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ایک شخص پر شک ہوگیا کہ یہی کفن چور تھا۔بات حاکم وقت تک پہنچی لیکن گواہان نہ ہونے کی بنا پر مجرم کو سزا نہیں دی جاسکتی تھی۔بہرحال لوگوں نے صبر کرلیا اور کفن چور کے مرنے کا انتظار کرنے لگے۔انہیں معلوم تھا کہ کفن چور کی موت کے بعد ہی وہ اس برائی سے چھٹکارا حاصل کرسکتے تھے کیونکہ کفن چور انتہائی ہوشیاری اورمہارت سے اپنا کام اس طرح کرتا تھا کہ قبر کو بالکل نقصان نہ پہنچتا اور کفن اس کے ہاتھ میں آجاتا تھا۔لوگ ہر قبر کو روز کھول کر بھی نہیں دیکھ سکتے تھے کہ کس قبر کے مردے کا کفن چوری ہوچکا ہے ۔یہی وہ چند وجوہات تھیں جن کی بنا پر کفن چور کا دال دلیا چلتا رہا۔قدرت ہر شخص کو ایک مقررہ وقت تک مہلت دیتی ہے۔یہی کفن چور کے ساتھ ہوا اور اس کا بھی آخری وقت آپہنچا۔مرتے وقت کفن چور نے اپنے بیٹےکو بلایا اور اسے اپنی زندگی کی تمام کتھا سناتے ہوئے کہا کہ اس نے یہ کام صرف اور صرف اپنی اولاد کا پیٹ بھرنے کی خاطر کیا اس لئے اب وہ اپنے بیٹے سے یہ چاہتا ہے کہ وہ اس کے مرنے کے بعد کوئی ایسا کام کرے جس کی وجہ سے لوگ اسے برے الفاظ میں یاد کرنے کے بجائے دعائیں دیں۔بات عجیب بھی تھی اور مشکل بھی۔کفن چور کو یقین تھا کہ اس کے مرنے کے بعد لوگ اسے یقیننا برے الفاظ سے ہی یاد کریں گے کیونکہ ساری زندگی وہ ان کے مردے خراب کرتا رہا تھا۔بیٹے کو باپ کے پیشےکا پہلے سے ہی علم تھا۔باپ کی خواہش اسے بھی بظاہر ناممکن نظر آتی تھی لیکن کفن چور کا بیٹا بھی اپنے باپ کا اصلی وارث تھا۔ اس نے اپنے باپ سے وعدہ کیا کہ وہ یقیننا ایسا کوئی کام ضرور کرے گا جس سے اس کے مرنے کے بعد نیک نامی ہوگی۔بیٹے کی زبان سے یہ عہد سن کر کفن چور نے پرسکون انداز میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔لوگوں کو جب معلوم چلا کہ کفن چور چل بسا ہے تو وہ دنیا وکھاوے کی خاطر اس کے کفن دفن کے انتظام میں شریک تو ہوئے لیکن ہر کسی کی زبان پر کفن چور کے لئے دعائیہ الفاظ کے بجائے لعن طعن اور پھٹکار تھی۔کفن چور کے بیٹے کے کان میں جب یہ آوازیں پڑین تو اسے بڑا دکھ ہوا اور اسے اپنے باپ سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا۔اس موقع پر اس نے اپنے آپ سے ایک بار پھر پکا عہد کیا کہ وہ چند ہی روز مین کوئی ایسا کارنامہ انجام دے گا جسے دیکھ کر لوگ اس کے باپ کو دعائیں دین گے۔ اور پھر یہی ہوا۔چند روز بعد جب لوگ صبح سو کر اٹھے تو حیران و پریشان رہ گئے اور ان کی چیخیں نکل گئیں۔رات کو مرنےو الے شخص کی لاش قبر سے باہر بے گور وکفن پڑی تھی۔کسی نے کفن چرانے کے بعد لاش کو قبر سے نکال کر اس کی بے حرمتی بھی کی تھی۔یہ منظر دیکھ کر چندرو ز قبل پرانےتک کفن چور کے لئے لعن طعن کرنےو الی ہر زبان پراس کے لئے تحسین آمیز الفاظ رواں تھے کہ پرانا کفن چور تو بیچارہ بہت نیک تھا، اللہ اسے جنت نصیب کرے۔بال بچوں کے پیٹ کے خاطر صرف کفن چرایا کرتا تھا لیکن کبھی لاش کی بے حرمتی نہ کی۔اللہ اسے کروٹ کروٹ سکون نصیب کرے۔نئے کفن چور نے تو کفن چرانے کے علاوہ لاش کی بھی بے حرمتی کی و غیرہ وغیرہ۔

گستاخی معاف، لیکن پاکستان میں بھی شاید کوئی کفن چور قبیلہ برسراقتدار آچکا ہے جو سپریم کورٹ کو سبق سکھانے کی خاطر ایک کفن چور کے جانے کے بعد زیادہ گھاگ اور بدکردار کفن چور میدان میں لے آیا ہے۔امید ہے آپ سمجھ تو گئے ہوں گے