انسان کی طبیعت مختلف ہوا کرتی ہے ہرفرد کا اپنا مزاج ہو اکرتا ہے ہر ایک کی پسند اور ناپسند اپنی ہوا کرتی ہے ایسا ممکن نہیں کہ ہر ایک اسی کو پسند کرے جسے کوئی ایک پسند کرتا ہو اور پوری دنیا اسی کو ناپسند کرنے لگ جائے جسے وہ مکروہ سمجھتا ہو ۔
یعنی اختلاف ممکن ہے کیونکہ مزاج مختلف ہیں دور فیق حیات جو ایک دوسرے کے ساتھ زندگی کا ایک ایک لمحہ گزارتے ہیں جن کا کھانا پینا اوڑھنا بچھونا گھومنا پھرنا ایک ہی ساتھ ہوا کرتا ہے اسکے باوجود انکے اندر اختلاف ہوتا ہے اور ہوگا کیونکہ ان کے مزاج مختلف ہوا کرتے ہیں انکی طبیعتیں جدا جدا ہوتیں ہیں انکی پسند اپنی اپنی ہوتی ہے
وہ بچہ جس کے وجود کا سبب والدین ہوا کرتے ہیں جس کی ولادت کا ذریعہ ایک ہی خون ہوا کرتا ہے لیکن اسکے باوجود اسکی طبیعت اور مزاج میں والدین سے دن رات کا فرق ہوتا ہے کوئی والد یہ چاہے کہ جو میری پسند ہے جیسے میں چاہتاہوں میرا بیٹا بھی اسے ہی پسند کرے اور جسے میں ناپسند کرتا ہوں میرا بچہ اسے ناپسند کرے ایسا ممکن نہیں ۔
ایسا ممکن ہے کہ ایک آدمی اپنی پسند مار کر اپنی ترجیحات کو کچل کر دوسرے کی پسند اختیار کرلے ۔
لحاظہ جب معاملہ اس طرح ہے تو دینی مسائل میں رائے کا مختلف ہونا فتوی کا مختلف ہونا سوچ اورفکر کا الگ کا ہونا بھی بعید نہیں ضروری نہیں کہ ایک مسئلہ میں ایک مستند عالم کی ایک رائے ہو تو تمام علماء اسی کی سوچ کی پیروی کرتے ہوئے اس رائے کو اپنا لیں ایک عالم مزاج کا سخت (متشدد ) ہونے کی وجہ سے اجتھادی مسئلہ میں عدم جواز کا فتوی دیتا ہے تو سارے علماء اسکے مزاج کو اپنا کر اسکی موافقت تو نہیں کریں گے بلکہ ان میں نرم گوشہ ( تساھل ) رکھنے کی وجہ سے جواز کا فتوی دیں گے ۔
ایک مسئلہ میں استاد کی رائے ایک ہوتی ہے تو شاگرد اسے اختلاف کرتا نظر آتا ہے صحابہ کرام کی سوچ فکر اور فتوی میں زبردست اختلاف پایا جاتا ہے ایک صحابی جواز کا فتوی دے رہا ہوتا ہے تو دوسرہ عدم جواز کا حتاکہ باپ اگر اس کو ناجائز کہہ رہا ہوتا ہے تو بیٹا اسے جائز قرار دیتا ہے
جب ایسا ممکن ہے تو ان اجتھادی مسائل میں اختلاف رکھنے والے علماء اپنے مخالفین کو خوامخواہ تنقید کا نشانہ مت بنائیں انکی سوچ اور فکر کو سرے سے غلط بے بنیاد اور باطل کہنے سے گریز کریں اس سے اور تو کچھ ہو نہ ہو یہ تو یقینا ہوگا کہ جن پر تنقید کے تیر برسائے گئے انکی تبلیغ متاثر ہوگی اور بے جاتنقید کرنے والوں کا امیج عوام میں پستی کا شکار ہوجائے گا ۔
عوام اس سے غلط تاثر لیکر دین سے ہی متنفر نہ ہوجائیں ویسے بھی عوام دین سے دوری کا شکار ہے پھر معمولی مسائل میں علماء کا ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہونا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے ۔
علماءکو انتہائی سمجھداری کا مظاھرہ کرنا چاہئیے انہیں سوچنا چاہیئے کہ ان اجتھادی مسائل میں اختلاف صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو ایک دوسرے پر تنقید کرنے پر نہیں ابھارتا تھا ۔
اجتھادی مسئلہ میں اگر کسی کی رائے غلط بھی ہوگئی تب بھی شریعت اسکی قدر کرتی ہے اس پر بھی اسے ایک اجر کا مستحق ٹھرایا جاتا ہے ۔
ایک دور کے علماء کی ایک دوسرے پر تنقید کرنا یہ شروع سے ہی چلا آرہا ہے ایک دوسرے کے خلاف کتابیں لکھ ڈالیں ۔
آج بھی علماء یہی کچھ کررہے ہیں معمولی اختلافات کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے پر تنقید کے پل باندھ دیتے ہیں تنقید کرتے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ہماری تنقید کیا گل کھلائے گی عوام میں اسکا کیا اثر ہوگا تنقید کا نشانہ بننے والے کی تبلیغ کو کتنا نقصان پہنچے گا ۔
یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے محدثین ایک سنہری اصول وضع کرگئے اللہ انکو جزائے خیر دے وہ ان معاملات کی نزاکت سے واقف تھے انہوں یہ پیارا اصول وضع کیا کہ
“لایقبل جرح المعاصر علی المعاصر اذا کان بلا حجۃ ”
کہ ہم زمانہ لوگوں کی ایک دوسرے پر تنقید قابل قبول نہیں جب بغیر دلیل کے کی جائے
اسی اصول کو علامہ ذھبی رحمہ اللہ اپنی کتابوں میں بیسیوں مقامات پر ذکرکرتے ہیں
کہیں کہتے ہیں” ھذا من کلام الاقران الذی لایسمع ” ( سیر اعلام النبلاء ترجمۃ ابی عبداللہ محمد بن حاتم البغدادی )
کہیں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ “فقف فی کلام الاقران بعضھم فی بعض ( تذکرۃ الحفاظ 2/772)
اولا تو آج کے دور کے علماء وسعت قلبی کا مظاھرہ کریں اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کریں دوسرے کی رائے کی قدر کریں دوسرے کو ایک عالم ہونے کے ناطے اختلاف رائے کا حقدار تصور کریں اور اگر کہیں رد کرنے کی ضرورت محسوس کی جائے تو انتہائی شائستہ مناسب انداز میں عوامی مجلسوں سے احتیاط کرتے ہوئے رد کیا جائے تانکہ عوام اسکے برے نتائج سے محفوظ رہ سکے ۔
ثانیا عوام کو چاہیئے کہ علماء کی ایک دوسرے پر تنقید کو ہواؤں کے مانند سمجھیں جنہوں نے گذرجانا ہے انکی کوئی حیثیت نہیں انکو کوئی اھمیت نہ دی جائے یہی محدثین کی ہمیں نصیحت ہے اسی کو اپنے دامن سے باندہ لیں ہر عالم دین کی عزت کریں اسے جو اسکا مقام ہے وہ دیں انکے اختلافات میں نہ پڑنا ہی ہمارے لیئے بہتر ہوگا