اللہ مجھ پر آپ پر رحم فرمائے، آپ کو علم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو لازمی طور پر اخلاص کے ساتھ توبہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:-

… (سُوۡرَةُ التّحْریم)
اے ایمان والو اللہ کے حضور سچی توبہ کرو۔

اور توبہ کے لیے ہمیں مہلت بھی عطا فرمائی۔ ایک تو وہ ہے جو کراماً کاتبین کے عمل لکھنے سے پہلے ملتی ہے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

بائیں طرف والا فرشتہ خطا کرنے والے مسلمان بندے سے چھ گھڑیاں قلم اٹھائے رکھتا ہے۔ پھر اگر وہ نادم ہو اور اللہ سے معافی مانگ لے تو نہیں لکھتا ورنہ ایک برائی لکھ دی جاتی ہے۔

اور دوسری مہلت اس کتابت سے بعد سے لے کر موت تک ہے۔
مصیبت تو یہ ہے کہ آج کل بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ پر اعتماد نہیں رکھتے۔ وہ دن رات کئی قسم کے گناہ کرتے ہیں۔ پھر ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو گناہوں کو معمولی سمجھتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ کئی لوگ صغیرہ گناہوں کواپنے دل میں حقیر جانتے ہیں۔ مثلا کوئی ان میں سے کہہ دے گا : آخر ایک اجنبی عورت کو دیکھنے یا اس سے مصافحہ کرنے کا کیا نقصان ہے؟

یہ لوگ ان نامحرم عورتوں کو رسالوں اور سلسلہ وار مضامین میں نظریں بچا کر دیکھتے ہیں حتی کہ جب انہیں یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بات حرام ہے تو ان میں کوئی بڑے آرام سے یہ پوچھتا ہے کہ اسمیں کتنی برائی ہے؟ آیا یہ کبیرہ گناہ ہے یہ صغیرہ؟ آپ جب امام بخاری رحمہ اللہ کی صحیح میں‌مذکور مندرجہ ذیل دو
آثار دیکھ کر اس بات سے مقابلہ کریں گے تو آپ کو حقیقت معلوم ہو جائے گی:-

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
تم ایسے کام کرتے ہو جو تمھاری نظروں میں بال سے چھوٹے ہیں جبکہ ہم انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زمانے میں ہلاک کر دینے والے شمار کرتے تھے۔ (موبقات کا معنی ہلاک کرنے والے کام ہیں)

ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

مومن اپنے گناہوں‌کو یوں دیکھتا ہے جیسے وہ ایک پہاڑ کے دامن میں بیٹھا ہو اور ڈرتا ہو کہ اس پر گر نہ پڑے۔ اور فاجر اپنے گناہوں کو ایسے دیکھتا ہے کہ ایک مکھی ہے جو اس کے ناک پر بیٹھ گئی پھر آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ اس طرح کر کے اس مکھی کو ناک سے اڑا دیتا ہے۔

کیا ایسے لوگ اب بھی معاملہ کی اہمیت کا اندازہ نہیں کر سکتے جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی درج ذیل حدیث پڑھتے ہیں:

گناہوں‌کو حقیر سمجھنے والی باتوں سے بچو۔ گناہوں کو حقیر سمجھنے والوں کی مثال ان لوگوں کی ہے جو ایک وادی میں‌ اترے ۔ ایک آدمی ایک لکڑی اٹھا لایا اور دوسرا بھی لکڑی اٹھا لایا حتی کہ اتنی لکڑیاں ہو گئیں جن سے انہوں نے اپنی روٹیاں پکائیں اور گناہوں‌کو حقیر سمجھنے والی باتیں کبھی اپنے کرنے والے ہی کو پکڑ لیتی ہیں تو اسے ہلاک کر دیتی ہیں۔
ایک اور روایت میں ہے کہ گناہوں کو حقیر سمجھنے والی باتوں سے بچو کیونکہ یہ باتیں‌کبھی اس آدمی پر آ اکٹھی ہوتی ہیں تانکہ اسے ہلاک کر ڈالتی ہیں۔

اور اہل علم بتلاتے ہیں کہ: صغیرہ گناہوں کے ساتھ کبھی حیاء کی قلت ۔ بے پروائی ، اللہ تعالیٰ سے نڈر ہونا اور اس گناہ کو حقیر سمجھنا بھی شامل ہو جاتے ہیں اور یہ سب باتیں اسے کبیرہ گناہوں سے جا ملاتی ہیں۔
بلکہ اسے کبیرہ ہی بنا دیتی ہیں۔ اسی لیے وہ کہتے ہیں کہ جب صغیرہ گناہ بار بار کیا جائے تو وہ صغیرہ نہیں رہتا اور اگر کبیرہ گناہ پر استغفار کی جائے تو وہ کبیرہ نہیں رہتا اور جس شخص کا یہ حال ہو اسے ہم کہتے ہیں کہ: گناہ کے چھوٹا ہونے کی طرف نہ دیکھوبلکہ یہ دیکھو کہ تم نافرمانی کس کی کر رہے ہو۔ ان باتوں سے سجے لوگ ان شاءاللہ فائدہ اٹھائیں گے جو اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کا احساس کرتے ہیں ۔ وہ نہ تو اپنی گمراہی سے بےپرواہ ہیں اور نہ ہی اپنی باطل بتوں پر اصرار کرتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اس قول پر ایمان رکھتے ہیں:

(سُوۡرَةُ الحِجر)(٤٩)
میرے بندوں کو خبر دیجیے کہ بلاشبہ میں بخشنے والا ہوں۔

جیسے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔
(٥٠)
اور جو میرا عذاب ہے وہ دکھ پہنچانے والا عذاب ہے