دو آدمی ایک قریشی خاتون کی حدمت میں حاضر ہوئے اور کے پاس 100 دینا بطور امانت رکھ کر کہا:
” جب تک ہم دونوں اکھٹے ہوکر اپنا مال طلب نہ کریں، تب تک آپ یہ امانت واپس نہیں کریں گی- ہم دونوں کی موجودگی امانت واپس کرتے وقت ضروری ہے-”
اس عورت نے ان کی امانت رکھ لی اور اس پر ایک سال کا وقفہ گذر گیا- ایک سال کے بعد ان دونوں میں سے ایک شخص اس خاتون کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ :

“میرے ساتھی کا انتقال ہوگیا ہے، اس لیے جو 100 دینار ہم نے تمہارے پاس امانت رکھے ہیں، مجھے دےدو-”

خاتون نے امانت حوالے کرنے سے انکار کردیا اور کہنے لگی:

” تم دونوں ساتھیوں نے میرے امانت رکھتے ہوئے یہ شرط رکھی تھی کہ میں تم میں سے ایک کی غیر موجودگی میں مال دوسرے کے حوالے نہ کروں، اس لیے میں امانت تیرے سپرد نہیں کرسکتی”ا

س آدمی نے خاتون کے اہل خانہ اور پڑوسیوں سے مدد طلب کی- ان لوگوں نے اس خاتون سے سفارش کی کہ اس کو امانت دے دو کیونکہ اس کے ساتھی کا انتقال ہوگیا ہے-
لوگوں کےبےحد اصرار اور سفارش پر اس عورت نے امانت اس شخص کو دے دی-
ادھر اس بات کو ایک سال اور گذر گیا تو دوسرا شخص جس کو اس کے دوست نے مرا ہوا ظاہر کیا تھا، اس عورت کے پاس آیا اور آکر امانت طلب کی- خاتون نے بتایا:

“تمہارا دوسرا ساتھی آیا تھا اور اس نے بتایا کہ تمہاری وفات ہوچکی ہے، اس لیے میں نے امانت اس کےحوالے کردی۔”

وہ شخص اس عورت سے جھگڑنے لگا اور کہا کہ میں تو زندہ سلامت ہوں- میری امانت واپس کرو-
عورت نے کہا کہ میں تو رقم تمہارے ساتھی کو دے چکی ہوں۔
اب اس عورت کے خلاف مقدمہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش کردیا- عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دونوں کا مقدمہ سنا اور چاہا کہ اس کا فیصلہ اس آدمی کے حق میں کردیں-
اچانک انہوں نے کچھ سوچا اور پھر فرمایا:

” اس مقدمہ کو ہم علی بن ابی طالب کے سپرد کرتے ہیں اور ایک روایت کے مطابق خود دونوں کو لے کر علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے-”

حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں کے بیانات سنے اور معاملہ کو بھانپ گئے کہ اس عورت کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے، چنانچہ فرمایا:

“کیا تم اس خاتون سے یہ شرط نہیں رکھی تھی کہ مال ایک کی غیر موجودگی میں دوسرے کے حوالے مت کرنا؟”

اس آدمی نے جواب دیا:

“ہاں یہ شرط تو رکھی گئی تھی”

علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

“تمہارا مال ہمارے پاس موجود ہے، اپنے ساتھی کو بلا لاؤ، تاکہ میں تم دونوں کا مال تمہارے سپرد کردوں-”

(کتاب الاذکاء، ابن جوزی رحمہ اللہ)اقتباس: سنہری کرنیں
از: عبدالمالک مجاہد