ہم لوگ سنی بھی ہیں
شیعہ بھی ہیں
صوفی بھی ہیں
سلافی بھی ہیں
مگر کسی نے یہ بھی کبھی سوچا کہ آیا ہم ایک اچھے مسلمان بھی ہیں یا نہیں ؟؟؟؟

ہر شخص کو اپنا عقیدہ پیارا ہے اور وہ خود کو راستی ہی سجمھتا ہے اور اپنا عقیدہ دوسرے کے عقیدے پہ قربان نہیں کرتا ،
ہم لوگ عقل کا استعمال کئے بغیر ایک دوسرے کو اندھی تنقید کا نشانہ بنا لیتے ہیں

مختلف فرقے ایک دوسرے کو مشرک ، مرتد، گستاخ رسول اور کافر جیسے القابات سے نوازتے رہتے ہیں

تمام اہل علم حضرات یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ قرآن کریم فرقہ بندی کو شرک قرار دیتا ہے وہ یہ بھی کہتا ہے کہ جو لوگ فرقے میں بٹ گئے اے رسول! تیرا ان سے کوئی واسطہ نہیں مگر قرآن کے اتنے واضح حکم کے باوجود ہماری تان کہاں آکر ٹوٹتی ہے کہ یہ کام اس لیے جائز ہے کہ تمام فرقے یا مسلک کے علما کرام اس بات پر متفق ہے یعنی وہ لوگ جن کا رسول سے قرآن سے کوئی واسطہ ہی نہیں وہ لوگ آج ہمارے ایمان اور عقائد کی بنیاد قرار پاتے ہیں.

سورة الأنعام, مكية, 159 آية
إِنَّ الَّذينَ فَرَّقوا دينَهُم وَكانوا شِيَعًا لَستَ مِنهُم فى شَيءٍ ۚ إِنَّما أَمرُهُم إِلَى اللَّهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُم بِما كانوا يَفعَلونَ ﴿١٥٩﴾
بیشک جن لوگوں نے (جدا جدا راہیں نکال کر) اپنے دین کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ (مختلف) فرقوں میں بٹ گئے، آپ کسی چیز میں ان کے (تعلق دار اور ذمہ دار) نہیں ہیں، بس ان کا معاملہ اﷲ ہی کے حوالے ہے پھر وہ انہیں ان کاموں سے آگاہ فرما دے گا جو وہ کیا کرتے تھے ﴿۱۵۹﴾

ہمیں انصاف ، بد عنوانی ، تعلیم، صحت، صفائی، ملاوٹ، نشہ، گرانی، چائلڈ لیبر، دہشت گردی جیسے جلینجز کا سامنا ہے مگر
ہمارے پاس تو اس مسائل کے لیے وقت ہی نہیں ہم بہت مصروف قوم ہیں اور ان سے بڑے کہیں اہم مسئلوں کے حل میں مشغول ہیں ۔

ہم لوگوں کی سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ ہم بہت بڑے دوغلے واقع ہوئے ہیں ہم ایک طرف تو دلائل ، عقل، دلیلیں کو رٹ لگا کر رکھتے ہیں مگر ہم سب کے دلائل کا پیمانہ الگ الگ ہے . آپ ذرا خود سوچیں قرآن ہدایت کا سرچشمہ ہے ہم اس کو پڑھتے ضرور ہیں مگر اس کو سمجھنے کی کوشش کبھی نہیں کرتے ، دنیا کی کوئی بھی کتاب جب ہم پڑھتے ہیں تو اسکو سمجھ کر پڑھتے ہیں مگر ہماری بدقسمتی ہی تو ہے کہ ہمیں یہ پتا بھی ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور قرآن پاک ہدایت کا سر چشمہ مگر ہم نادان غافل لوگ پھر بھی اس سے چشم پوشی برتتے ہیں کیوں کہ ہمارے دلوں پر تالے پڑ گئے ہیں ہم گمراه ہو گئے ہیں اور جانتے بوجھتے اس راستے کی طرف گامزن ہیں جس کا اختتام صرف تباہی ہے

قرآن پاک کا اصل مقصد لوگوں کو ہدایت دینا ہے اس کی آیات کو صرف بطور عمل پڑھنا اور ان میں وسعت رزق یا مردوں کو بخشوانے یا شفائے امراض تلاش کرنا نہں ہے ، ہمارے ہاں چاہے وہ ایصال ثواب کا موقع ہو یا ویسے ہی کوئی قرآن خوانی کی محفل صرف و صرف عربی ہی پڑھی جاتی ہے نہ پڑھنے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ میں نے کیا پڑھا نہ سننے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ کیا کہا گیا.

ایک بار مسیحوں کے پادری اپنے زوال کے زمانے میں اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ بائبل کی روشنی میں گھوڑے کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں؟؟
قریب سے گزرنے والے ایک شخص نے کہا ۔۔ اس معاملے میں بائبل کو درمیان میں لانے کی کیا ضرورت ہے، گھوڑے کا منہ کھول کر اس کے دانت گن لو
آج ہم اکسیویں صدی میں ہیں ، ہمیں گھوڑے کا منہ کھول کر اس کے دانت گننے کی ضرورت نہیں۔۔اس طرح کے فیصلے ہماری برادری یا معاشرے نے وقتی ضروریات کو سامنے رکھ کر کرنے ہوتے ہیں۔۔ویسے بھی ہم اس بے وقوف گھوڑے کی طرغ فارغ نہیں جس کا منہ کوئی بھی اور کسی بھی وقت کھول کر اس کے دانت گن سکتا ہے ۔۔۔

واصف علی واصف نے بلکل صحیح کہا کہ
ہر فرقہ اسلام کے نام پر علیحدہ ہوتا جا رہا ہے، حالانکہ اسلام وحدتِ ملت کا نام ہے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم تمام لوگ فرقوں میں بٹ چکے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارا انجام کیا ہے مگر ہم اپنے مسئلے اسی طرح حل کریں گے جس طرح صدیوں سے حل کرتے چلے آ رہے ہیں اور اگر اس ضمن میں اکسیویں صدی نے مداخلت کی بھی تو ہمارا کیا بگاڑ لے گی ؟ 🙁

پہلے ایک اچھے مسلمان تو بنو ، الله اور اس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بتائے ہوئے احکامات پر تو چلو ، اختلافات پر بحث بعد میں کرتے رہنا !
سب سے پہلے اپنی اصلاح کرو ، جب اپنی اصلاح ہو جائے گی تو فرقہ پرستی کا حل بھی نکل آئے گا ان شاء الله !