میں دیگر شہدا اور انبیا کے ساتھ ایک دفعہ پھر اعراف کی بلندی پر کھڑا تھا۔ اس بلند مقام سے میدان حشر بالکل صاف نظر آرہا تھا۔ تاحد نظر وسیع میدان میں لوگوں کو دو گروہوں میں جمع کردیا گیا تھا۔ میدان کے داہنے ہاتھ پر تاحد نظر لوگوں کی صفیں در صفیں بنی ہوئی تھیں۔ یہ اہل جنت تھے۔ ان کے چہرے روشن، آنکھوں میں چمک اور لبوں پر مسکراہٹ تھی۔ ان کے لباس بہترین، ان کے دل خوشی سے سرشار اور ان کی روحیں شکر گزاری کے احساس میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ یہ داہنے ہاتھ والے تھے۔ ان داہنے ہاتھ والوں کی خوش بختی کا کیا کہنا!

میدان کے بائیں طرف لوگ ایک ہجوم کی شکل میں گھٹنوں کے بل بیٹھے تھے۔ان کے ہاتھ پیچھے کرکے باندھے گئے تھے اور جہنم کا نظارہ ان کے سامنے تھا۔ یہ اہل جہنم تھے جن کے لیے ابدی خسارے کا فیصلہ سنایا جاچکا تھا ۔ وہ منتظر تھے کہ کب وہ اپنے فیصلہ کن انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔ ان کے چہرے اترے ہوئے، آنکھیں بجھی ہوئیں، پیشانی عرق آلود اور گردن جھکی ہوئی تھی۔ ان کی رنگت سیاہ پڑچکی تھی، جسم پر گرد و غبار اٹی ہوئی تھی۔یہ بائیں ہاتھ والے تھے۔ ان بائیں ہاتھ والوں کی بدبختی کا کیا کہنا تھا۔

سامنے عرش الٰہی تھا۔ اس کے جلال و جمال کا کیا کہنا! عرش کے اطراف صف در صف فرشتے کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے بیچ میں عرش سے متصل آٹھ انتہائی غیر معمولی فرشتے کھڑے ہوئے تھے۔ یہ حاملین عرش تھے۔ فرشتوں کی زبان پر حمد و تسبیح کے الفاظ جاری تھے۔ جبکہ عرش کے پیچھے قدرے بلندی پر جنت و جہنم دونوں کا نظارہ واضح طور پر نظر آرہا تھا۔ داہنے طرف جنت تھی جس سے اٹھنے والی خوشبوؤں نے حشر کے داہنے حصے کو مہکا رکھا تھا اور وہاں سے بلند ہونے والے نغموں نے دلوں کے تاروں کو چھیڑدیا تھا۔ جنت کی بستی کے حسین ترین مرغزار، سبزہ زار، باغیچے، محلات، نہریں، خدام واضح طور پر نظر آرہے تھے۔ اس جنت کا منظر ہر شخص کی نگاہوں کو للچارہا تھا۔ اہل جنت اپنی خوش نصیبی پر رشک کرتے، اس جنت کی آرزو دل میں لیے ایک دوسرے کے ساتھ خوش گپیاں کررہے تھے۔

دوسری طرف جہنم کا انتہائی بھیانک نظارہ عرش کے الٹی طرف نمایاں تھا۔ آگ کے شعلے سانپ کی زبان کی طرح بار بار لپک رہے تھے۔ جہنم میں دیے جانے والے مختلف قسم کے عذابوں کا نظارہ دلوں کو دہلارہا تھا۔ بدبو، غلاظت، آگ، زہریلے حشرات، وحشی جانور، کڑوے کسیلے پھل، کانٹے دار جھاڑ جھنکار، پیپ اور لہو کا کھانا، کھولتا ہوا پانی، ابلتے ہوئے تیل کی تلچھٹ، ان جیسے ان گنت عذاب اور سب سے بڑھ کر انتہائی بدہیبت اور خوفتاک فرشتے جو ہاتھوں میں کوڑے، زنجیریں، طوق اور ہتھوڑے لے کر اہل جہنم کا استقبال کرنے کے لیے موجود تھے۔

اہل جہنم کی بدحالی پہلے ہی کچھ کم نہ تھی کہ اب جہنم کو انہوں نے آنکھوں سے دیکھ لیا تھا۔ اس منظر نے ان کی ہمت کو آخری درجے میں توڑ ڈالا تھا۔ وہ وحشت زدہ نظروں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے ہر شخص کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ کسی طرح ان کی موت کا فیصلہ سنادیا جائے۔ مگر افسوس کہ جہنم میں ہر عذاب تھا سوائے موت کے۔ کیونکہ اہل جہنم کے لیے موت سب سے بڑی راحت تھی لیکن جہنم مقام عذاب تھا، مقام راحت نہیں۔

اہل جنت و اہل جہنم کے بیچ میں ایک شفاف پردہ تھا۔ جس سے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ سکتے اور گفتگو کرسکتے تھے، مگر اس پردہ کو عبور نہیں کرسکتے تھے۔ اہل جنت اہل جہنم سے پوچھتے کہ ہم نے تو اپنے رب کے وعدے کو سچ پایا جواس نے ہم سے کیا تھا۔ کیا تم نے بھی جہنم کے سارے وعدے اور تفصیلات سچ پائے جو اللہ نے تم سے کیے تھے۔ ان اہل جہنم کے پاس جواب میں اعترافاً گردن جھکادینے اور ہاں کہنے کے علاوہ کوئی اور چارہ ہی نہیں تھا۔

وہ بھوک اور پیاس سے بلک رہے تھے۔ اس لیے برابر میں اہل جنت کے سامنے میوے، گوشت کی رکابیاں گردش کرتے اور انھیں جام نوش کرتے دیکھتے تو کہتے کہ یہ پانی اور دیگر غذائیں جواللہ نے تمھیں دی ہیں،کچھ ہمیں بھی کھانے کے لیے دے دو۔ جواب ملتا کہ یہ اللہ نے اہل جہنم پر حرام کررکھی ہیں۔

ہم اوپر کھڑے یہ سب کچھ دیکھ اور سن رہے تھے۔ گرچہ ہمارے فیصلے کا اعلان ایک رسمی سی بات تھی، مگر نجانے کیوں میرا دل ڈر رہا تھا۔ میں اللہ تعالیٰ سے اس کی رحمت اور درگزر کا سوال کررہا تھا۔ میں دعا کررہا تھا کہ پروردگار ہمیں اہل جہنم کا ساتھی نہ بنا بلکہ اہل جنت میں داخل فرما۔ یہی دعا دوسرے لوگ کررہے تھے۔

یہ میری کیفیت تھی۔ جبکہ بعض دیگر شہدا اس موقع پر شدت جذبات میں آگے بڑھے اور پکار کر اہل جنت کو مبارکباد دینے لگے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ آپ پر خدا کی رحمت اور سلامتی ہو۔ اس موقع پر انبیا آگے بڑھے اور اپنی قوم کے کافر سرداروں کو پہچان کر کہنے لگے۔ کہاں ہے آج تمھاری سرداری ، تمھاری جمعیت اور تمھارا گھمنڈ؟ پھر وہ اہل جنت کی طرف اشارہ کرکے کہتے کہ کیا یہ وہی غریب لوگ ہیں جن کو تم حقیر سمجھتے اور خیال کرتے تھے کہ ان کو اللہ کی رحمت سے کوئی حصہ نہ ملا ہے اور نہ ملے گا۔ دیکھ لو آج وہ کس اعلیٰ مقام پر ہیں۔

اسی اثنا میں اعلان ہوا کہ ہمارے انبیا اور شہدا کا نامۂ اعمال انھیں دیا جائے۔ میری توقع کے برخلاف اس موقع پر کوئی حساب کتاب یا پیشی نہیں ہوئی۔ صرف یہ ہوا کہ ہر شخص کو آگے سامنے کی طرف بلایا جاتا جہاں ہر جنتی اور جہنمی اسے دیکھ سکتا تھا۔ وہ شخص اپنے ساتھ موجود فرشتوں کے ہمراہ چلتا ہوا آگے آتا۔ فرشتے انتہائی اکرام کے ساتھ اسے عرش کے سامنے لے جاتے۔ جہاں زندگی میں اس کے کارناموں اور آخرت میں ان کی کامیابی کا اعلان کیا جاتا۔

جس وقت کوئی شخص پیش ہوتا، اس کے زمانے کے سارے حالات، اس کے مخاطبین کی تفصیلات، لوگوں کا ردعمل اور اس کی جدوجہد ہر چیز کو تفصیل سے بیان کیا جاتا۔ سامعین یہ سب سنتے اور اسے داد دیتے۔ آخر میں جب اس کی کامیابی اور سرفرازی کا اعلان ہوتا تو مرحبا اور ماشاء اللہ کے نعروں سے فضا گونج اٹھتی۔ اہل جنت تالیاں بجاتے، بعض اٹھ کر رقص کرنے لگتے اور بعض سیٹیاں اور چیخیں مار کر اپنی خوشی کا اظہار کرتے۔

جب میرا نام پکارا گیا تو ساتھ کھڑے ہوئے سارے لوگوں نے مبارکباد دی۔ میں صالح اور امثائیل کے ہمراہ کنارے پر پہنچا جہاں سے میدان میں کھڑے سارے لوگ مجھے دیکھ سکتے تھے۔ امثائیل نے میرا نامۂ اعمال اٹھا رکھا تھا۔ جبکہ صالح میرے آگے آگے چل رہا تھا۔ وہاں پہنچ کر میں سر جھکاکر کھڑا ہوگیا۔ آواز آئی:

’’عبدا للہ سر جھکانے کا وقت گزر گیا۔ اب سر اٹھاؤ۔ لوگ تمھیں دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘

میں نے سر اٹھایا اس طرح کہ میری آنکھوں میں شکر گزاری کے آنسو اور میرے ہونٹوں پر کامیابی کی مسکراہٹ تھی۔ صالح اور امثائیل نے بارگاہ الٰہی سے اذن پاکر میری داستان حیات کی تفصیلات بیان کرنا شروع کیں۔ میں نے میدان کی طرف نظر دوڑائی تو دیکھا کہ میرے خاندان والے، دوست احباب، میرا ساتھ دینے والے بندگان خدا، میری دعوت پر لبیک کہنے والے اہل ایمان، توحید و آخرت کی منادی کو سن کر توبہ کرنے والے مسلمان مرد و عورت سب مجھے دیکھ کر ہاتھ ہلارہے تھے۔ میں بھی جواب میں ہاتھ ہلانے لگا، مگر میری نظر ناعمہ کو تلاش کررہی تھی۔ وہ اپنے بچوں کے درمیان کھڑی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ بھی ہنس رہی تھی۔ اسے جب محسوس ہوا کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں تو اس نے شرماکر نظر جھکادی۔ لیلیٰ اس کے برابر میں کھڑی تھی۔ وہ سب سے زیادہ جوش میں تھی اور اپنی کرسی پر چڑھی تالیاں بجارہی تھی۔ جبکہ عارفہ، عالیہ، انور اور جمشید بھی اپنی نشستوں پر کھڑے پرجوش انداز میں ہاتھ ہلارہے تھے۔‘‘

میں نے جائزہ لینے کے لیے نظریں میدان کے بائیں طرف پھیریں۔ یہاں ایک دوسرا ہی منظر تھا۔ شرمندگی، رسوائی، پچھتاوے، اندیشے، ذلت، محرومی، مایوسی، پریشانی، اذیت، مصیبت، ملامت، ندامت اور حسرت کی ایک ختم نہ ہونے والی سیاہ رات تھی جو اہل جہنم کے حال پر چھائی ہوئی تھی۔ اگر آسمان میں گویائی کی طاقت ہوتی تو وہ آخرت میں ناکام ہوجانے والوں کی بدبختی پر مرثیہ کہتا۔ اگر زمین میں بیان کی قوت ہوتی تو وہ اہل جہنم کے حال پر نوحہ پڑھتی۔ اگر الفاظ کی زبان ہوتی تو وہ پکار اٹھتے کہ وہ الٹے ہاتھ والوں کی بدبختی کے اظہار سے خود کو عاجز پاتے ہیں۔ میرا دل چاہا کہ میں کسی طرح وقت کا پہیہ الٹا گھماکر پرانی دنیا میں لوٹ جاؤں اور یہ منظر دنیا والوں کو دکھا سکوں۔ میں چیخ چیخ کر انہیں بتاؤں کہ محنت کرنے والو! ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے والو! مال و اسباب کی ریس لگانے والو! مقابلہ کرنا ہے تو اس دن کی سرفرازی کے لیے کرو۔ ریس لگانی ہے تو جنت کے حصول کے لیے لگاؤ۔ منصوبے بنانے ہیں تو جہنم سے بچنے کے منصوبے بناؤ۔ پلاٹ، دکان، مکان، بنگلے، اسٹیٹس، کیرئیر، گاڑی، زیور اور لباس فاخرہ میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے والو! دنیا کے ملنے پر ہنسنے اور اس کی محرومی پر رونے والو! ہنسنا ہے تو جنت کی امید پر ہنسو اور رونا ہے تو جہنم کے اندیشے پر رویا کرو۔ مرنا ہے تو اس دن کے لیے مرو اور جینا ہے تو اس دن کے لیے جیو۔ ۔ ۔ جب زندگی شروع ہوگی۔ کبھی نہ ختم ہونے کے لیے۔

میری آنکھوں سے بہنے والی آنسوؤں کی لڑی اور تیز ہوگئی۔ اس دفعہ یہ آنسو خوشی کے نہیں تھے۔ اس احساس کے تھے کہ شاید میں تھوڑی سی محنت اور کرتا تو مزید لوگوں تک میری بات پہنچ جاتی اور کتنے ہی لوگ جہنم میں جانے سے بچ جاتے۔ میرے دل میں تڑپ کر احساس پیدا ہوا۔ کاش ایک موقع اور مل جائے۔ کاش کسی طرح گزرا ہوا وقت پھر لوٹ آئے۔ تاکہ میں ایک ایک شخص کو جھنجھوڑ کر اس دن کے بارے میں خبردار کرسکوں۔ میرے دل کی گہرائیوں سے تڑپ کر ایک آہ نکلی۔ میں نے بڑی بے بسی سے نظر اٹھاکر عرش کی طرف دیکھا۔ وہاں ہمیشہ کی طرح رخ انور پر جلال کا پردہ تھا۔ حسن بے پروا کی اداے بے نیازی تھی اور جمال و کمال کی ردا، شانِذوالجلال کے شانہ اقدس پر پڑی تھی۔ مجھ بندۂ عاجز کی نظر ذات قدیم الاحسان کی قبائے صفات میں پوشیدہ ان قدموں پر آکر ٹھہرگئی، جہاں سے میں کبھی نامراد نہیں لوٹا تھا۔ اس حقیر فقیر بندۂ پرتقصیر کی ساری پہنچ انھی قدموں تک تھی۔ کُل جہاں سے بے نیاز شہنشاہ ذوالجلال کے لیے اس بات کی کوئی اہمیت تھی تب بھی، اور اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی تب بھی، یہی میرا کل اثاثہ تھا۔ یہی میری کُل پہنچ تھی۔

دل کو کچھ قرار ہوا تو میری نظر دوبارہ اہل جہنم کی طرف پھرگئی۔ ان میں سے بہت سے لوگ ایسے تھے جنھیں میں جانتا تھا۔ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ یہ آپس میں گھس پل کرتنگی میں دوزانو غلامانہ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ لوگ نظر نہیں ملارہے تھے بلکہ بہت سوں نے تو پیٹھ پھیرلی تھی۔ اس لیے میں اپنے جاننے والے زیادہ لوگوں کو وہاں نہیں دیکھ سکا۔ لیکن ان کو دیکھ کر اس نعمت کا احساس ہوا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل و کرم سے اس برے انجام سے بچالیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ جنت کی ان گنت نعمتوں میں سے دو سب سے بڑی نعمتیں شاید یہ ہیں کہ انسان کو جہنم سے بچالیا جائے گا اور دوسرا اسے بڑی عزت کے ساتھ جنت میں لے جایا جائے گا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ ایک ایک کرکے اعراف پر کھڑے سارے لوگ نمٹ گئے۔ اب فیصلہ سنانے کے لیے کچھ بھی نہیں رہا تھا۔ مگر شاید ابھی بھی کچھ باقی تھا۔ سب اپنی جگہ کھڑے تھے کہ میدان حشر میں ایک جانور کو لایا گیا۔ یہ جانور بہت موٹا تازہ تھا جس کے گلے میں رسی پڑی ہوئی تھی اور فرشتے اسے کھینچتے ہوئے عرش کے سامنے لے جارہے تھے۔ صالح نے میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا :

’’یہ موت ہے جس کے خاتمے کے لیے اسے لایا گیا ہے۔‘‘

عرش سے اعلان ہوا کہ آج موت کو موت دی جارہی ہے۔ اب کسی جنتی کو موت آئے گی نہ کسی جہنمی کو۔

اس کے ساتھ ہی فرشتوں نے اس جانور کو لٹایا اور اسے ذبح کردیا۔ موت کے ذبح ہوجانے پر اہل جنت نے زور دار تالیاں بجاکر اس کا خیر مقدم کیا۔ جبکہ اہل جہنم میں صف ماتم بچھ گئی۔ ان کے دل میں امید کی کوئی شمع اگر روشن تھی تو وہ بھی موت کی موت کے ساتھ اپنی موت آپ مرگئی۔

عرش سے صدا آئی کہ اہل جہنم کو گروہ در گروہ ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔ فرشتے تیزی کے ساتھ حرکت میں آگئے۔ حشر کے بائیں کنارے پر ایک زبردست ہلچل مچ گئی۔ چیخ و پکار اور آہ و فغاں کے درمیان فرشتے پکڑ پکڑ کر مجرموں اور نافرمانوں کا ایک جتھہ بناتے اور انھیں جہنم کی سمت ہانک دیتے۔ ہر گروہ جہنم کے دروازے پر پہنچتا جہاں جہنم کے داروغہ مالک ان کا استقبال کرتے اور ان کے اعمال کے مطابق جہنم کے سات دروازوں میں سے کسی ایک دروازے کو کھول کر انھیں اس میں داخل کردیتے۔

اس دوران میں وقفے وقفے سے عرش کی سمت سے جہنم کو مخاطب کرکے پوچھا جاتا:

’’کیا تو بھرگئی؟‘‘

وہ غضبناک آواز میں عرض کرتی:

’’پروردگار! کیا اور لوگ بھی ہیں؟ انھیں بھی بھیج دیجیے۔‘‘

یہ سن کر حشر میں ایک آہ و بکا بلند ہوتی۔ رہ جانے والے مجرموں پر فرشتے دوبارہ جھپٹ پڑتے اور انہیں ان کی آخری منزل تک پہنچادیتے۔ یوں تھوڑی ہی دیر میں سارے مجرم اپنے انجام تک جاپہنچے۔

اس کے بعد عرش سے صدا بلند ہوئی:

’’اہل جنت کو ان کی منزل تک پہنچادیا جائے۔‘‘

جب یہ حکم صادر ہوا تو میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ابھی تک الٹی سمت میں موجود تھے۔ میں نے صالح سے پوچھا:

’’یہ کون لوگ ہیں۔ ان کو جہنم میں کیوں نہیں پھینکا جارہا؟‘‘

اس نے جواب دیا:

’’یہ منافقین ہیں۔ یہ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے۔ یہ دنیا میں اللہ کو دھوکا دیتے تھے۔ آج ان کو نہ صرف بدترین عذاب ملے گا بلکہ ان کی دھوکہ دہی کی پاداش میں ان کا انجام ایک دھوکے سے شروع ہوگا۔‘‘

’’دھوکا۔ کیا مطلب؟‘‘

اس نے کہا:

’’یہ لوگ بظاہر یہ سمجھے ہیں کہ ان کو جہنم میں نہیں پھینکا گیا اور اہل جنت کے جنت میں داخلے کا حکم ہوگیا ہے تو شاید انھیں بھی ظاہری ایمان کی بنا پر چھوڑا جارہا ہے۔ مگر یہ ان کی غلط فہمی ہے جو جلد ہی دور ہوجائے گی۔‘‘

اسی لمحے میرے کانوں میں الحمد للہ رب العالمین کے نغمے کی انتہائی دلکش صدا آنا شروع ہوگئی۔ یہ حاملین عرش اور دوسرے فرشتے تھے جنھوں نے اپنی خوبصورت آواز میں نغمہ شکر گانا شروع کیا تھا۔ صالح نے مجھے بتایا:

’’یہ حشر کے دن کے خاتمے کا اعلان ہے۔‘‘

اس کے ساتھ ہی میدان حشر میں تاریکی پھیلنا شروع ہوگئی۔ سوائے عرش کے اور کہیں روشنی باقی نہیں رہی۔ میں کچھ بھی دیکھنے کے قابل نہیں رہ گیا تھا۔ میں نے گھبرا کر صالح سے پوچھا:

’’یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘

’’اندھیرا۔ ۔ ۔ ‘‘، اس نے مختصر جواب دیا۔

’’بھائی یہ تو مجھے بھی معلوم ہے۔ مگر ایسا کیوں ہورہا ہے؟‘‘

’’یہ اس لیے ہورہا ہے کہ اس اندھیرے کو عبور کرکے جنت تک صرف وہی لوگ پہنچیں گے جن کے پاس اپنے ایمان اور اعمال کی روشنی ہوگی۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے میرے ہاتھ میں میرا نامۂ اعمال تھمادیا۔ اس میں ایک عجیب سی روشنی تھی جس کی بنا پر میری آنکھیں دوبارہ روشن ہوگئیں اور میں اندھیرے میں واضح طور پر دیکھنے کے قابل ہوگیا۔

’’ہر شخص کو اس کا نامۂ اعمال دے دیا گیا ہے اور یہی نامۂ اعمال اب میدان حشر کی سیاہ رات میں روشنی بن چکا ہے۔ اب سوائے منافقین کے ہر شخص کے پاس روشنی ہے۔‘‘، صالح نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا۔

’’اب کیا ہوگا؟‘‘، میں نے دریافت کیا۔

’’اب یہاں سے ہم لوگ نیچے جائیں گے۔ تمام امتیں اپنے انبیا کی قیادت میں جنت کی طرف روانہ ہوں گی۔‘‘

’’جنت کا راستہ کس طرف ہے؟‘‘، میں نے سوال کیا۔

’’عرش کے بالکل قریب ہے۔ عرش کے پیچھے داہنے ہاتھ کی سمت جہاں آسمان پر جنت کا نظارہ نظر آرہا تھا وہیں سے جنت کا راستہ ہے۔ مگر یہ راستہ جہنم کی کھائی کے اوپر سے گزرتا ہے جہاں ہر سمت اندھیرا ہے۔ جس کے پاس جتنی زیادہ روشنی ہے وہ اتنی ہی آسانی اور تیزی سے جہنم کے اوپر سے گزر جائے گا۔‘‘

’’اس کا مطلب ہے کہ ایک امتحان ابھی مزید باقی ہے۔‘‘

’’نہیں یہ امتحان نہیں۔ دنیا کی زندگی کی تمثیل ہے۔ جو جتنا زیادہ خدا کا وفادار اور اطاعت گزار رہا اور زندگی کے پل صراط پر استقامت اور یکسوئی کے ساتھ خدا کی سمت بڑھتا رہا وہ اتنی ہی آسانی اور تیزی سے جنت کی سمت بڑھے گا۔ لیکن ہلکے یا تیز سارے داہنے ہاتھ والے یہاں سے گزر جائیں گے۔ سوائے منافقین کے جو ایمان و عمل کی روشنی کے بغیر اس کھائی کو پار کرنے کی کوشش کریں گے اور جہنم کے سب سے نچلے گڑھے میں جاگریں گے جہاں انہیں بدترین عذاب دیا جائے گا۔‘‘

’’میرے گھر والے کیا میرے ساتھ ہوں گے؟‘‘، میں نے سوال کیا۔

’’آج یہ آخری سفر سب کو تنہا طے کرنا ہے۔‘‘، صالح نے دوٹوک جواب دیا۔

’’پھر وہ گروہ در گروہ جنت میں جانے والی بات کا کیا ہوا؟‘‘، میں نے سوال اٹھایا۔

’’گروہ در گروہ کا مطلب یہ ہے کہ ہر امت اپنے نبی کی سربراہی میں جنت کے دروازے تک پہنچے گی۔ مگر جنت میں داخلہ فرداً فرداً اپنے ذاتی اعمال کی بنیاد پر ہوگا۔‘‘، پھر اس نے قدرے توقف کے بعد پوچھا:

’’کیا تم ابھی بھی کوئی تماشہ دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہو؟‘‘

میرے ہاں کہنے سے قبل ہی وہ مجھے لے کر تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ یہاں تک کہ ہم ایک ایسی جگہ آگئے جہاں لوگوں کے پاس بے حد تیز روشنی تھی۔ ان کی روشنی ان کے آگے آگے اور دائیں سمت میں ان کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ وہ بلند آواز سے کہہ رہے تھے اے ہمارے رب! ہمارے نور کو پورا رکھیو اور ہمیں معاف کردے۔ تو ہر چیز پر قادر ہے۔ میں صالح سے کچھ پوچھے بغیر ان لوگوں کو پہچان گیا۔ یہ صحابہ کرام تھے۔ ان سب سے آگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جن کی ذات سراپا نور بنی ہوئی تھی۔ میں ان لوگوں کی پیروی میں انھی کے الفاظ دہرانے لگا۔ یہ وہ قرآنی دعا تھی جو میں زندگی بھر پڑھتا رہا تھا۔ لیکن اس دعا کو پڑھنے کا اصل وقت اب آیا تھا۔ ہم اسی طرح چل رہے تھے کہ صالح نے کہا :

’’اب تماشہ دیکھو۔‘‘

اس کے ساتھ میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ دوڑتے، گرتے پڑتے صحابہ کرام کے پاس آئے۔ مگر ان کے پاس کوئی روشنی نہیں تھی۔ انہوں نے آتے ہی دہائی دینا شروع کردی کہ ہمیں بھی اپنی روشنی میں سے تھوڑا سا حصہ دے دو۔ صحابہ میں سے بعض نے اپنے پیچھے میدان حشر کے سیدھے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ ہم تو یہ روشنی پیچھے سے لے کر آئے ہیں تم بھی پیچھے لوٹو اور وہاں سے روشنی لے لو۔ یہ سن کر سارے منافقین جلدی سے اس سمت بھاگے۔ مگر جیسے ہی انہوں نے داہنے طرف جانے کی کوشش کی انہیں معلوم ہوا کہ یہاں تو ایک دیوار موجود ہے۔ اس دیوار میں بعض مقامات پر دروازے بنے ہوئے تھے جن پر فرشتے تعینات تھے۔ ان لوگوں نے ان دروازوں سے اندر جانے کی کوشش کی لیکن فرشتوں نے انہیں مار مار کر وہاں سے بھگادیا۔ ان کے پاس روشنی حاصل کرنے کی کوئی شکل نہیں رہی۔ چنانچہ وہ دوبارہ لوٹ کر صحابہ کرام کے پاس واپس آگئے اور ان سے کہنے لگے کہ دیکھیے ہم بھی مسلمان ہیں اور دنیا میں آپ کے ساتھ ہی تھے۔ آپ کو تو معلوم ہے۔ ہماری روشنی کے لیے آپ کچھ کیجیے۔ جواب ملا: بے شک تم ہمارے ساتھ تھے لیکن تم نے خود اپنے آپ کو فتنے میں ڈالا، تم اس دن کے بارے میں شک میں رہے اور تمھارا اصل مقصود دنیا کی زندگی ہی تھی۔ تم نے شیطان کی پیروی کی اور اس نے تمھیں دھوکے میں ڈالے رکھا۔ سو نہ آج تم کچھ دے دلا کر چھوٹ سکتے ہو نہ کوئی کافر۔

یہ سن کر منافقین کو یقین ہوگیا کہ ان کا انجام بھی کفار سے مختلف نہ ہوگا۔ پیچھے جانے میں انہیں نقصان محسوس ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اندھیرے ہی میں راستہ پار کرنے کی کوشش کی۔ مگر روشنی کے بغیر اس کوشش کا نتیجہ جہنم کی کھائی تھی۔ چنانچہ ایک ایک کرکے سارے منافقین چیختے چلاتے ہوئے جہنم میں جاگرے جہاں نیچے عذاب کے فرشتے ان کا انتظار کررہے تھے۔ ہم یہ سارا منظر دیکھتے ہوئے اور بلند آواز سے یہ دعا پڑھتے ہوئے عرش کی سمت بڑھتے رہے:

’’اے ہمارے رب ہمارے نور کو بجھنے نہ دے اور منافقین کے انجام سے ہمیں بچاتے ہوئے ہماری بخشش فرما۔ بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔