پاکستان میں مختلف نجی چینلوں نے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے رمضان کی خصوصی نشریات کے لیے اسلامی پروگرام تیار کیے ہیں جن کی تشہیری مہم اپنے عروج پر ہے۔ماہ رمضان کی نسبت سے تیار ہونے والے یہ خصوصی اسلامی پروگرام سحری اور افطاری کے وقت نشر کیے جاتے ہیں۔ویسے تو ماہ رمضان کی خصوصی نشریات کے اسلامی پروگراموں کے لیے مختلف علماء کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں تاہم تقریبا تمام ہی ٹی وی چینلز نے یہ پروگرام فحش فلموں میں برہنہ اور نیم برہنہ ہو کر کام کرنے والی اداکاراؤں اور ڈانسرز کے حوالے کردئے ہیں۔ اس بار جب بھی کوئی پاکستانی سحری یا افطاری کےو قت ٹی وی لگائے گا اسے عریاں فلموں میں کام کرنے والی ان اداکاراؤں کا نظارہ کرنے پڑے گا۔ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ یہ ایک ہولناک کہانی اور پاکستان میں غیر ملکی مداخلت کا کھلا ثبوت ہے مگر اس بارے میں بات کرنے سے قبل ہم یہ بتاتے چلیں کہ ماہ رمضان کے خصوصی اسلامی پروگراموں کو کن عریاں اداکاراؤں کے حوالے کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں نام وینا ملک کا ہے جو ایک ایکسپریس ٹی وی چینل کے ذیلی چینل ہیرو ٹی وی پر ’استغفار‘ کے نام سے ایک پروگرام کررہی ہے۔وینا ملک کے اس پروگرام کا اشتہار آج کل دکھایا جا رہا ہے۔وینا ملک فحش فلموں کی معروف اداکارہ ہیں۔ وہ مکمل برہنہ ہو کر فلمی رسالوں کے لئے تصاویر کھنچوانے کے لئے مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ٹی وی پروگرامز میں کیمرے کے سامنے بعض جنسی افعال بھی ریکارڈ کراچکی ہیں جو کہ ایک بھارتی ٹی وی کے لئے تھے اور نشر بھی کئے گئے جس پر پاکستان میں کافی غصہ بھی دیکھا گیا تھا۔ ایک اور ٹی وی پر سعدیہ امام نامی اداکارہ بھی اسلامی پروگرام کریں گی۔ انٹر نیٹ پر ان کی نیم برہنہ تصاویر بھری پڑی ہیں۔ ٹی وی اسکرین پر وہ فحش سین کرنے کے لئے مشہور ہیں۔ ایک اور سابق ڈانسر اور اداکارہ مایا خان بھی ایک ٹی وی پر اسلامی پروگرام کریں گی۔اے آر وائی پر اسلامی پروگرام کرنے والی مایا خان سابق ڈانسر ہیں مگر عمر زیادہ ہوجانے کے سبب اب بھی ڈانس کو بطور پیشہ جاری نہیں رکھ سکتیں اس لئے وہ ٹی وی پروگرامز کرتی ہیں۔ ان کی نیم برہنہ تصاویر بھی انٹر نیٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔اسلامی پروگرامز ان عریاں اداکاراؤں کے حوالے کرنے پر پاکستان میں خاصا ردعمل دیکھا جا رہا ہے مگر ٹی وی چینلز کو کنٹرول کرنے والے سرکاری ادارے پیمرا نے اس پر کوئی ایکشن لینے سے انکار کردیا ہے۔ واضح رہے کہ تمام پاکستانی ٹی وی چینلز امریکی پروگرام برائے میڈیا سے مالی تعاون حاصل کرتے ہیں جب کہ تیکنیکی تعاون وہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے حاصل کرتے رہے ہیں۔ گذشتہ ایک برس سے امریکہ اور برطانوی نشریاتی ادارے کی جانب سے یہ دبائو ڈالا جا رہا تھا کہ پاکستانی ٹی وی چینلز پر پیش کئے جانے والے اسلامی پروگرامز سے شدت پسندی پھیل رہی ہے لہذا انہیں بند کیا جانا چاہئے کیونکہ ان پروگرامز میں علما آ کر تمام پاکستانیوں سے براہ راست مخاطب ہوجاتے ہیں اور انکا پیغام آسانی سےپھیل جاتا ہے۔اسی دبائو کے بعد فیصلہ یہ کیا گیا کہ اسلامی پروگرامز تو بند نہ کئے جائیں البتہ ان کی میزبانی فحش اداکاراؤں کے حوالے کردی جائے تاکہ ان پروگرامز سے کسی قسم کا اسلامی تاثر نہ جائے اور معاشرے میں اسلام پسندی نہ پھیلے۔اس کا آغاز رمضان سے کیا گیا ہے۔
اسی حوالے سے کچھ عرصہ قبل برطانوی نشریاتی ادارے نے خاصی جارحانہ رپورٹ بھی جاری کی تھی۔
بی بی سی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مذہبی حلقے کیبل ٹی وی کی آمد پر اس کے شدید مخالف تھے اور اسے فحش غیر ملکی درآمد قرار دیتے تھے لیکن آج مذہب انہی نشریات پر حاوی ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ٹی وی پر ایک نئی نسل کے اسلامی مبلغین کا ظاہر ہونا ماحول کو لبرل لوگوں سے تصادم کی طرف لے جا رہا ہے۔پاکستان میں کسی بھی دن اگر آپ ٹی وی دیکھیں تو آپ کو سوپ سیریلز، گرما گرم سیاسی مباحثے اور ایک نئے انداز میں پیش کیا جانے والے اسلام نظر آئے گا۔ان پروگراموں کا بنا بنایا ڈھانچہ ہوتا ہے جس میں لوگ اپنے سوالات اور مسائل کے لیے کال کرتے ہیں اور شو میں موجود مذہبی ماہرین ان سوالوں کے جواب دیتے ہیں۔ ان پروگراموں کے میزبان بیک وقت مذہبی رہنما اور سلیبرٹی ہوتے ہیں اور اپنے ناظرین کے لئے چھوٹے فتوے جارے کرتے نظر آتے ہیں۔ برطانوی ادارے کے دعوے کے مطابق ان پروگراموں کے میزبان اور ان کے پروگرم اکثر تنازعات کی زد میں رہتے ہیں جیسا کہ فرحت ہاشمی پر الزام لگا کے وہ پیسے خرد برد کر کے کینیڈا بھاگ گئیں تاکہ تحقیقات سے بچ سکیں۔ فرحت کسی قسم کی بدعنوانی سے مکمل طور پر انکاری ہیں۔ دوسری طرف مہر بخاری جو کہ ایک سیاسی شو کی میزبانی کرتی ہیں مگر ان پر اس وقت شدید غم و غصہ کا اظہار کیا گیا جب انہوں نے اپنے ایک مہمان کو ملحد قرار دیا تھا۔ مذہبی علما کے بارے میں انتہائی توہین آمیز لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے بی بی سی کا کہنا تھا کہایک اور ملاّ نے پاکستان کی عریاں اداکارہ وینا ملک سے براہ راست ٹی وی پر تکرار کی جس سے پہلے انہوں نے اداکارہ کے طرزِ عمل پر تنقید کی جس کا ویڈیو کلپ بعد میں بہت مشہور ہوا۔ان تمام مبلغین میں سر فہرست عامر لیاقت ہیں جو کہ کراچی میں اپنے چمکتے دمکتے سٹوڈیو سے ایک گھنٹے کا براہ راست پروگرام ہفتے کے پانچ دن کرتے ہیں۔ اس پروگرام میں عامر لیاقت ایک ’مشورہ بیگم‘ جیسے شخص کا کردار کرتے ہیں جو اپنے ناظرین کے مذہبی مسائل کا حل اپنے مشوروں سے کرتا ہے۔ستمبر دو ہزار آٹھ کو عامر لیاقت نے اپنا ایک پورا پروگرام احمدیوں کے عقائد کے بارے میں مختص کیا۔ اس پروگرام میں دو علماء نے کہا کہ ایسا کوئی بھی جو اپنے آپ کو ایک جھوٹے نبی سے منسوب کرتا ہے وہ واجب القتل ہے۔
ایک احمدی ڈاکٹر خالد یوسف نے جب یہ پروگرام نواب شاہ میں دیکھا تو ان کو ایک دھچکا لگا کہ ایک مشہور چینل کس طرح یہ کا مواد نشر کر سکتا ہے؟ ’جو قتل کو ایک مذہبی فریضے کے طور پر پیش کر رہے تھے ایک اچھے مسلمان کے فریضے کے طور پر۔‘اس پروگرام کے چوبیس گھنٹوں کے اندر جماعت احمدیہ میرپور خاص کے امیر ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی کو قتل کر دیا گیا اور مذید چوبیس گھنٹوں کے بعد ڈاکٹر خالد یوسف کے والد کو جو کہ مقامی جماعت احمدیہ کے امیر تھے دو نامعلوم نقاب پوش حملہ آوروں نے گولی مار کر قتل کر دیا۔لیکن ڈاکٹر عامر لیاقت نے ان قتل کی واردتوں سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کے ’مجھے اس پر کوئی ندامت نہیں ہے کیونکہ اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجھے جو ہوا اس پر دکھ ہے اور میں ان خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں لیکن اس کا میری ذات سے اور میرے پروگرام میں کہی گئی باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘عامر لیاقت اب بھی اپنا شو پیش کرتے ہیں بلکہ اب واپس پاکستان کے ایک مقبول ترین ٹی وی چینل جیو ٹی وی پر آ گئے ہیں جہاں سے ان کو اس پروگرام کے بعد نکال دیا گیا تھا۔ بی بی سی کے مطابق
پاکستان کے بڑھتے ہوئے آزاد ٹی وی چینل جنرل مشرف کی دور صدارت کی باقیات ہیں لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سلیبرٹی ملاّ عدم برداشت کا پیغام دے رہے ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ ٹی وی انڈسٹری کو قوائد و ظوابط کی اشد ضرورت ہے۔
پیمرا جو کہ ایک حکومتی ادارہ ہے جس کو ٹی وی چینلز پر نظر رکھنے کا کام سپرد گیا ہے۔ اس کے فرائض میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ ایسے پروگراموں کو روکے گا جو کہ ’گروہی اور فرقہ وارانہ رویوں اور ناموافقت‘ کو ترویج دیں۔مگر اس ادارے نے ٹی وی پر آنے والے ملائوں خلاف کوئی اقدام نہیں کیا جبکہ پیمرا کہ جنرل مینیجر نے کہا کہ وہ مذہبی پروگراموں کے بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہیں گے کیونکہ یہ ’آگ لگانے‘ کے مترادف ہو گا۔لیکن پاکستان میں فحش فلموں میںکام کرنے والی اداکارہ وینا ملک نے کھل کر اپنی آواز ان ٹی وی کے مبلغوں کے خلاف اٹھائی ہے۔ وینا کو اس وقت ٹی وی پر مذہبی علماء کی طرف سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے ہندوستان جا کر بگ برادر نامی پروگرام میں حصہ لیا اور براہ راست ٹی وی پر جنسی عمل کا ایک حصہ کر کے دکھایا۔ بی بی سی کے مطابق جب علماء نے ان کے طرز عمل کو ’شرمناک‘ اور ’غیر اسلامی‘ قرار دیا تو وینا نے جس بے خوف طریقے سے اپنا دفاع کیا اس کی ویڈیو نے یو ٹیوب پر ہلچل مچادی اور ان کو راتوں رات ایک ہیرو بنا دیا۔
وینا نے کہا کہ ’میں اپنے آپ کے لئے بول رہی تھی جب میں نے کہا کہ ہر عورت کی مرضی ہے وہ جو چاہے پہنے یا پہنے‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں حقوق نسواں کی کوششیں اقلیتوں کے حقوق کی کوششوں سے جڑی ہیں اور چند لوگ ہیں جو اس بارے میں کھل کر بات کرتے ہیں جبکہ میں بات کر سکتی تھی جو میں نے کی۔ سیٹیزنز فار ڈیموکریسی کے منصور رضا نے کہا کہ وینا بمقابلہ ملاّ واقعہ نے وینا کو پاکستانی لبرلز کی جدوجہد کی علامت کے طور پر سامنے پیش کیا۔ وینا کا پاکستانی بائیں بازو کی پسندیدہ ہونا وقت کے بدلنے کی علامت ہے۔ بی بی سی نے دعوی کیا کہ
منصور رضا نے مزید کہا کہ ’میں ایسی گھریلو خواتین کو جانتا ہوں جو برقع پہنتی ہیں مگر وہ وینا کو ہیرو مانتی ہیں۔ اس نے وہ سب کہ دیا جو ہم کہنا چاہتے تھے۔‘بی بی سی کا دعوی ہے کہ وینا نے جس بے خوف طریقے سے اپنا دفاع کیا اس کی ویڈیو نے یو ٹیوب پر ہلچل مچادی اور ان کو راتوں رات ایک ہیرو بنا دیاجس ٹی وی چینل نے یہ پروگرام نشر کیا تھا ان کا مؤقف ہے کہ وہ یہ سب عوام کی ضرورت پر کر رہے ہیں اور ان کے نزدیک وہ مشکل دینی مسائل کا آسان حل بتا رہے ہیں۔ لیکن ایک طویل جدوجہد کے بعد اب فحش فلموں میں جنسی اداکاری کرنے والی اداکارہ وینا ملک کو ہی اسلامی پروگرام کا میزبان بنا دیا گیا ہے اور اب وہ رمضان میں لوگوں کو بتائیں گی کہ اسلام کیا ہے اور اس پر کس طرح عمل کیا جائے۔