سورہ بقرہ میں جس مقام پر روزہ کے احکام زیر بحث آتے ہیں وہیں یہ بات بھی بیان ہوئی ہے کہ نزول قرآن کے وقت کچھ لوگ روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے تعلق زن و شو قائم کرتے تھے، مگر دل میں اسے ممنوع خیال کرتے تھے۔ قرآن مجیدنے گرچہ اس رویے کو خیانت سے تعبیر کیا لیکن اس عمل کو جائز قرار دے دیا۔
قرآن مجید کی یہ آیت (البقرہ187)بظاہر توکچھ شرعی احکام بیان کررہی ہے، مگرانتہائی اختصاراورانتہائی جامعیت کے ساتھ جو مضامین اس ایک آیت میں کھولے گئے ہیں، سیکڑوں صفحات ان کی شرح ووضاحت میں لکھے جاسکتے ہیں۔مثلاً اس آیت میں روزے کی رات میں تعلق زن و شوہر کے لیے خیانت کا لفظ استعمال کرکے انسانی نفسیات کی بنیادی کمزوریوں ہی کو نہیں کھولا گیا بلکہ لفظ خیانت کوہر درجہ وسعت اور معنویت عطا کردی۔

پھر اس آیت میں انسانی اجتماعیت کی بنیاد یعنی میاں بیوی کے رشتے کو’رفث ‘ اور ’لباس‘ کے بلیغ ترین اسالیب سے بیان کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کس درجہ کے قرب، تحفظ اور خوبصورتی کا تعلق ہے۔اسی طرح اس آیت میں روزہ کی رات کے وقت تعلق زن و شو کی اجازت دیتے ہوئے جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ گرچہ اپنے اندر معنویت کے اور بھی بہت پہلو لیے ہوئے ہیں،مثلاً یہ کہ یہ تعلق برائے لذت نہیں بلکہ مقصد ہے، تاہم اس کے ساتھ یہ الفاظ مسئلہ تقدیر و عمل کو جس خوبی سے کھولتے ہیں وہ بے مثل ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’پس تم اب ان سے ملو اور اللہ نے تمھارے لیے جو مقدر کررکھا ہے اس کے طالب بنو۔‘‘
یہ آیت کمال خوبی سے اس بات کو واضح کرتی ہے کہ انسانی عمل کا اللہ کی مقرر کردہ تقدیر کے ساتھ کیا تعلق ہے۔

اس دنیا میں ہر انسان اللہ کے اذن اور اس کی مقرر کردہ تقدیر کے مطابق ہی آتا ہے۔ وہ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر واضح کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس معاملے میں جس کو چاہتے ہیں اسے بیٹے، جسے چاہتے ہیں اسے بیٹیاں، جسے چاہتے ہیں اسے دونوں ہی عطا کرتے ہیں ۔ اور جس کو چاہیں اولاد ہی نہ دیں،(شورٰی49-50:42)۔ تاہم سورہ بقرہ کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ ایک ایسے معاملے میں جو سرتاسر ان کے ہاتھ میں ہے ،جو ان کی مقرر کردہ تقدیر ہے، اس میں بھی ان کی مشیت یہی ہے کہ ان کی تقدیر انسانی عمل پر موقوف ہو۔ یعنی انسان تلاش کرے گا تب ہی وہ پائے گا جو اس کے لیے مقدر کیا گیا ہے۔

یہی اصل فلسفہ تقدیر ہے۔ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں لوگوں کو اپنی حکمت و مشیت کی بنیاد پر دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ لیکن ا س معاملے میں عام طور پر ان کی سنت یہی ہے کہ ان کا فیصلہ انسانی عمل ہی پر موقوف ہوتا ہے۔وہ چاہیں تو اپنے ہر ضابطے اور قانون کو الگ رکھ کر عطا و بخشش کا فیصلہ کرلیں اور چاہیں تو سارے اسباب کے باوجود کچھ نہ دیں، لیکن ان کا عام طریقہ یہی ہے کہ انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے سعی و جہد کی ہوگی۔

یہی وہ ضابطہ ہے جو انسانوں کو ہمیشہ اپنے سامنے ملحوظ رکھناچاہیے۔عمل اور نتائج میں نسبت تناسب کا کچھ فرق تو ہوسکتا ہے، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوجائے ، ایسا کرنا اللہ کا طریقہ نہیں ہے۔جو بچے محنت سے پڑھتے ہیں امتحان میں اچھے نمبروں سے وہی کامیاب ہوتے ہیں۔جو لوگ زندگی میں جدو جہد کرتے ہیں وہی ترقی و کامیابی کی سیڑھیاں طے کرتے ہیں۔جو لوگ اسباب کی کھیتی بوتے ہیں وہی نتیجے کی فصل کاٹتے ہیں۔
انسان کو ہمیشہ اس کی تقدیر ملتی ہے۔ مگر اس تقدیر تک انسان کو چل کر جانا پڑتا ہے۔تقدیر انسان تک چل کر نہیں آتی۔ یہی تقدیر کو سمجھنے کا درست ترین انداز ہے۔