مدینہ میں ایک حمام (غسل خانہ )تھا۔جس میں مردہ عورتوں کو نہلایاجاتاتھااوران تجہیزوتکفین کی جاتی تھی۔ایک مرتبہ اس میں ایک خاتون جس کاانتقال ہوچکاتھا۔نہلانے کیلئے لایاگیا۔اس کو غسل دیاجارہاتھاکہ ایک عورت نے اس مردہ خاتون کو برابھلاکہتے ہوئے کہا۔انک زانیۃ توبدکار ہے اوراس کے کمر سے نیچے ایک لتڑماڑا۔لیکن اس برابھلاکہنے والی اورپھرمردہ عورت کو مارنے والی عورت کاہاتھ جہاں اس نے ماراتھاچپک گیا۔عورتوں نے بہت کوشش اورتدبیر کی لیکن ہاتھ الگ نہیں ہوا۔بات پورے شہر میں پھیل گئی ۔کیونکہ معاملہ ہی عجیب تھا۔ ایک زندہ عورت کا ہاتھ ایک مردہ عورت کے ہاتھ سے چپکاہواہے اب اس کو کس تدبیر سے الگ کیاجائے۔مردہ کودفن بھی کرناضروری ہے۔اس کے لواحقین الگ پریشان ہوں گے۔معاملہ شہر کے والی اورحاکم تک پہنچ گیا۔ انہوں نے فقہاء سے مشورہ کیا۔بعض نے رائے دی کہ اس زندہ عورت کا ہاتھ کاٹ کر الگ کیاجائے۔کچھ کی رائے یہ بنی کہ مردہ عورت کے جس حصہ سے اس زندہ خاتون کاہاتھ چپکاہے۔اتنے حصہ کو کاٹ لیاجائے۔کچھ کاکہناتھاکہ مردہ کی بے عزتی نہیں کی جاسکتی ۔کچھ کاکہناتھاکہ زندہ عورت کاہاتھ کاٹنااس ک

و پوری زندگی کیلئے معذور بنادے گا۔
شہر کاوالی اورحاکم امام مالک کا قدرشناس اوران کے تفقہ اورفہم وفراست کا قائل تھا۔اس نے کہاکہ میں جب تک اس بارے میں امام مالک سے بات کرکے ان کی رائے نہ لوں میں کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا۔امام مالک کے سامنے پورامعاملہ پیش کیاگیا۔توانہوں نے سن کر فرمایانہ زندہ خاتون کاہاتھ کاٹاجائے اورنہ مردہ عورت کے جسم کاکوئی حصہ الگ کیاجائے۔میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ مردہ عورت پر اس زندہ خاتون نے جو الزام لگایاہے وہ اس کا بدلہ اورقصاص طلب کررہی ہے لہذاس الزام لگانے والی عورت کو شرعی حد سے گزاراجائے۔چنانچہ شرعی حد جوتمہت لگانے کی ہے یعنی اسی کوڑے۔کوڑے مارنے شروع کئے گئے۔ایک دو،دس بیس،پچاس،ساٹھ ستر بلکہ اناسی79کوڑوں تک اس زندہ خاتون کا ہاتھ مردہ عورت کے جسم کے کمر کے نچلے حصہ سے چپکارہا۔جوں ہی آخری کوڑاماراگیا۔اس کا ہاتھ مردہ عورت کے جسم سے الگ ہوگیا۔
بحوالہ بستان المحدثین للشاہ عبدلعزیز دہلوی،صفحہ25،۔انوارالمسالک لمحمد بن علوی المالکی الحسنی 244،شرح التجرید الصحیح للعلامۃ الشرقاوی 343