ان ویرانوں اور میدانوں کے پہلو میں یکدم سیاہ پہاڑوں کا ایک سلسلہ بلند ہونے لگا اور پھر دھیرے دھیرے برف سے ڈھکتا گیا۔ وہ ایک دیوار کی صورت برف کی عرش تک دیوار کی صورت جہاز کی کھڑکیوں میں سے جھانکنے لگا۔۔۔ ۔ انھیں چھونے لگا ۔۔۔ ۔۔

اور میں جانتا تھا کہ یہ ہندوکش ہی ہو سکتے ہیں۔۔۔

جو شہر کابل کا ایک سفید گہنا ہیں۔۔۔ اس کے گرد سفید ہوتے ہیں۔۔۔ ۔

وہی ناقابل عبور ہندوکش جنھیں غزنی کا محمود ہر برس اپنے ہزاروں ہاتھیوں اور سپاہ کے عبور کر کے ہندوستان میں داخل ہو جاتا تھا۔۔۔ ۔۔

ہم نے تاریخ سے روگرانی کر کے محمود غزنوی کو ایک بت شکن اور بنیاد پرست مسلمان ثابت کر کے کتنی زیادتی کی ہے بلکہ اس کی مٹی پلید کر دی ہے۔ اسے ایک لٹیرا اور دولت کی ہوس رکھنے والا سلطان ہم نے خود ثابت کیا جب کہ وہ ایک سراسر مختلف انسان تھا۔ علم و ادب کا رسیا اور فلسفیوں کا مداح۔ جس کے دربار میں فردوسی جیسے شاعر اور اور البیرونی جیسے جینئیس سر جھکاتے تھے اور جس کا رفیق ایاز کیسا گوہر نایاب تھا اور جو لاہور کا گورنر ہوا اور آج اس کی قبر شاہ عالم کے اندر گمنامی میں دفن ہے۔ اگر آپ اصلی محمود غزنوی کو جاننا چاہتے ہیں تو کسی مسلمان کی فاتح سومناتی قسم کی تاریخ نہ پڑھیئے جس میں محمود کا ایک مسخ شدہ چہرہ نظر آتا ہے اور نہ ہی کسی ہندو تاریخ دان کی جو اسے ایک لٹیرا ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور جو ہندوستان صرف ہندوؤں کی سرکوبی کرنے کی خاطر اور مندر لوٹنے کے لئے آتا تھا۔ دنیا کا ہر بادشاہ چاہے اس کا تذکرہ مقدس صحیفوں میں ہی کیوں نہ ہو، اپنی فوجی طاقت اپنی سلطنت کے خزانے بھرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ وہ کوئی خلیفہ ہو یا سلطان۔ وہ کسی نہ کسی بہانے کمزور ہمسایوں کو زیر کرنے اور ان کے مال و اسباب کو لوٹنے کو جائز سمجھتا ہے۔یہاں فساد خلق کے باعث کچھ نام درج نہیں کئے جا سکتے لیکن وہ کوئی فرعون یا جولیئس سیزر شارلیمان ہو یا نپولین اور بابر ہو یا امیر تیمور۔۔ محض پکنک منانے کی خاطر گھر سے نہیں نکلتے۔۔۔ امن کے پرچم لہراتے ہوئے دوسرے ملکوں میں نہیں جاتے۔۔ فتح کرنے اور اپنے آپ کو ثروت مند کرنے کے لئے جاتے ہیں۔۔۔ محمود نے بھی کچھ نیا نہیں کیا ، وہی کیا جو سلطان اور بادشاہ کرتے ہیں۔ لیکن ہم نے اسلام کے نام پر اس کے ڈنکے بجا دئیے اور مخالفین کو جواز مہیا کر دیا کہ وہ اسے محض لٹیرا ثابت کر دیں۔

اس نے افغانستان میں ایک ایسا شہر آباد کیا جہاں کے موسم ہاتھیوں کے لئے خوشگوار تھے گویا یہ ایک ہاتھیوں کی پرورش گاہ تھی ایک ہاتھی نگرتھا۔ صرف اس لئے کہ وہ ہندوکش عبور کر کے اپنے ان افغانی ہاتھیوں کو ہندوستانی ہاتھیوں کے مقابل کر دے۔ وہ کہیں اور جا بھی نہیں سکتا تھا کہ ہندوستان ایک سہمی ہوئی سونے کی چڑیا تھی جس کے معبد اور محلات ہیرے جواہرات سے اٹے ہوئے تھے۔ تاریخ میں جس کسی کو آسان دولت درکار ہوتی تھی وہ ہندوستان کا رخ کرتا تھا ۔ ادھر بخارا و سمرقند یا یورپ کے برف زاروں کا رخ کون کرتا تھا۔۔۔ ۔

تو محمود نے کیا برا کیا اگر ہندوستان کا رخ کر لیا اور بار بار کیا۔۔۔ ۔

اصل محمود کی شخصیت پرکھنے کے لئے ہمیں ہمیشہ کی طرح مغرب کے تاریخ دانوں پر انحصا کرنا پڑے گا۔ شہرہ آفاق تاریخ دان ایڈورڈ گبز کی ضخیم تصنیف “ڈیکلائن اینڈ فال آف دے رومن ایمپائر” کی متعدد جلدوں میں سے صرف وہ پڑھ لیجئے جو عربوں اور مسلمانوں کے متعلق ہے۔ اس انگریز تاریخ دان نے جس طور پر تاریخ کو بھی ادب بنا دیا ہے وہ ایک معجزے سے کم نہیں۔ وہ سلطان محمود کو میدان حرب میں ایک ایک بے مثال قائد قرار دیتا ہے، اس کی عظمت و بڑائی اور علم دوستی کے گن گاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ ہر برس اپنے ہزاروں ہاتھیوں اور لاکھوں سپاہ کے ساتھ ہندوکش ایسے قاتل اور ناقابل عبور سلسلہ کوہ کو پار کر کے ہندوستان کے میدانوں میں داخل ہونا ایک محیرالعقول کارنامہ ہے۔ ہینی بال نے تو نہایت کمتر بلندی والے الپس عبور کئے تھے اور صرف محدودے چند ہاتھیوں کے ساتھ صرف ایک بار عبور کئے تھے اس کے باوجود اسے ایک عظیم سپہ سالار اور فاتح کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایڈورڈ گبنز مبہم نہیں واضح الفاظ میں اعتراف کرتا ہے کہ ۔۔۔ ۔غزنی کا سلطان محمود ۔۔۔ مقدونیہ کے سکندر سے کہیں بڑا اور عظیم فاتح تھا۔

محمود غزنوی ایک ایسا جائنٹ تھا جسے ہم نے اپنے مذہبی تعصب میں رنگ کر ایک بونا بنا دیا ہے۔

مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے “ماسکو کی سفید راتیں“ سے اقتباس۔