دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں سافٹ ویر کی تیاری باقاعدہ ایک صنعت یا کاروبار بن چکی ہے، اکثر ممالک کی حکومتوں نے سافٹ ویر تیار کرنے والے اور استعمال کرنے والوں کے متعلق قوانین بھی وضع کیے ہوے ہیں۔ نیز سافٹ ویر کا بنا اجازت استعمال اور بنا خریداری کے استعمال، یا ایک بار خرید کر سافٹ ویر کے کئی نسخے بنا کر اپنے احباب کو دینا یا بیچنا جرم تصور کیا جاتا ہے اور اس پر سزا اور جرمانہ بھی ہو سکتا ہے، جسے سافٹ ویر پائریسی بھی کہا جاتاہے۔

سافٹ ویر تیار کرنا ایک محنت طلب کام ہے جس پر وقت صرف کرنا پڑتا ہے، اگر کوئی شخص سافٹ ویر تیا کرے اور اپنے تیار کئے ہوے سافٹ ویر کو بیچے، یا کوئی ادارہ ایسا کرے تو اسلامی احکامات کے مطابق یہ جائز ہے، یہ میرا خیال ہے لیکن اس کی تصدیق کسی بھی عالم دین سے کی جا سکتی ہے، اس بات میں اتنا ابہام نہیں ہے، کیوں کہ ایک شخص محنت کر روزی کما رہا ہے، سافٹ ویر بنانا ایک ہنر ہے اور یہ ہنر سیکھنا بھی پڑتا ہے، جیسے مکان تعمیر کرنا، قالین بنانا، لوہے کی مصنوعات تیار کرنا ہنر میں شمار کیے جاتے ہیں۔

بیشتر ترقی پذیرممالک بشمول پاکستان، سعودی عرب، بنگلہ دیش وغیرہ میں سافٹ ویر پائریسی عام ہے۔ پائریٹیڈ سافٹ ویر استعمال کرنے والوں میں تمام افراد شامل ہیں، جن میں ایک اسلامی مدرسے کا طالبعلم بھی شامل ہے اسکا استاد بھی ، ایک ڈاکٹر بھی، دکاندار بھی، دنیاوی علوم حاصل کرنے والے طلبا بھی، اکثر لوگ ایسے ہیں جو سافٹ ویر کی قیمت دے کر خریدنے کی بھی اسطاعت رکھتے ہیں پھر بھی وہ پائریٹید سافٹ ویر استعمال کر رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا پائریٹیڈ سافٹ ویراستعمال کرنا حرام کے ذمرے میں آتا ہے ؟

ہمارے دین میں سختی سے حرام کی ممانعت کی گئی ہے، بظاہر لگتا تو ایسے ہی ہے کہ پائریٹیڈ سافٹ ویر استعمال کرنا حرام کے ذمرے میں آتا ہے، کیوں کہ ایک سافٹ ویر پر کسی انسان یا ادارے نے محنت کی ہے، وقت صرف کر کے اسے تیار کیا ہے،پھر اسکی ایک قیمت مقرر کرتا ہے، ہم اس کی بنائی ہوئی چیز بنا اسکی اجرت ادا کیے استعمال کرتے ہیں ایسی چیز ہم پر حلال تو نہ ہوئی نہ؟

یہ سوال بعد میں آتا ہے کہ آیا سافٹ ویر بنانے والی کمپنی سافٹ ویرکی زیادہ قیمت وصول کر رہی ہے یا جائز

سافٹ ویر تیار کرنے والی کمپنی اپنے بنائے گئے سافٹ ویر کی لاگت سے سینکڑوں گنا زیادہ منافع کما چکی ہے یا کم

یا سافٹ ویر بنانے والی کمپنی مسلم ملک کی ہے یا غیر مسلم ملک کہ یا غیر مسلم حکومت کے ملک میں کام کر رہی ہے

میں تو اتنا جانتا ہوں کہ ہمارے دین میں بنا اجازت کسی کی چیز بھی استعمال نہ کرنےکا حکم ہے،

کچھ لوگ کہیں گےکہ انہوں نے تو باقاعدہ قیمت دے کر دکان سے سافٹ ویر کی سی ڈی خریدی ہے لیکن یہ تو سب جانتے ہیں کہ سافٹ ویر کسی اور نے تیار کیا ہے آگے سے بیچنے والوں نے اسکے ہزاروں نسخے بنا کر فروخت کیے ہیں۔ کیا اتنی دلیل کافی ہے کہ آپ نے خود سے تو کوئی بے ایمانی نہیں کی بلکہ اس شخص نے کی ہے جو اصل کے نسخے بنا رہا ہے

یہی مسائل کتابوں کے ساتھ بھی ہیں، ایسی کتب جو بہت مہنگی ہیں، پاکستان میں ان کی فوٹو کاپی کر کے بیچی جاتی ہے، ان میں ایسے طلبا بھی ہیں جو کتاب کی اصل قیمت نہیں دے سکتے اور ایسے بھی ہیں جو اصل قیمت بھی دے سکتے ہیں۔

میں مانتا ہوں کہ یہ مسلہ بہت پیچیدہ ہے اور شاید اتنا بڑا مسلہ ہے بھی نہیں، مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی سوچتے ہیں، آپ بے حد محنت کر کے پڑھائی مکمل کرکے ملازمت کرتے ہیں، مگر آپ نے جن کتابوں سے پڑھا ان کا مواد چوری شدہ تھا، کیا یہ بات آپ کو کسی سوچ میں مبتلا نہیں کرتی؟

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حرام کی ایک چھینٹ بھی اپنے گھر یا اپنی روزی میں برداشت نہیں کرتے، لیکن اگر روز قیامت اس بات کا حساب دینا پڑ گیا تو پھر کیا کریں گے ؟

اگر بل گیٹ نے پکڑ لیا اور کہا لائو میری وینڈو کے پیسے تو کیا کرسکیں گے؟ یا کوئی مجے اس بات کی گارنٹی دے دے کے ایسے چھوٹے چھوٹے جرائم کا حساب نہیں ہو گا، ہے کسی کے پاس گارنٹی ؟ اس موضوع میں ایک بات کا اضافہ یہ کروں گا جو کہ ایک دلیل بھی ہے، کہ سافٹ ویر بنانے والی کمپنی اگر یہ جانتی ہو کہ لوگ اسکے سافٹ ویر کے کئی نسخے بنا کر استعمال کر رہے ہیں پھر بھی وہ چپ رہے تو ایسی صورت میں بھی استعمال کرنے والوں کو گناہ ہو گا۔

اسی موضوع کے حوالے سے ایک مثال بھی دیتا ہوں ،میرے والد صاحب کے ایک دوست تھے جن کے نو، دس بھائی تھے ، وہ خود کو بہت نیک خیال کرتے تھے اور سب بھائیوں نے داڑھیاں بھی رکھی تھی، نماز بھی پڑھتے تھے، ان کی خواتین بھی بہت پردہ دار تھی، وہ صاحب بہت سال پہلے امریکہ چلے گئے ان کو وہاں کا پاسپورٹ بھی مل گیا، انہوں نے کچھ چکر چلا کے اپنا پاسپورٹ پاکستان بھیج دیا، اور اس پاسپورٹ پر ان کے چھوٹے بھائی جو اسی وضع قطع کے تھے وہ بھی خود کو اپنے بھائی کی جگہ پیش کرکے امریک چلے گئے، یوں 5 بھائی وہی پاسپورٹ استعمال کر کے امیریکہ جا کر سیٹل ہو ئے، ایک دفعہ جب وہ صاحب پاکستان آئے تو میرے والد صاحب نے ان سے اس بارے میں پوچھا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ تو آپ دھوکہ کر رہے ہیں، ایک پاسپورٹ پر کئی لوگ بیرون ملک گئے، لیکن آپ تو خود کو بہت نیک خیال کرتے ہیں تو ان صاحب نے فرمایا
“انگریز کے ساتھ دھوکہ کرنا جائز ہے