Written by:مبشر احمد عباسی

کراچی کے اسلامیہ ہوٹل کا مالک غفور کاونٹر سے اٹھا ، اس نے دوراز سے وسکی کا کوارٹر لیا اور نوکر کو سوڈے کی بوتل لانے کا کہہ کر خود کونے کی کرسی پر جا کر بیٹھ گیا۔ غفور ہوٹل پر ہو یا گھر میں، ریڈیو پاکستان سے تاج محل پر راگ آتا تو وہ وسکی

کا کواٹر پیتا اور ماضی کی یاد میں گم ہو جاتا۔ اس کے گھر اور ہوٹل دونوں میں تاج محل کی تصویریں لگی ہوئی ہیں۔ وہ ان کی طرف دیکھتا اور پھر اندر جھانکتا۔ دیکھتا کہ تاج محل پانی میں تیررہا ہے۔ دیکھتا کہ پریاں تاج محل کی صفائی کر رہی ہیں۔

دیکھتا کہ وہ تاج محل کا فرش دھو رہا ہے۔تاج محل اس کے گھر سے بس کے دو گھنٹے کے سفر جتنا دور تھا۔ وہ دس سال کا تھا جب اس کے خاندان نے کان پور سے ہجرت کی، اس کے والد نے بتایا کہ مسلمانوں کیلئے الگ ملک پاکستان بنا ہے سو وہاں

کوچ کرتے ہیں۔ اس واقعے کو بھی چوبیس سال گزر گئے۔اس نے بچپن میں تاج محل کی کئی داستانیں سنی تھی۔ شاہ جہاں نے ممتاز بیگم کی یاد میں ایک آنسو بہایا تھا۔۔۔فرشتوں نے وہ جھپٹ لیا اور ایک رات میں اس سے تاج محل بنا دیا۔ ہم

ہندوستان سے تاج محل لے لیں گے اور ریڑھوں پر لاد کر پاکستان لائیں گے۔ والد راہ عدم پر روانہ ہو گیا۔ تاج محل تو ریڑھوں پر لاد کر پاکستان نہ آیا، اسلامیہ ہوٹل کا ذمہ داری اس کے کندھوں پر آگیا۔ وہاں رات کو اکثر اوباش آتے اور

شراب پیتے۔ ان کی آنکھیں پھٹی ہوتیں اور ذہن خالی جیسے بے روح بت۔ وہ آدھی رات کو اٹھتے۔

غفور کی بھی وہی حالت ہو گئی، اس نے پکا مہاجر بننے کیلئے داڑھی بڑھالی اور مونچھیں صاف کروا دیں۔والد کا کہنا تھا، سچے مسلمان کو مونچھیں نہیں رکھنا چاہئیں، عاجزی سے نماز پڑھا کرے، ابا کی موت کے بعد اسے خیال آیا کہ اسلامیہ ہوٹل

کے بجائے اس کا نام آب گنگا رکھوں۔ گنگا میں اس نے ڈبکیاں لگائی تھیں۔ سندھو، سندھیوں کا کچھ بھی ہو، آب دریا تو گنگا ہے گنگا۔۔۔ اور وہ گنگا آج اس کی آنکھوں میں بھر آئی کہ تاج محل پر راگ چل رہا تھا۔ اس کا ہوٹل لا کالج کے ساتھ

آزاد پریس کے اس طرف مگر دائیں جانب تھا۔ اگر دونوں جگہوں کا نقشہ بنایا جائے تو انگریزی کا لفظ “زیڈ”بن جائے گا۔ یہ ہوٹل ایک جمنا نامی ہندو کا تھا۔ جو چوتھائی وقت کا ونٹر پر نیند کرتا تھا۔ یہ مشہور تھا کہ جمنا صبح کنور بھگت اور باقی وقت

پنکج ملک اور سہگل کے ریکارڈ بجاتا۔ایک روز گوشت کی ہانڈی میں چند مکھیاں گر گئیں۔ نوکر نے وہ نکالنا چاہیں تو غفور نے طمانچہ مار دیا۔ نوکر کہنے لگا سر! گاہگوں کو کیا پتا چلے گا!

گاہک کو پتا نہ چلا توکیا ہوا ہمیں معلوم ہو گیا، یہ کافی نہیں ہے، یہ ایک ہندوکا چھوڑا ہوا ہوٹل ہے۔ اس کی یاد میں اسے صاف ستھرا رہنا چاہیے۔ بے شک اس نے دریا ئے گنگا سے محبت کی تھی۔ مگر اس نے ہوٹل کا نام آب گنگا اس لئے نہیں رکھا

کہ اسلامیہ لفظ اس کے والد کو پسند تھا کیونکہ اسلام نیک نیتی کا نام ہے۔ اسے ایک روز خیال آیا کہ داڑھی صاف کر دے۔ مگر اس کے ابا اپنا وطن چھوڑ کر اس لئے پاکستان آئے تھے۔ کہ وہ پکے مسلمان تھے۔ اور ایک پکے مسلمان کیلئے یہ

لازمی تھا کہ وہ مونچھوں کے بجائے داڑھی بڑھائے۔ اس کی رنگت ایسی تھی کہ اس کے سامنے تو ابھی چاند کی طرح چمکنے لگے۔ اس پر سفید آنکھیں یوں جیسے گئو شالہ میں رکھا ہوا کرشن کا بت، کالی شکل سفید آنکھیں، اس کالی شکل میں خون کی

اتنی سوخی جیسے اندھیری رات میں سورج نے سحر نکالی ہو۔ راگ چل رہا تھا اور شمع سے جیسے موم پگھل کر اس کی آنکھوں کے آنسووں میں سفید تاج محل نیچے بہہ رہا تھا۔ آہ تاج! تجھے دنیا نے دیکھا۔ جو مسلمان تاج محل نہ دیکھے وہ کافر ہے۔

کراچی اور کانپور کی ایک خوبی ہے کہ دونوں جگہ اردو بہت اچھی طرح بولی جاتی ہے۔ کانپور سے کچھ آگے بس تھوڑادور تاج محل ہے۔ تاج محل جو میں نے نہ دیکھا، میری آنکھوں میں تاج کی چمک ہے، یہ آنسو ہیں کہ بہتے روح سے تاج محل

نکل رہا ہے۔آنسووں کی زبان تاج عالمگیر ہے مگر یہ آنسو نہایت ذاتی ہے، یہ خزانہ پوشیدہ رہنا چاہیے۔ اس نے آنسو پونچھ لئے اور دوسرا کواٹر لے کر پانی ڈالا اور پینے لگا۔ اس نے دیکھا نشے میں چور ہانپتا اس کا دوست عابد اندرآیا، اس نے ایک

گلاس بنا کر عابد کو دیا اور پھر دونوں کی کچھ اس طرح کی گفتگو ہوئی۔ “ارے تو نے کچھ سنا؟”

“کیا؟”

“آہ۔۔۔۔۔تاج کا راگ سنا یار!”

“نہیں ۔ نیوز!”

“نیوز میں کیا ہے!”

“بڑی نیوز ہے”

” بڑی نیوز تاج کی تعریف ہے میاں۔ باقی تو اس یحییٰ خان کی بکواس ہو گی۔۔۔۔۔۔”

“ارے انڈیا۔ پاکستان کی جنگ چھڑ گئی ہے۔۔۔۔۔۔”

“جنگ ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔ اشیامہنگی ہوں گی، گاہک چیخیں گے، ہر طرف بلیک آوٹ ہو گا۔ ہوٹل اور گلیاں ویران ہو جائیں گی۔ ”

“ارے اب ہندوستان ختم ہو جائے گا۔ لال قلعے پر پاکستان کا جھنڈا لہرائے گا۔”

“الٹا مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہو گا ۔”

“نا ممکن، پاکستان جہازوں نے زبردست بم باری کی ہے۔ آگرہ۔۔۔۔۔۔۔ وہ تو آگ کی لپیٹ میں ہے۔۔۔۔۔۔۔”

“کیا! آگرہ؟ آگرہ میں تو تاج محل ہے۔”

“وہ تو ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہو گا۔۔۔۔”

“کیا!”

“جمنا کی تہہ میں تاج محل کا سنگ مرمر ٹھنڈا ہو رہا ہو گا۔”

” مگر تاج محل تو دنیا میں مسلمانوں کی بہت بڑی تخلیق ہے۔”

غفور نے اپنی با نہیں ٹیبل پر پھیلا دیں اور ان کے درمیان اپنا سر رکھ دیا۔

عابد وسکی کے گھونٹ چڑھانے لگا۔۔۔۔۔” کیا ہوا؟” عابد نے پوچھا ۔ “آگرہ۔۔۔۔۔۔آگرہ۔۔۔۔۔ وہ پاکستانی بم آگرہ پر نہیں میرے سینے پر گرے ہیں۔ آگرہ میرا ہے، آگرہ میرا ہے۔”

چاہ گاہک اٹھے، انھوں نے غفور کو اٹھا کر دھکا دیا” آگرہ تمہارا ہے، یہاں کیا ماں ۔۔۔۔ آئے ہو” آدھی رات کو لوگوں کی بھیڑ جمع ہو گئی، غفور کو گھونسے اور ٹھو کریں ماری گئیں ، پولیس آئی اور غفور کو گرفتار کر کے لے گئی۔ تیسرے دن اخبار

میں اس طرح کی خبر چھپی۔

ہندوستانی جاسوس گرفتار: کل قاسم روڈ کراچی کے قریب غفور نامی ایک چونتیس سالہ غدار ہندوستانی جاسوس گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق وہ بلیک آوٹ میں بلڈنگ کی چھت پر چڑھ کر ٹارچ سے ہندوستانی جہازوں کو اشارے کر رہا تھا

کہ یہاں بم گراو۔ یہ گزشتہ کئی سالوں سے آستین کا سانپ بن کر یہاں ہندوستان کے لئے جاسوسی کر رہا تھا۔