نماز تراویح کے بارے میں منافق اور فتنہ پرور لوگ شکوک و شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں اور رمضان آتے ہی مسلمانوں کو عبادت و نوافل سے بدظن کرنے کے لئے طرح طرح کے حیلے بہانے چلا کر تراویح نماز کی حیثیت کو مشکوک بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں
اس حوالے سے صحیح احادیث اور علماء کے متفقہ رائے سے مسلمانوں کو آگاہ کرنا ہم سب کا فرض ہے .

اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد میں (نفل) نماز پڑھی تو لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اگلی رات نماز پڑھی تو اور زیادہ لوگ جمع ہوگئے، پھر تیسری یا چوتھی رات بھی اکٹھے ہوئے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف تشریف نہ لائے۔ جب صبح ہوئی تو فرمای : میں نے دیکھا جو تم نے کیا اور مجھے تمہارے پاس (نماز پڑھانے کے لئے) آنے سے صرف اس اندیشہ نے روکا کہ یہ تم پر فرض کر دی جائے گی۔ یہ واقعہ رمضان المبارک کا ہے۔

1. بخاری، الصحيح، کتاب التهجد، باب : تحريض النبي صلی الله عليه وآله وسلم علی صلاة الليل والنوافل من غير إيجاب، 1 : 380، رقم : 1077
2. بخاري، الصحيح، کتاب صلاة التروايح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 708، رقم : 1908
3. مسلم، الصحيح، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الترغيب في قيام رمضان وهو التراويح، 1 : 524، رقم : 761
4. ابو داؤد، السنن، کتاب الصلاة، باب في قيام شهر رمضان، 1 : 49، رقم : 1373
5. نسائي، السنن، کتاب قيام الليل وتطوع النهار، باب قيام شهر رمضان، 2 : 337، رقم : 1604

2۔ امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں قیامِ رمضان (تراویح) کی رغبت دلایا کرتے تھے لیکن حکماً نہیں فرماتے تھے۔ چنانچہ (ترغیب کے لئے) فرماتے کہ جو شخص رمضان المبارک میں ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ قیام کرتا ہے تو اس کے سابقہ تمام گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک قیام رمضان کی یہی صورت برقرار رہی اور یہی صورت خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور خلافتِ عمررضی اللہ عنہ کے اوائل دور تک جاری رہی یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں جمع کر دیا اور وہ انہیں نمازِ (تراویح) پڑھایا کرتے تھے۔ لہٰذا یہ وہ پہلا موقع تھا جب لوگ نمازِ تراویح کے لئے (باقاعدہ با جماعت) اکٹھے ہوئے تھے۔

1. ابن حبان، الصحيح، 1 : 353، رقم : 141
2.ابن خزيمة، الصحيح، 3 : 338، رقم : 2207

3۔ امام ابن حجر عسقلانی نے ’’التلخیص‘‘ میں بیان کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو دو راتیں 20 رکعت نماز تراویح پڑھائی، جب تیسری رات لوگ پھر جمع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف (حجرۂ مبارک سے باہر) تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمای : مجھے اندیشہ ہوا کہ (نمازِ تراویح) تم پر فرض کردی جائے گی لیکن تم اس کی طاقت نہ رکھوگے۔

عسقلاني، تلخيص الحبير، 2 : 21

4۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضي اﷲ عنہماسے مروی ہے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں وتر کے علاوہ بیس رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔

1. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 243، رقم : 798
2. طبراني، المعجم الاوسط، 5 : 324، رقم : 5440
3. طبراني، المعجم الکبير، 11 : 311، رقم : 12102
4. ابن أبي شيبة، المصنف، 2 : 164، رقم : 7692

5۔ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس (20) رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے۔

بيهقي، السنن الکبری، 2 : 699، رقم : 4617

مذکورہ بالا روایات صراحتاً اِس اَمر پر دلالت کرتی ہیں کہ تراویح کی کل رکعات بیس ہوتی ہیں۔ اِسی پر اہل سنت و جماعت کے چاروں فقہی مذاہب کا اِجماع ہے اور آج کے دور میں بھی حرمین شریفین میں یہی معمول ہے۔ وہاں کل بیس رکعات تراویح پڑھی جاتی ہیں، جنہیں پوری دنیا میں براہِ راست ٹی۔ وی سکرین پر دکھایا جاتا ہے۔

نمازِ تراویح کی ترغیب خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، اور تراویح کا جماعت سے ادا کرنا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، مگر اس اندیشے کی وجہ سے کہیں یہ اُمت پر فرض نہ ہوجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کا اہتمام ترک فرمادیا، اور حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانے میں چونکہ یہ اندیشہ باقی نہیں رہا تھا، اس لئے آپ نے اس سنت “جماعت” کو دوبارہ جاری کردیا۔

علاوہ ازیں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی اقتدا کا لازم ہونا شریعت کا ایک مستقل اُصول ہے، اگر بالفرض تراویح کی نماز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجتہاد ہی سے جاری کی ہوتی تو چونکہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کو بالاجماع قبول کرلیا اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے اس پر عمل کیا، اس لئے بعد کے کسی شخص کے لئے اجماعِ صحابہ اور سنتِ خلفائے راشدین کی مخالفت کی گنجائش نہیں رہی، یہی وجہ ہے کہ اہلِ حق میں سے کوئی ایک بھی تراویح کے سنت ہونے کا منکر نہیں۔

بیس تراویح کا ثبوت صحیح حدیث سے

س… بیس تراویح کا ثبوت صحیح حدیث سے بحوالہ تحریر فرمائیں۔

ج… موٴطا امام مالک “باب ما جاء فی قیام رمضان” میں یزید بن رومان سے روایت ہے:

“کان یقومون فی زمان عمر بن الخطاب فی رمضان بثلٰث وعشرین رکعة۔”

اور امام بیہقی رحمہ اللہ (ج:۲ ص:۴۹۶) نے حضرت سائب بن یزید صحابی سے بھی بسند صحیح یہ حدیث نقل کی ہے۔ (نصب الرایہ ج:۲ ص:۱۵۴)

ان احادیث سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے بیس تراویح کا معمول چلا آتا ہے، اور یہی نصاب خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک محبوب و پسندیدہ ہے، اس لئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، خصوصاً حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ بدگمانی نہیں ہوسکتی کہ وہ دین کے کسی معاملے میں کسی ایسی بات پر بھی متفق ہوسکتے تھے جو منشائے خداوندی اور منشائے نبوی کے خلاف ہو۔ حضرت حکیم الاُمت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں:

ترجمہ:…”اجماع کا لفظ تم نے علمائے دین کی زبان سے سنا ہوگا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی زمانے میں تمام مجتہدین کسی مسئلے پر اتفاق کریں، بایں طور کہ ایک بھی خارج نہ ہو، اس لئے کہ یہ صورت نہ صرف یہ کہ واقع نہیں، بلکہ عادةً ممکن بھی نہیں، بلکہ اجماع کا مطلب یہ ہے کہ خلیفہ، ذو رائے حضرات کے مشورے سے یا بغیر مشورے کے کسی چیز کا حکم کرے اور اسے نافذ کرے یہاں تک کہ وہ شائع ہوجائے اور جہان میں مستحکم ہوجائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: “لازم پکڑو میری سنت کو اور میرے بعد کے خلفائے راشدین کی سنت کو۔”
(ازالة الخفاء ص:۲۶)

آپ غور فرمائیں گے تو بیس تراویح کے مسئلے میں یہی صورت پیش آئی کہ خلیفہٴ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُمت کو بیس تراویح پر جمع کیا اور مسلمانوں نے اس کا التزام کیا، یہاں تک کہ حضرت شاہ صاحب کے الفاظ میں “شائع شد و در عالم ممکن گشت” یہی وجہ ہے کہ اکابر علماء نے بیس تراویح کو بجاطور پر “اجماع” سے تعبیر کیا ہے۔

ملک العلماء کاسانی فرماتے ہیں:

“ان عمر رضی الله عنہ جمع اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم فی شھر رمضان علی ابی بن کعب فصلی بھم فی کل لیلة عشرین رکعة ولم ینکر علیہ احد فیکون اجماعًا منھم علٰی ذالک۔”

(بدائع الصنائع ج:۱ ص:۲۸۸، مطبوعہ ایچ ایم سعید کراچی)

ترجمہ:…”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو ماہِ رمضان میں اُبیّ بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتدا پر جمع کیا، وہ ان کو ہر رات بیس رکعتیں پڑھاتے تھے، اور اس پر کسی نے نکیر نہیں کی، پس یہ ان کی جانب سے بیس تراویح پر اجماع ہوا۔”

اور موفق ابنِ قدامہ الحنبلی، المغنی (ج:۱ ص:۸۰۳) میں فرماتے ہیں: “وھذا کالاجماع” اور یہی وجہ ہے کہ ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل) بیس تراویح پر متفق ہیں، جیسا کہ ان کی کتب فقہیہ سے واضح ہے، ائمہ اربعہ کا اتفاق بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ بیس تراویح کا مسئلہ خلف سے تواتر کے ساتھ منقول چلا آتا ہے۔ اس ناکارہ کی رائے یہ ہے کہ جو مسائل خلفائے راشدین سے تواتر کے ساتھ منقول ہوں اور جب سے اب تک انہیں اُمتِ محمدیہ (علیٰ صاحبہا الف الف صلوٰة وسلام) کے تعامل کی حیثیت حاصل ہو، ان کا ثبوت کسی دلیل و برہان کا محتاج نہیں، بلکہ ان کی نقلِ متواتر اور تعاملِ مسلسل ہی سو ثبوت کا ایک ثبوت ہے: “آفتاب آمد دلیلِ آفتاب!” —