ٹی وی ڈراموں کے پاکستانی لڑکیوں پر ہولناک اثرات۔ دردناک رپورٹ

مصنّف : جواد احمد خان

تقریباً ۱۰ سال پہلے کی بات ہے ۔ ایک فلپائنی شہری میرے پاس علاج کی غرض سے آیا۔ اس وقت میڈیکل انشورینس لازمی نہیں تھی اور بہت سارے مقیم بغیر انشورنس کے سعودی عرب میں کام کررہے تھے۔ اس وقت میں سعودی عرب نیا نیا آیا تھا اور تعلقات بنانے کی دھن طاری تھی۔ میں نے کچھ فری میڈیکل سیمپلز اسے دے دیے جو اس نے خوشی خوشی رکھ لیے چونکہ اسے بھی سعودی عرب آئے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا اور غریب الوطنی کا درد مشترکہ تھا اسی لیے ہمارے درمیان ایک دوستانہ سا تعلق قائم ہوگیا اور ہم کافی باتیں کرکے اپنا فارغ وقت کاَٹنے لگے۔ وہ مجھے بڑی بےتکلّفی سے اپنے ذاتی معاملات اور خانگی امور کے متعلق بتا دیا کرتا تھا۔ ایک دن وہ اپنے ساتھ اپنا فیملی البم لے آیا۔ جس میں اسکی شادی، بچوں اور مختلف مواقع پر کھینچی گئیں تھیں، مجھے دکھانے لگا۔ تصویریں دیکھتے ہوئے میں نے دیکھا کہ اسکی بیوی ایک دوسرے مرد کے ساتھ قدرے بےتکّلفی کے ساتھ کھڑی ہے۔ میں ن فلپائنی سے پوچھا کہ کیا یہ مرد اسکی بیوی کا بھائی ہے تو اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ نہیں یہ اسکا بوائے فیرینڈ ہے۔ یہ جواب سن کر میرے چاروں طبق روشن ہوگئے۔ میں نے کچھ دیر خاموشی کے بعد قدرے حیرانی سے اس سے پوچھا کہ کیا اس کے نزدیک یہ قابل اعتراض بات نہیں ہے؟ اس نے پراعتماد مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ اس میں اعتراض کی کیا بات ہے ۔ میری بیوی جوان اور صحت مند عورت ہے۔ اسکی بھی کچھ ضرورتیں ہیں ۔جس طرح میں اپنی ضرورتیں پوری کرلیتا ہوں ویسے ہی اسے بھی اس بات کا حق ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میں اس سے اس بات کا کیا جواب دوں ۔ پتھرائے ہوئے تاثرات لیے اسے دیکھتا رہ گیا۔ میری سنجیدگی کو اس نے بھی محسوس کرلیا اور مجھ سے پوچھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ واٹس رونگ۔ ”

کچھ سال قبل کراچی چھٹیوں پر آیا تو پتا چلا کہ طلاقوں کا دور چل رہا ہے۔ اور پچھلے پانچ سال میں ہونے والی پانچ شادیاں اپنے پانچ سال پورے کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں۔ ایک کھاتے پیتے مگر روایتی ، شریف اور نیم مذہبی گھرانے کی بچّی نا صرف اپنے شوہر کو چھوڑ کر بھاگ گئی ہے بلکہ اپنے والدین کی برسوں میں کمائی گئی عزت کو مٹّی میں ملا گئی ہے۔ واضع رہے کہ روایتی گھرانا ہونے کے باوجود وہ لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ شادی کے مسئلے میں اولاد سے زور زبردستی نا کی جائے۔ والدین نے اپنی مرضی کے خلاف اس بچی کی شادی وہاں کردی جہاں کی وہ خواہش مند تھی۔ لڑکا شریف اور پڑھا لکھا تھا مگر معاشی طور پر مظبوط نا تھا جبکہ لڑکی نازونعم میں پلی تھی۔ جس کی وجہ سے بچی کے والدین اس لڑکے سے اپنی بیٹی کی شادی کرتے ہوئے ہچکچا رہے تھے۔ ۔ اندیشے اپنی بدترین شکل میں سامنے آئے ۔مشکل سے سال ہی گزرا تھا کہ ایک دوپہر وہ بچی اپنے شوہر کو چائے میں نشہ کی دوا پلا کر فرار ہوگئی۔ ہفتوں کی جدوجہد کے بعد لڑکی سے رابطہ ہوا کہ کسی طرح لڑکی کو اسی لڑکےسے جس کے ساتھ وہ فرار ہوئی تھی باعزت طور پر شادی کراکے لڑکی اور اپنی عزت کا کسی حد تک تحفظ کیا جاسکے۔ اس مقصد کے لیے لڑکی سے ملنا اور اسے قائل کرنا ازحد ضروری تھا۔ لڑکی نے اس ملاقات کے لیے ایک وکیل کا دفتر منتخب کیا اور ایک حقوق نسواں کی عہدیدار کے ساتھ بڑے طمطراق کے ساتھ جلوہ افروز ہوئی۔ بیٹی کو دیکھ کر اسکے اسطرح رونے لگے کہ انکی سفید ریش آنسووں سے تر ہوگئی اور بولے بیٹا۔۔۔۔ میرے مرنے کا ہی انتظار کرلیا ہوتا کہ مجھے اس عمر میں اس ذلت کا سامنا نا کرنا پڑتا۔ بیٹی جو اپنے والد کا رونا قدرے حیرانی سے دیکھ رہی تھی ،بولی ” ڈیڈی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واٹس رونگ۔ “ میں نے اپنے حق کے لیے لڑ رہی ہوں اور آپ رو رہے ہیں؟

قریباْ ۳ سال پہلے کی بات ہے اپنے ایک کزن سے کہ جو اگرچہ عمر میں مجھ سے ۱۵ سال چھوٹا ہے مگر خاصا بے تکلف ہے۔ میں اسے اسکی مذاق کرنے اور ہنسانے کی صلاحیت کی وجہ سے بہت پسند کرتا ہوں۔ ایک دن اسکے ساتھ بیٹھا گپ شپ کررہا تھا کہ اس نے ایک تصویر دکھائی۔ جس میں وہ اور اسکے ساتھ ایک قبول صورت لڑکی ہاکس بے پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے مسکرا رہے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا کیونکہ میں اسکی منگیتر کو جانتا تھا اور یہ بات بھی جانتا تھا کہ انکے درمیان اچھی خاصی انڈراسٹینڈنگ ہے۔ میں نے حیرت سے نا سمجھنے والے انداز میں اس سے پوچھا کہ اسکی منگنی کا کیا ہوا۔ اس پر وہ نہایت شرارتی مسکراہٹ منہ پر سجا کر بولا کہ وہ منگنی قائم ہے۔ ” تو پھر کیا تم نے فرزانہ( مگیتر کا فرضی نام) کو جلانے کے لیے یہ تصویر کھنچوائی ہے؟ ”
” جی نہیں بھائی جان، یہ میری فرینڈ ہے”
” اس کا کیا مطلب ہے؟ تم اپنی منگیتر اور اس فرینڈ دونوں سے شادی کرنا چاہتے ہو؟ ”
کزن بے ساختہ ہنس پڑا مجھے اسطرح دیکھنے لگا جیسے کوئی بڑا اپنے کسی چھوٹے کی مضحکہ خیز نالائقی پر دیکھتا ہے اور بولا “ بھائی جان۔۔۔ آپکا دور گذر گیا ۔ اب نیا دور ہے۔ آپ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکیں گے۔ یہ صرف ٹائم پاس ہے ”
میں نے ملامت انگیز نگاہوں سے اسے گھورنا شروع کیا تو وہ بولا ۔۔۔۔ ” واٹس رونگ ”

ان تینوں واقعات میں آپ نے واٹس رونگ کے پیچھے چھپی حیرانی کو ضرور محسوس کیا ہوگا۔ ہر وہ شخص جو معاشرے کے چلن سے واقف ہے اس بات کی گواہی دے گا کہ یہ حیرانی مصنوعی نہیں تھی۔ کیا آپ نے غور کیا کہ وہ کیا چیز ہے جو جدید تہذیب کے ان ۳ نمائندہ افراد کو ” ہم ” سے الگ کرتی ہے؟ محسوس یوں ہوتا ہے کہ جدید تہذیب نے اپنے ماننے والوں کی اخلاقیات، صحیح غلط کے معیارات اور ترجیحات کو ایک نئی ویو لینگتھ پر ٹیون کردیا ہے اور اب وہ اسکے برعکس بات کو سن کر حیرانی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ جدید تہذیب آپکو سکھاتی ہے کہ جو چیز آپکو صحیح لگتی ہے وہ اگر ملکی قوانین کی اور تہذیبی اخلاقیات کی خلاف ورزی نہیں کرتی وہ صحیح ہے۔ do what thou wilt،اس تہذیب کا نعرہء مستانہ ہے۔ کیا آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ تہذیبی ڈس اورینٹیشن کی یہ حالت اور متبادل ذہنی و نفسیاتی کیفیت کب سے اور کہاں سے اس معاشرے میں چلی آرہی ہے؟ ۱۵ سال پہلے کا معاشرہ کہاں تحلیل ہو گیا ہے؟ یہ معاشرہ وہ معاشرہ تو نہیں تھا جس میں ہم آپ نے آنکھ کھولی تھی اور شعور کی منازل طے کی تھیں۔ محض ۱۵ سال میں ایسا کیا ہوگیا کہ ایک عام مسلمان گھرانے کا فرد توہین رسالت کے بارے میں جان کر بھی مشتعل نہیں ہوتا ااور خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ عورت کی عفت اور عصمت سے متعلق تصورات مغرب سے درآمد شدہ حقوق نسواں اور آزادی نسواں سے تبدیل ہوگئے ہیں۔ جو باتیں ناقابل تصور اور فحش قرار دی جاتی تھیں اب روز مرہ کی باتیں بن چکی ہیں۔ آخر کچھ تو ہوا ہے۔ تو جناب اسکا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جس فطری توازن پر قائم تھا اس توازن سے محروم ہو چکا ہے اور ہمارا اخلاقی پستی کی طرف سفر تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔ یہ فطری توازن نیکی کی اشاعت اور برائی کے پوشیدہ ہونے پر قائم تھا جسے اسکے برعکس کردیا گیا ہے۔

ان پندرہ سالوں میں دو کام ایسے ہوئے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئے۔
۱: ایک سیکیولر فاشسٹ حکمران کی حکومت جس نے اس ملک کی نظریاتی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا اور معاشرے میں ہر طرح کی خاص طور پر نظریاتی اور اخلاقی کرپشن کو فروغ دیا
۲: میڈیا کی بے محار آزادی جسے اس نے یوز کرنے کی بجائے ابیوز کیا۔

جناب سارا عمل تکرار کا ہے۔ دین نماز اور دیگر نیک کاموں کی تکرار کا حکم دیتا ہے۔ اور یہ تکرار اپنے معجزات دکھاتی ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیِٰ نے انسان کی فطرت کو اس طرح تخلیق کیا ہے کہ وہ تکرار کے آگے زیادہ دیر مزاحمت نہیں کرپاتا۔ اسی چیز کو دجالی تہذیب اور اسکے سب سے زیادہ مہلک ہتھیار یعنی میڈیا نے خوب سمجھا ہے۔ اور تکرار پر تکرار کے ذریعے آپکو بتا رہا ہے کہ آپ انسان تو کیا جانور سے بھی زیادہ بدتر ہیں۔ آپکے یہاں دین کے نام پر خون بہا یا جاتا ہے۔ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ایک مسلمان ہی دوسرے مسلمان کو قتل کردیتا ہے۔ ہوشمند تو کیا دیوانوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ معصوم ، بے گناہ ، کچلی ہوئی اور غریب اقلیتیں سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ کرپشن میں آپ نمبر ون ہیں۔ نا اہلیوں کے آپ پیش امام ہیں۔ غیر ذمہ داریوں میں آپکا کوئی مقابلہ نہیں، نیوکلیر بم کی ٹیکنالوجی اگر پھیلتی ہے تو وہ آپ کے یہاں سے، دہشت گرد برآمد ہوتے ہین تو وہ آپ کے یہاں سے، دہشت گردی دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو اسکے ڈانڈے آپ سے مل جاتے ہیں۔ اور آپ میری طرح حیرانی اور بےیقینی کے عالم میں اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ الزامات کی یہ تکرار ایک خاص قسم کے غصہ اور فرستٹریشن کو جنم دے رہی ہے جس کے زیر اثر اچھے پڑھے لکھے اور سوچنے سمجھنے والے لوگ تک بہے چلے جا رہے ہیں اور اسکی غصہ کی حالت میں سیاہ، سفید اور سرمئی رنگت کی تمیز کھوتے جا رہے ہیں۔ آپ دینی مدارس کو ذہن میں لائیے۔ جو دوسری چیز آپکے ذہن میں فوری طور پر آئے گی وہ دہشت گردی ہوگی اور آپ ایک نامعلوم سی بےچینی کا شکار ہوجائیں گے۔ یہ طرز فکر دین بیزار کا نہیں بلکہ دین سے محبت رکھنے والوں کی ہے۔ حالانکہ آپ بخوبی یہ بات جانتے ہیں کہ ۹۹۔۹ فیصد مدارس کسی بھی طرح سے کسی بھی قسم کی دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں۔ جو چند ایک ہیں وہ محض اپنے طالبعلموں کی کمزور قوت فیصلہ اور دوسرے اسباب جن میں سب سے بڑاسبب انتقام ہے، کی وجہ سے میڈیا کا ہدف بنے ہیں اور جس کو میڈیا نے بڑی کامیابی سے استعمال کیا اور جسکی وجہ سے آپ اور میں اپنے ہی دینی مدارس کےبارے میں شعوری یا لاشعوری شکوک و شبہات کا شکار ہوگئے ہیں۔

میڈیا کی متبادل ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کا پیدا کردینے کی یہ صلاحیت ہے جو مجھ سمیت بہت سے لوگوں کو خوفزدہ اور بے چین رکھتی ہے۔ یہ سارا عمل تکرار کے ذریعے ہو رہا ہے اس تکرار کو مستقل طور پر قائم رکھنے کے لیے اسے ٹی وی اور ٹی وی چینلز کا سہارا ہے جو ۲۴ گھنٹے آپکے بیڈ روم ، ڈرائنگ روم حتیٰ کہ آپ کی دکانوں اور دفاتر تک میں لگا ہوا ہے۔ بازار میں دیواروں پر آپ جو چاہیں لکھ دیں، نیٹ پر جو چاہیں دیکھ لیں۔ آپکی فطری جھجھک آپکو ایک جست میں ساری حدیں پار کرنے سے روک رہی ہوتی ہے۔ نیکی کی طرح گناہ کی منازل بھی درجہ بہ درجہ طے کی جاتی ہیں۔ کوئی بھی نوجوان پہلی بار گھر سے سیدھا ریڈ لائٹ ایریا نہیں جکا سکتا اسے کچھ دوستوں کی ضرورت لازماً پڑتی ہے جو وہ اسکی جھجھک کا مذاق بنا کر توڑ دیتے ہیں۔ ہمارے یہاں میڈیا انہی مہربان دوستوں کا کردار ادا کررہا ہے۔ اور آپ کو مستقل بتا رہا ہے کہ جھجھکنے کی کوئی ضرورت نہیں یہ سب تو صحت مند تفریح اور وقت کی ضرورت ہے۔ سب یہی کچھ تو کر رہے ہیں۔
حضرت کیا آپکے گھر ٹی وی نہیں ہے یا آپ ٹی وی نہیں دیکھتے؟
کیا میں بتائوں کہ میں نے آج ٹی وی پر کیا دیکھا؟
آج جب صبح میں نے ٹی وی کھولا تو دیکھا کہ اے آر وائی کے مارننگ شو میں چند ماڈرن خواتین اداکارائیں چست ترین لباس میں بیٹھی قوم کو یہ بتا رہی تھیں کہ گھر بیٹھی عورت دراصل کس قدر کچلی ، فضول، بورنگ اور اپنے حقوق سے محروم ہے۔ ابھی اس پروگرام کو چلتے ۱۰ منٹ نہیں ہوئے تھے کہ ایک ڈرامہ کا پرومو چلنے لگا۔ ڈرامہ کا نام ہے۔۔۔۔۔ باندی.
ذرا ڈرامہ سیریل باندی کا ٹیزر دیکھیے

اس ڈرامہ کا پیغام یہ ہے کہ بیوی چاہے ورکنگ وومن ہو یا ہائوس وائف ہوتی دراصل باندی ہی ہے۔ اسی دن قریباً چار گھنٹے کے بعد جب میں مارننگ شفٹ سے فارغ ہوکر گھر آیا تو دیسی کڑیاں کی ریہرسل پر مبنی پروگرام چل رہا تھا جس میں دیسی کڑیاں جینز اور شرٹ پہنے ہیجان انگیز رقص کر رہی تھیں۔ جس گانے پر یہ رقص کیا جا رہا تھا اسکے بول کچھ اس طرح سے تھے؛
شرارہ شرارہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شرارہ شرارہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ہوں ایک شرارہ
لیکن جناب اسی پر بس نہیں ہوا بلکہ منظر تبدیل اور گانا بھی تبدیل ہوگیا ۔ اب گانا انڈین نہیں تھا بلکہ عربی تھا اور اس گانے پر ایک لڑکی بیلی ڈانس کرنا شروع کردیا۔ اس ڈانس کو یار لوگوں خاصی مقبولیت حاصل ہے کیونکہ اس میں ڈانسر کولہوں کو نہایت پر شہوت انداز میں مٹکاتی ہے۔۔۔۔اور یہ سب کچھ محض چند گھنٹوں کے اندر اندر صرف ایک ٹی وی چینل پر چلتے پھرتے دیکھا گیا ہے۔
پمرا کے خلاف سپریم کورٹ میں شکایت آپکو نان اشو کیوں لگتا ہے؟

حضرت مجھے نہیں معلوم کہ آپکے نزدیک فحاشی کی کیا تعریف ہےمگر میرے نزدیک فحاشی وہ چیز ہے جو آپکو اپنے بچوں اور اپنے پیاروں کے حوالے سےخوفزدہ کردے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس پر اجماع کے نا ہونے کا سوال کیونکر پیدا ہوسکتا ہے کہ فحاشی سے دینی اور مذہبی تو کیا ہر سلیم الفطرت گھن کھاتا ہے۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ یہ سب کچھ اسی طرح سے نہیں چل سکتا کسی نا کسی کو اس طوفان کے خلاف اٹھنا ہی ہوگا۔

کیا؟؟؟؟؟آپ میری گذارشات پر خندہ زن ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت خوب