حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ نکاح میں چار چیزیں دیکھی جاتی ہیں:
۱۔خاندان، ۲۔دین، ۳۔حسن، ۴۔مال اور پھر فرمایا تم دین کو ترجیح دو۔
اور حدیث کا مفہوم ہے کہ سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں اخراجات کم سے کم ہوں۔
چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات کی روشنی میں صحابہ کرام نے رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے نکاحوں کو انتہائی سادہ بنا دیا، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے نکاحوں میں برکت رکھ دی۔
لیکن آج ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ اور صحابہ کرام کی سنت سے اعراض کیا جس کی وجہ سے ساری برکتیں سلب ہوگئیں۔ آج شادیاں ہوتی ہیں جن کے لئے لوگ ساری ساری زندگی کماتے ہیں اور پھر شادی کے دو دنوں میں پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں۔مقابلہ بازی ہوتی ہے کہ فلاں نے اپنی شادی میں اتنا پیسہ ناچنے والوں پر خرچ کیا تھا ہم اتنا خرچ کریں گے۔
ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر سرخی دیکھی تو فرمایا یہ کیا ہے؟ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے فرمایا حضور میں نے نکاح کیا ہے، اللہ اکبر ایک چھوٹی سے بستی میں بسنے والوں کو بھی خبر ہی نہ ہوئی کہ اس بستی کا سب سے امیر ترین انسان نکاح کرتا ہے اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی ۔
جس دور میں ہم جی رہے ہیں آج نکاح بہت کم ہوتے ہیں ، یا مقابلہ بازی ہوتی ہے، یا ریاکاری ہوتی ہے، یا سوداگری ہوتی ہے۔
شاید آپ کو یہ لفظ بہت عجیب لگے کہ نکاح کے بجائے سوداگری کا کیا مطلب ہے؟
جی جناب آج کے دور میں بہت سارے لوگ سوداگری بھی کرتے ہیں۔ یعنی بولی لگاتے ہیں اتنی اتنی رقم دو گے تو نکاح ہوگا۔
ظاہر بات ہے جب اس طرح دونوں طرف سے جب سودا کیا جاتا ہے تو پھر وہ محبت اور پیار کبھی بھی پیدا نہیں ہو سکتا جو ایثار کے جذبے سے اللہ تعالیٰ پیدا فرمادیتے ہیں ۔ چنانچہ میاں بیوی دونوں اپنے اپنے ہتھیار استعمال کرنے کی ایک دوسرے کو دھمکیاں دیتے رہتے ہیں۔
اس کے مقابلے میں اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں نکاح میں کم سے کم خرچ کیا جائے اور ایک دوسرے کے ساتھ ایثار والا معاملہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ میاں بیوی کے دل میں اس ایثار کی وجہ سے محبت اور الفت پیدا فرماتے ہیں اور اس طرح ان کی ساری زندگی اسی طرح ایک دوسرے کے ساتھ ایثار کرتے ہوئے گزرتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں دوسری بڑی خرابی رشتے کے انتخاب میں غلط ترجیحات ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ترجیح بتائی وہ “دین ” ہے ، یعنی لوگوں کی مختلف ترجیحات ہوتی ہیں بعض حسن کوترجیح دیتے ہیں اور بعض خاندان کو، بعض مال کو اور بعض دین ، ان میں سب اعلیٰ چیز جسے ترجیح دینی چاہئے اور ترجیحات میں پہلے نمبر پر رکھنا چاہئے وہ دین ہے۔
ہر انسان کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں اس کا خیال بھی رکھا جا سکتا ہے لیکن دین کے بعد یعنی پہلی ترجیح دین ہونا چاہئے اس کے بعد باقی تین چیزوں میں جیسے مناسب ہو کر لیا جائے ، مثلا
۱۔ دین۲۔خاندان ۳۔مال ۴۔حسن
۱ٍ۔دین ۲۔مال ۳۔حسن ۴۔خاندان
۱۔دین ۲۔حسن ۳۔خاندان ۴۔مال
۱۔دین ۲۔خاندان ۳۔حسن ۴۔مال وغیرہ