ابو عبد اﷲ جعفر برقی کہتے ہیں : میں نے ایک بیابان میں ایک بدو خاتون کو دیکھا جس کی کھیتی کڑاکے کی سردی ، زور دار آندھی اور موسلادھار بارش کے سبب تباہ ہوچکی تھی ۔ لوگ اس کے ارد گرد جمع تھے اور اس کی فصل تباہ ہونے پر اسے دلاسا دے رہے تھے ۔ اس نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور کہنے لگی :
اے پروردگار ! پس ماندگان کی عمدہ دیکھ بھال کے لئے تجھ ہی سے امید وابستہ کی جاتی ہے ، جو کچھ تباہ وبرباد ہوگیا اس کی تلافی تیرے ہی ہاتھ میں ہے ، اس لئے تو اپنی نرالی شان کے مطابق ہمارے ساتھ معاملہ فرما ، کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ ہماری روزی کا بندوبست تیرے ہی ذمہ ہے اور ہماری آرزوئیں اور تمنائیں تجھ ہی سے وابستہ ہیں ،،۔
ابو عبد اﷲ جعفر برقی کہتے ہیںکہ میں ابھی اس خاتون کے پاس ہی تھا کہ ایک آدمی وہاں آن پہنچا ، ہمیں اسکے بارے میں کوئی علم نہیں تھا کہ کہاں سے آیا ہے ؟ مقصد کیا ہے ؟جب اسے اس عورت کے عقیدے ، منہج اور اﷲ تعالیٰ سے تعلق کا پتہ چلا تو اس نے 500 دینار نکالے اور اس عورت کی خدمت میں پیش کرکے اپنی راہ چلتا بنا۔ ( نساءذکیات جدّا :44 )