ماحول میں ہر طرف اندھیرے اور خاموشی کا راج تھا۔ اعصاب شکن اور لرزہ خیز خاموشی جو گھپ اندھیرے سے ہی جنم لیتی ہے۔ سیاہ بل کھاتی سڑک کی اطراف میں نصب کھمبے ظلمت کا سینہ چیر نے کی جدوجہد کر رہے تھے۔ رات بوجھل اور انسانی قدموں سے محروم تھی۔
اچانک شب کا سحر ٹوٹا اور سناٹے میں کسی کے مضبوط قدموں کی کھٹ کھٹ گونجنے لگی۔ پیہم تواتر کے ساتھ ایک دراز قد شخص سڑک کو جیسے روند رہا تھا۔ چلتے ہوئے وہ شخص بڑے چوکنے انداز سے اِردگرد کا جائزہ بھی لیتا۔ سڑک سنسان ہونے کے باعث وہ وسط میں چل رہا تھا۔ اچانک عقب میں کسی کار انجن کی آواز سنائی دی۔ وہ خطرہ محسوس کرتے ہی پھرتی سے ایک طرف ہٹ گیا۔ دوسرے ہی لمحے تیزرفتار کار قریب سے گزر گئی۔ اگر اسے ایک لمحے کی بھی دیر ہو جاتی تو وہ صحیح سلامت نہ بچتا۔اس نے غصے سے دور جاتی کار کی طرف دیکھا اور لاپروائی سے سر جھٹک کر آگے بڑھا۔ ہوا لمحہ بہ لمحہ سرد ہو رہی تھی۔ سرما کی راتیں ویسے بھی طویل اور کٹھن ہوتی ہیں۔ خاص طور پر اُن کے لیے جو آرام دہ گھروں سے دور کوچہ گردی پر مجبور ہوں۔ اس شخص کے قدموں کی آواز دور تک پھیل رہی تھی۔ اس کے ہر انداز سے پھرتی اور بے چینی جھلک رہی تھی، جیسے وہ کچھ کر گزرنے کے لیے مضطرب ہو۔ جب وہ سڑک کے کنارے بنی نیم پختہ عمارت کے قریب پہنچا، کونے میں دبکا سیاہ رنگت والا کتا بھونکتا ہوا اس کی طرف لپکا۔وہ ٹھٹھک کر ایک لمحے کے لیے رکا پھر کُھردری آواز میں اسے دھتکارا۔ کتا سہم کر وہیں دبک گیا۔ تبھی اسے عمارت میں بار نظر آیا۔ اُس کی آنکھوں میں چمک لہرانے لگی۔ وہ تیزی سے بڑھا اور بار کا دروازہ کھول اندر داخل ہوگیا۔ پھر دستانے اتارتا ہوا کائونٹر کی طرف بڑھا۔ بار میں صرف ایک آدمی نظر آیا۔ وہ کائونٹر کی دوسری طرف کیش بکس کھولے، شاید دن بھر کی آمدنی کا حساب کتاب کر رہا تھا۔ جیسے ہی اس نے نووارد کے قدموں کی چاپ سنی تو سیف بند کیا اور اُسے کائونٹر کے نیچے کھسکا دیا۔ ’’فرمایئے جناب! ‘‘ اس نے پوچھا۔’’ایک پیگ!‘‘ نووارد نے مختصراً کہا۔ بار والا تیزی سے ایک طرف بڑھ گیا۔ وہ آنے والے سے خائف لگ رہا تھا۔ اس نے کن انکھیوں سے اپنے گاہک کا جائزہ لیا اور جلدی سے ایک پیگ بنا سامنے رکھ دیا۔
’’آج موسم کچھ زیادہ ہی خراب ہے۔‘‘ نووارد نے ایک اسٹول اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔
’’جی، جی ہاں!‘‘ بار والا ہاتھ رگڑتے ہوئے بولا۔ اس کی گھبراہٹ بدستور قائم تھی۔
’’تمھارا بار آبادی سے ہٹ کر واقع ہے۔ تمھیں یہاں پریشانی تو نہیں ہوتی؟‘‘ نووارد نے عام لہجے میں پوچھا۔
’’پریشانی تو کوئی نہیں، البتہ ابھی دھندہ صحیح طرح جما نہیں۔ خراب موسم ہو تو گاہک اِدھر کا راستہ ہی بھول جاتے ہیں۔‘‘ بار والے نے کچھ سوچ کر کہا۔ ’’دراصل یہاں سے گزرنے والے مسافر اور گاڑیوں کے ڈرائیور ہی آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ وہ سرد راتوں میں بہت کم آتے ہیں۔‘‘
’’پھر بھی دن بھر یہاں تانتا بندھا رہتا ہوگا۔‘‘ نووارد نے اُسے تیز نظروں سے دیکھ کر پوچھا۔
’’اب ایسا بھی نہیں، ہاں اِکا دُکا کاہگ آتے رہتے ہیں۔‘‘ اس نے مشکوک انداز سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا اور جھاڑن اٹھا کر بلاوجہ کائونٹر صاف کرنے لگا۔
نووارد نے ایک چسکی لی پھر بولا ’’میرے دوست! تمھاری آنکھوں سے خوف اور شبہ جھلک رہا ہے۔ شاید تم مجھے کوئی بڑا لٹیرا سمجھ رہے ہو؟‘‘
’’جناب! حالات دن بدن خراب ہو رہے ہیں۔ پھر آئے دن وارداتیں بھی ہوتی رہتی ہیں۔‘‘ بار والا جیسے اپنی صفائی میں بولا۔
’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو، میں دراصل سرکاری سُراغ رساں ہوں، یہ رہا میرا شناختی کارڈ۔ میں ایک مفرور مجرم کی تلاش میں ہوں جو اطلاع کے مطابق رومیری آیا ہے۔ لیکن میں اس کے حلیے سے پوری طرح آگاہ نہیں۔‘‘ نووارد نے انکشاف کرتے ہوئے کہا۔
بار والے نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا۔ نووارد نے خالی پیگ اس کے سامنے سرکاتے ہوئے کہا۔ ’’ایک آدھا پیگ اور دو۔ آج موسم کچھ زیادہ ہی خراب ہے۔ ہوا جلد کو کاٹتی محسوس ہو تی ہے۔‘‘
’’ہاں موسم دن بدن خراب ہوتا جائے گا۔ خراب موسم میں سارے کاروبار چوپٹ ہو جاتے ہیں۔‘‘ بار والے نے اس بار اطمینان بھرے لہجے میں کہا۔
’’لیکن کچھ لوگوں کو خراب موسم میں بھی اپنا فرض انجام دینا پڑتا ہے، مثلاً سرکاری سراغ رساں۔ اب تمہی سوچو، اگر میں سراغ رساں نہ ہوتا تو بڑے سکون سے اپنے گرم اور آرام دہ بستر میں دبکا ہوتا۔ تم اپنا بار بند کر سکتے ہو لیکن میں اپنے فرض سے مجبور ہوں۔‘‘ نووارد نے اظہارِخیال کیا۔
’’جی ہاں! فرض کی ادائی ہر شے پر مقدم ہے۔‘‘ بار والے نے رسمی طور پر کہا۔’’ارے ہاں!‘‘ نووارد نے چونک کر پوچھا۔ ’’تمھاری نظر کسی مشکوک شخص پر تو نہیں پڑی جو اِدھر سے گزرا ہو یا تمھاری بار میں آیا ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ بار والے نے نفی میں سر ہلایا۔
نووارد نے جیب سے پرس نکال کر بِل ادا کیا اور بار پر آخری نظر ڈال کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ اس کے جاتے ہی بار والے نے طویل سانس لی اور تیز تیز قدموں سے دروازے کا رُخ کیا۔ دروازہ مقفل کرکے اس نے سوئچ بورڈ پر بٹن تلاش کرکے باہر جلنے والی روشنیاں بند کر دیں اور مدھم لہجے میں بڑبڑایا: ’’اُف میرے خدایا۔‘‘
وہ پھر کائونٹر پر آیا اورپچھواڑے پڑے اس شخص کو دیکھنے لگا جو رسیوں سے جکڑا پڑا تھا۔ اس کے منہ پر بندھا کپڑا ڈھیلا ہوگیا تھا۔ اس نے رسیوں میں جکڑے شخص کو ٹھوکر ماری اور بولا ’’اُلّو کے پٹھے، اگر وہ کم بخت سُراغ رساں چند لمحے اور ٹھہر جاتا تو شاید تو مجھے مروا ہی دیتا۔ وہ کم بخت کتنے مشکوک انداز سے مجھے دیکھ رہا تھا۔‘‘’’اوں… نوں…‘‘ رسیوں میں جکڑے شخص کے حلق سے بہت مدھم آواز بلند ہوئی، شاید وہ پوری قوت لگا کر بولا تھا۔
’’اَبے بند کر اپنی غوں غاں۔‘‘ اُس نے ایک لات اُسے رسید کی اور بڑھ کر مزید کپڑا منہ میں ٹھونس دیا۔ ’’اب تم آرام سے پڑے رہو۔ ممکن ہے کوئی صبح یہاں آئے اور بار کا دروازہ کھلا دیکھ کر تم تک پہنچ جائے۔ صبح تک یقینا تمھاری گلو خلاصی ہو جائے گی اور میں اس وقت تک بہت دور نکل جائوں گا۔‘‘
اس نے پھر بڑھ کر سیف اپنی طرف گھسیٹا، کھول کر جلدی جلدی ساری رقم جیبوں میں ٹھونسی، آمدنی اور اخراجات کا رجسٹر ایک طرف اچھالا اور دروازے کی طرف قدم بڑھا دیے۔ رسیوں میں جکڑا بار کا اصل مالک چالاک لٹیرے کو بے بسی کے عالم میں دروازہ کھول کر باہر نکلتے دیکھتا رہ گیا۔