استاد فرحان احمد اور جمشید کی یاد نے میرے اندر ایک گہری خاموشی پیدا کردی تھی۔ صالح کو اس کا اچھی طرح اندازہ تھا۔ اس نے میری توجہ ایک دوسری طرف بٹانے کے لیے کہا:

’’تم بھول گئے ہو کہ ہم اصل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے نکلے تھے۔ تم بیچ میں بیٹھ گئے۔ اب وہ خود تمھیں یاد کررہے ہیں۔‘‘

’’کیا ابو ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملے۔‘‘، انور نے حیرت سے کہا۔

صالح وضاحت کرتے ہوئے کہنے لگا:

’’ہر شخص جو میدان حشر میں کامیاب ہوکر آتا ہے وہ پہلے سیدھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاتا ہے۔ وہاں حضور اپنے ہاتھوں سے اسے جام کوثر عطا کرتے ہیں۔ اس کے گھر والوں کو بھی اس موقع پر وہیں بلوالیا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ لوگ شور مچاتے اور مزہ کرتے ہوئے بقول تمھارے والد کے، اس ’جھیل ‘کے کنارے کسی جگہ آبیٹھے ہیں۔ مگر تمھارے والد کو میدان حشر گھومنے کا شوق تھا اس لیے حضور سے ملاقات سے قبل ہی انھیں ان کی درخواست پر دوبارہ میدان حشر میں بھیج دیا گیا۔ لیکن اب حضور نے انھیں خود ہی طلب کرلیا ہے۔‘‘

’’خیریت! اس طلبی کی کوئی خاص وجہ؟‘‘، ناعمہ نے پوچھا تو صالح نے جواباً کہا:

’’بات یہ ہے کہ امتوں کا حساب ہوتے ہوتے اب حضرت نوح کی قوم کا حساب کتاب شروع ہوا ہے۔ مگر ان کی قوم نے اس بات ہی سے انکار کردیا ہے کہ نوح نے ان تک خدا کا کوئی پیغام پہنچایا تھا۔‘‘

’’یہ کیا بات ہوئی؟ وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ان تک خدا کا پیغام نہیں پہنچا؟ ان کو تو دنیا ہی میں اس جرم میں غرق کردیا گیا تھا کہ انھوں نے حضرت نوح کے پیغام کو جھٹلایا تھا۔ اللہ کے اس فیصلے کے بعد وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوکر یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حضرت نوح نے ان تک خدا کا پیغام نہیں پہنچایا؟‘‘، عارفہ نے حیرانی سے سوال کیا۔

لیلیٰ نے اس کی بات پر مزید اضافہ کیا:

’’اور اگر وہ جھوٹ بولنے کے لیے ڈھٹائی پر اتر ہی آئے ہیں تو قرآن مجید میں بیان ہوا تھا کہ ایسے لوگوں کے منہ بند کرکے ان کے ہاتھ پاؤں سے گواہی لی جائے گے۔ تو اب وہ یہ بات کیسے کہہ رہے ہیں؟‘‘

صالح نے انہیں سمجھاتے ہوئے وضاحت کی:

’’یہ بات کہنے والے لوگ حضرت نوح کی وہ قوم نہیں جن پر عذاب آیا تھا۔ یہ ان کی اولاد کے وہ لوگ ہیں جو ان پر ایمان لے آئے تھے اور پھر ان ماننے والوں کی اولادوں نے دنیا کو آباد کیا تھا۔ مگر ان کی ایک بڑی تعداد وہ تھی جن میں حضرت نوح کے بعد براہ راست کوئی پیغمبر نہیں آیا۔ یہ لوگ توحید و آخرت کی اسی رہنمائی پر گزارہ کرتے رہے جو دراصل حضرت نوح کی تھی۔ ۔ ۔ چاہے ایک طویل وقت گزرنے کی بنا پر وہ اس کو اس حیثیت میں نہ جانتے ہوں اور چاہے انھوں نے اس کی شکل کتنی ہی بگاڑ دی ہو۔ ۔ ۔ اسی لیے وہ حضرت نوح کی رہنمائی کے منکر ہوگئے ہیں۔‘‘

میں نے گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے صالح کی بات کو مزید واضح کیا:

’’دیکھو بات یہ ہے کہ انسانیت کا بیشتر حصہ حضرت نوح ہی کی اولاد میں سے ہے۔ ان میں سے بہت سے گروہ، خاص کر سامی نسل کے لوگ جو دنیا کے مرکز یعنی مڈل ایسٹ اور اس کے اطراف میں آباد رہے، وہ ہیں جن میں نبوت و رسالت کا مستقل سلسلہ قائم رہا۔ مگر بہت سے گروہوں میں حضرت نوح کے بعد کوئی پیغمبر نہیں آیا۔ خاص کر حضرت ابراہیم کے بعد تو صورتحال یہ ہوگئی تھی کہ ان کی نسل سے باہر کوئی پیغمبر آیا ہی نہیں۔ چنانچہ یہی وہ باقی لوگ ہیں جو اولاد نوح یا قوم نوح میں سے ہیں۔ انھیں امتوں کے حساب کتاب کے موقع پر حضرت نوح کی امت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ مگر یہ لوگ براہ راست حضرت نوح کی تعلیمات کو ان کے نام سے اس طرح نہیں جانتے جس طرح اہل کتاب یا مسلمان جانتے تھے۔ چنانچہ ان لوگوں نے حضرت نوح کے پیغام پہنچانے کا انکار کردیا اور ان کی یہ بات ایک طرح سے غلط نہیں ہے۔‘‘

صالح نے میری بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا:

’’عبد اللہ نے ٹھیک کہا۔ حقیقت یہ ہے کہ نوح کی اس قوم تک خدا کا پیغام اصل میں امت محمدیہ نے پہنچایا تھا۔ اسی لیے رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے تمام اولین و آخرین شہدا کو بلایا جارہا ہے جنھوں نے پچھلی دنیا میں ان لوگوں پر حق کی گواہی دی تھی۔ آج یہ شہدا بتائیں گے کہ انہوں نے کسی نہ کسی طرح ان لوگوں تک توحید کا وہ پیغام پہنچادیا تھا جو حضرت نوح کی وراثت تھا اور جو بعد کے ادوار میں ضائع ہوگیا تھا۔ مگر آخری رسول کی بعثت کے بعد تاقیامت اس پیغام کو محفوظ کردیا گیا اور امت مسلمہ نے توحید کی یہ امانت اولاد نوح تک پہنچادی تھی۔‘‘

ناعمہ نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا:

’’تو پھر انھیں امت محمدیہ کے ساتھ کیوں نہیں پیش کیا گیا؟‘‘

’’وہ اسلام قبول کرلیتے تو ایسا ہی ہوتا، مگر انھوں نے اسلام قبول نہیں کیا اور اپنے تحریف شدہ آبائی مذہب پر قائم رہے۔ آج ہر امت چونکہ اپنے رسول کے ساتھ پیش کی جارہی ہے تو ایسے سارے لوگ قوم نوح کے طور پر پیش کیے گئے ہیں کیوں کہ ان کے آبا و اجداد حضرت نوح پر ایمان لائے تھے۔‘‘، میں نے جواب دیا اور پھر خلاصۂ بحث کے طور پر کہا:

’’اپنی قوم کے ابتدائی حصے کو پیغام الٰہی خود حضرت نوح نے پہنچایا اور آخری حصے کو مسلمانوں نے پہنچایا جو نوح سمیت تمام رسولوں کے پیغام توحید و آخرت کے امین تھے۔‘‘

’’چلو بھئی اب بلایا جارہا ہے۔‘‘، صالح مجھ سے مخاطب ہوکر بولا۔

اس کے ساتھ ہی ہم دونوں اٹھ کر وہاں سے روانہ ہوگئے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہم ایک دفعہ پھر رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں موجود تھے۔ وہی نور، وہی جمال، وہی جلال۔ مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ میں صدیوں سے حضور کو جانتا ہوں۔ مجھے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے آپ کی محبت میرے دل میں بڑھتی جارہی ہے۔ میں اس وقت بھی حضور کی مجلس میں پچھلی نشست پر بیٹھا ٹکٹکی باندھے حضور کے چہرۂ پرنور کو دیکھے جارہا تھا۔ حضور اس وقت تک اپنے قریب بیٹھے اصحاب سے کچھ گفتگو کررہے تھے، اسی اثنا میں ان کے قریب آکر ایک صاحب نے ان کے کان میں کچھ کہا۔

صالح نے جو میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا سرگوشی کے انداز میں مجھ سے کہا:

’’یہ خادم رسول حضرت انس ہیں اور حضور کو تمھارے بارے میں بتارہے ہیں۔‘‘

اس کے ساتھ ہی حضور نے نظر اٹھاکر مجھے دیکھا اور ایک دلنواز مسکراہٹ کے ساتھ میرا استقبال کیا۔ اس سے صالح کی بات کی تصدیق ہوگئی کہ حضرت انس نے میری ہی آمد سے حضور کو مطلع کیا تھا۔

پھر مسکراتے ہوئے حاضرین سے فرمایا:

اللہ کے پیغمبر اور انسانیت کے جد امجد نوح کی امت نے ان کی شہادت کو یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا ہے کہ نوح نے ان تک براہ راست کوئی پیغام نہیں پہنچایا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ پیغام میری امت نے قوم نوح تک پہنچایا تھا۔ آپ حضرات چونکہ تمام انبیا کے ماننے والے ہیں اور میری وساطت سے جو دین آپ کو ملا وہی نوح کو بھی ملا تھا۔ اس لیے آپ کی یہ ذمے داری ہے کہ حضرت نوح کی طرف سے آپ لوگ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوں اور یہ گواہی دیں کہ ایمان و عمل صالح کی جو دعوت نوح نے دی تھی اور جو میں نے آپ لوگوں تک پہنچائی تھی، وہ آپ نے بلا کم و کاست قوم نوح تک پیش کرکے میرے اور نوح کے مشن کی تکمیل کردی تھی۔

یہ کہتے ہوئے حضور نے اپنے برابر بیٹھے ہوئے حضرت ابوبکر سے کہا:

ابو بکر کھڑے ہوجاؤ۔

یہ سنتے ہی ابوبکر کھڑے ہوگئے۔ پھر آپ نے حاضرین سے مخاطب ہوکر کہا:

یہ میرے رفیق ابوبکر ہیں۔ ان کے علاوہ میرے زمانے سے لے کر قیامت تک کے تمام زمانوں کے میرے نمائندہ امتی یہاں موجود ہیں۔ آپ لوگ ابوبکر کی قیادت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوں اور اس حق کی گواہی دیں جو آپ کے پاس ہے۔

یہ کہتے ہوئے حضور کھڑے ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی سارے حاضرین بھی کھڑے ہوگئے۔ ابوبکر نے رسول اللہ کے ہاتھوں کا بوسہ لیا اور آگے بڑھ گئے۔ ان کے بعد تمام حاضرین نے ایک ایک کرکے نبی کریم کے ہاتھوں کا بوسہ لیا۔ میرا نمبر سب سے آخر میں تھا۔ میں نے بھی یہ شرف حاصل کیا اور اس کے بعد ہم سب سیدنا ابوبکر کی قیادت میں میدان حشر کی طرف روانہ ہوگئے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں ان بزرگ ہستیوں کے درمیان سب سے پیچھے چل رہا تھا۔ صالح میرے ساتھ نہیں تھا۔ حضور کی مجلس سے اٹھتے وقت وہ مجھ سے یہ کہہ کر الگ ہوگیا تھا کہ یہ کار شہادت دینے تمھیں تنہا جانا ہوگا۔ البتہ وہاں سے واپسی پر میں تمھیں مل جاؤں گا۔

میںراستے میں دل ہی دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ میں اس قابل نہیں کہ ایسی بابرکت اور بزرگ ہستیوں کے بیچ امت محمدیہ کی نمائندگی کروں۔ مجھ پر یہ احساس اتنا غالب ہونے لگا کہ میں نے سوچا کہ میں خاموشی سے اس مجمع سے نکل جاتا ہوں۔ کسی کو کیا پتہ چلے گا۔ اللہ تعالیٰ میرے زمانے کے کسی اور شخص کو بلوالیں گے۔ اس خیال سے میں آہستہ آہستہ پیچھے ہونے لگا۔ یہاں تک کہ میرے اور ان لوگوں کے بیچ میں کافی فاصلہ ہوگیا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور واپس حوض کوثر کی سمت جانے کے لیے مڑا ہی تھا کہ پیچھے سے یکایک آواز آئی:

’’عبد اللہ !یہ کیا کررہے ہو؟‘‘

میں گھبرا کر پلٹا تو پیچھے سیدنا ابوبکر کھڑے تھے۔ میں کچھ شرمندہ سا ہوگیا۔ میری حالت ایسی ہوگئی جیسے میں چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا ہوں۔ میں نے پہلے سوچا کہ کوئی بہانہ بنادوں، مگر خیال آیا کہ یہ دنیا نہیں محشر ہے اللہ تعالیٰ اسی وقت اصل بات کھول دیں گے۔ لہٰذا میں نے صحیح بات بتانے ہی میں عافیت سمجھی۔ ساتھ میں ان سے یہ درخواست بھی کی کہ میری جگہ کسی اور کو لے جایا جائے۔

ابوبکر میری بات سن کر ہنسنے لگے اور بولے:

’’شہادت کے لیے لوگوں کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ اسی نے ایک فرشتے کے ذریعے مجھے یہ بتادیا تھا کہ عبد اللہ کس وجہ سے واپس جارہا ہے۔‘‘

انھوں نے آہستگی سے میرا ہاتھ تھام لیا اور آگے کی طرف چلنے لگے۔ راستے میں وہ مجھے سمجھانے لگے:

’’دیکھو عبد اللہ! اس مجمع میں ہر شخص کا انتخاب اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ جانتے ہو کہ اس کے نزدیک انتخاب کا معیار کیا ہے؟‘‘

میں خاموشی سے ان کی شکل دیکھنے لگا۔ انھوں نے اپنے سوال کا خود ہی جواب دیا:

’’تعصبات، جذبات اور خواہشات سے بلند ہوکر جس شخص نے حق کو اپنا مسئلہ بنالیا، اور توحید و آخرت کو اپنی زندگی کا مشن بنالیا وہی اللہ کے نزدیک اس شہادت کے کام کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ دیکھو تمھارے زمانے کے مذہبی لوگ خواہشات سے تو شاید بلند ہوگئے تھے، مگر ان کی اکثریت تعصبات اور جذبات سے بلند نہیں ہوسکی۔ لوگ مختلف فرقوں اور مسالک کے اسیر تھے۔ وہ صرف اسی بات کو قبول کرتے تھے جو ان کے حلقے کے لوگ کریں۔ وہ لوگوں کو اپنے ہی فرقے کی طرف بلاتے تھے۔ وہ اپنے اکابرین کی بڑائی کے احساس میں جیا کرتے تھے۔ جبکہ تم صرف خدا کی بڑائی کے احساس میں زندہ رہے۔ تم نے سچائی کو ہر قیمت دے کر قبول کیا اور ہر تعصب سے پاک ہوکر اختیار کیا۔ خدا کی توحید تمھاری زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ تھی اور خدا سے ملاقات پر لوگوں کو تیار کرنا تمھاری زندگی کا سب سے بڑا مقصد۔ پھر تم نے دعوت کا کام صرف اپنی قوم ہی میں نہیں کیا بلکہ غیر مسلم اقوام تک قرآن کا پیغامِ توحید و آخرت پہنچانے کے لیے ایک طویل دعوتی جدوجہد کی۔ یہی ساری باتیں آج تمھارے انتخاب کا سبب بن گئی ہیں۔‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

حضرت نوح عرش الٰہی کے داہنے جانب ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ ہم تمام لوگ حضرت ابوبکر کی زیر قیادت ان کے پیچھے جاکر کھڑے ہوگئے۔ سامنے کی سمت انسانوں کا تاحد نظر پھیلا ہوا ایک سمندر تھا۔ ان میں سے ہر شخص بدحال اور پریشان نظر آتا تھا۔ یہ لوگ سر جھکائے کھڑے تھے۔ ان کے چہرے خوف کے مارے سیاہ پڑرہے تھے۔ فضا میں سرگوشیوں کی خفیف سی آواز کے سوا کوئی اور آواز نہ تھی۔ یہی حضرت نوح کی وہ امت تھی جو دراصل ان کی اولاد میں پیدا ہونے والے لوگ تھے۔

کچھ دیر میں ایک صدا بلند ہوئی:

’’نوح کے گواہ بارگاہ الٰہی میں پیش ہوں۔‘‘

میرا خیال تھا کہ اب ابوبکر آگے بڑھ کر کچھ کہیں گے۔ مگر اس وقت میں نے دیکھا کہ پیچھے سے نبی کریم تشریف لائے اور عرش الٰہی کے سامنے کھڑے ہوگئے۔

فرمایا گیا:

’’کہو اے محمد! کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘

رسول اللہ نے بارگاہ احدیت میں عرض کیا:

’’پروردگار تو نے مجھے نبوت دی اور اپنا کلام مجھ پر نازل کیا۔ اس کلام میں تو نے مجھے بتایا کہ نوح بھی وہی دین توحید لے کر آئے تھے جو تو مجھے عطا کررہا ہے۔ اسی دین حق کی شہادت میں نے اپنی امت پر دی اور اب یہ لوگ تیرے سامنے پیش ہیں تاکہ یہ گواہی دیں کہ اسی دین حق کو انھوں نے اولاد نوح تک بے کم و کاست پہنچادیا تھا۔‘‘

ارشاد ہوا:

’’تم نے سچ کہا۔ اپنے امتیوں کو پیش کرو۔‘‘

اس پر سیدنا ابوبکر نے آگے قدم بڑھانے شروع کیے اور حضرت نوح کے برابر میں جاکر کھڑے ہوگئے۔ ہم سب بھی ان کی پیروی میں ان کے پیچھے جاکر ٹھہرگئے۔

آواز آئی:

’’تم کون ہو؟‘‘

حضرت ابوبکر نے اپنا تعارف کرایا اور پھر ہم میں سے ہر شخص کا نام اور زمانہ بیان کرکے اس کا تعارف کرایا۔ آپ نے عرض کیا کہ ہم امت محمدیہ ہیں۔ ہم پر آپ کے آخری نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے حق کی شہادت دی اور یہ بتایا کہ نوح بھی اسی دین کو لے کر آئے تھے۔ نوح اور محمد کا یہی دین ہم نے دنیا کی تمام اقوام کو پہنچایا۔ ان لوگوں کو بھی ہم نے حق پہنچادیا تھا جو آپ کے سامنے امت نوح کی حیثیت میں موجود ہیں۔

اس گواہی کے بعد امت نوح کے لیے جائے فرار کے راستے بند ہوگئے۔ یہ بات واضح ہوگئی کہ نوح کا دین وہی تھا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلمکا تھا اور امت محمدیہ نے اس دین کو دنیا تک پہنچادیا تھا۔ اب امت نوح کا حساب اسی گواہی کی روشنی میں ہونا تھا۔ ہمارا کام ختم ہوچکا تھا۔ اس لیے ہم لوگ واپسی کے لیے روانہ ہوگئے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ہمارا قافلہ واپسی کے سفر میں رواں دواں تھا۔ اس دفعہ سالار قافلہ نبی آخر الزماں خود تھے۔ ہمارا قافلہ فرشتوں کی معیت میں میدان حشر سے گزرتا ہوا حوض کوثر کی سمت جارہا تھا۔ میں اپنی رسوائی کے اندیشے سے ذرا پیچھے ہی چل رہا تھا۔ یکایک کسی نے میرے کندے پر ہاتھ رکھ کر کہا:

’’بھائی تم کہاں بھاگنے کی کوشش کررہے تھے۔‘‘

میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو صالح زیر لب مسکرارہا تھا۔ میں شرمندہ ہوکر خاموش رہا۔ وہ ہنستے ہوئے بولا:

’’خدا کا شکر کرو کہ تمھارے امیر قافلہ ابوبکر تھے۔ ان کی جگہ عمر ہوتے تو تمھیں کم از کم دو چار درے تو ضرور مارتے۔‘‘

اس کی بات سن کر میں بھی ہنسنے لگا۔ کچھ توقف کے بعد میں نے کہا:

’’اصل بات ابوبکر یا عمر کی نہیں۔ عمر بھی وہی کرتے جو ابوبکر نے کیا۔ کیونکہ انھیں بھیجنے والی ایک ہی ہستی تھی۔ اس رب کریم کی جو ساری زندگی میری پردہ پوشی کرتا رہا ہے۔‘‘

پھر ایک اندیشہ میرے ذہن میں پیدا ہوا، میں نے صالح سے پوچھا:

’’تمھیں میرے بارے میں کیسے پتا چلا۔ کیا سب لوگوں کو یہ بات معلوم ہوگئی؟‘‘

’’نہیں نہیں۔ ۔ ۔ ابوبکر بڑے حلیم الطبع شخص ہیں۔ انھوں نے کسی کو نہیں بتایا۔ رہا میں تو اللہ تعالیٰ نے میرے ہی ذریعے سے ابوبکر کو تمھارے بارے میں پیغام بھجوایا تھا۔ اس لیے مجھے معلوم ہوگیا۔ ویسے تم نے سچ کہا۔ جانتے ہو اللہ تعالیٰ نے کیا کہلاکر مجھے ابوبکر کے پاس بھیجا تھا؟‘‘

میرے جواب کا انتظار کیے بغیر وہ بولا:

’’میرے بندے کو سنبھالو۔ وہ انکساری میں اپنی ذمے داری فراموش کرنے جارہا ہے۔‘‘

شرمندگی اور احسان مندی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ میں نے اپنا سر جھکادیا۔ کچھ دیر بعد میں نے صالح سے دریافت کیا:

’’یہاں حشر کے معاملات کس طرح چل رہے ہیں؟‘‘

’’مختلف انبیا کی اپنی امتوں کے بارے میں شہادت دینے کا عمل جاری ہے۔ ہر نبی اور رسول اپنی امت کے بارے میں یہ شہادت دے رہا ہے کہ اس نے اپنی امت تک رب کا پیغام پہنچادیا تھا۔ جس کے بعد ہر وہ شخص جس کا عمل اس تعلیم کے مطابق ہوتا ہے، اس کی خطائیں درگزر کرکے اس کی کامیابی کا اعلان کردیا جاتا ہے۔‘‘، صالح نے جواب دیا۔

مجھے یاد آگیا۔ صالح نے بتایا تھا کہ حساب کتاب کے اس دور کے بعد عمومی حساب کتاب شروع ہوگا۔ مجھے آس بندھ گئی کہ شاید اس مرحلے پر میرے بیٹے جمشید کی نجات کا کوئی فیصلہ ہوجائے، مگر ظاہر ہے میرے ہاتھ میں کچھ نہیں تھا۔ میں نے صالح سے پوچھا:

’’یہاں کیا حالات ہیں؟‘‘

’’حالات کا نہ پوچھو۔ کسی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اس پر مزید یہ کہ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا ہوگا۔‘‘

ہم دونوں یہ گفتگو کرتے ہوئے قافلے کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے کہ اچانک ایک زوردار شور بلند ہوا۔ اس شور کا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کا ایک جم غفیر نبی کریم کے نام کی دہائی دیتا ان کی طرف بڑھنا چاہ رہا تھا۔ یہ لوگ چیخ رہے تھے، رو رہے تھے اور فریاد کررہے تھے کہ یا رسول اللہ ہماری مدد کیجیے۔ ہم آپ کے امتی ہیں۔ جبکہ فرشتے انھیں کوڑے مار مار کر دور کررہے تھے۔ یہ لوگ حشر کی سختیوں سے اتنے تنگ آچکے تھے کہ مار کھاکر بھی رسول اللہ کی سمت بڑھنے کی کوشش کیے جارہے تھے۔ انھیں رسول اللہ کی صورت میں بمشکل امید کی ایک کرن نظر آئی تھی۔

رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ منظر دیکھا تو فرشتوں کے سردار کو اپنے پاس بلاکر پوچھا کہ یہ لوگ تو میرے امتی، میرے نام لیوا، میرے کلمہ گو ہیں۔ ان کے ساتھ یہ سلوک کیوں ہورہا ہے؟ فرشتے نے بڑے ادب سے جواب دیا:

’’یا رسول اللہ! بے شک یہ لوگ آپ کے نام لیوا ہیں، مگر آپ کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ کے بعد آپ کے دین میں کیا نئی نئی چیزیں پیدا کردی تھیں۔‘‘

اس پر رسول اللہ کے چہرۂ انور پر سخت ناگواری کے تأثرات پیدا ہوئے اور آپ نے فرمایا:

’’ان لوگوں کے لیے دوری ہو جنھوں نے میرے بعد میرے لائے ہوئے دین کو بدل ڈالا۔‘‘

حضور یہ کہہ کر واپس حوض کوثر کی سمت مڑگئے اور قافلے کے لوگ بھی آپ کے پیچھے پیچھے چلے گئے۔ میں بھی آگے بڑھنا چاہ رہا تھا کہ صالح نے کہا:

’’رکو اور دیکھو یہاں کیا ہوتا ہے۔‘‘

میں نے دیکھا کہ فرشتے ان لوگوں پر بری طرح پل پڑے ہیں۔ اسی اثنا میں میدان حشر کے بائیں جانب سے کچھ مزید فرشتے بھی آگئے۔ انھوں نے انتہائی بے رحمی سے ان لوگوں کو مارنا شروع کردیا۔ فرشتے ایک کوڑا مارتے اور ہزاروں لوگ اس کی زد میں آکر چیختے چلاتے دور جاگرتے۔ تھوڑی ہی دیر میں حوض کے قریب کا علاقہ صاف ہوگیا۔ مار کھاتے اور بلبلاتے ہوئے یہ لوگ جنھوں نے دین اسلام میں نت نئے عقیدے اور اعمال ایجاد کرلیے تھے، اپنی رسوائی اور بدبختی کا ماتم کرتے ہوئے وہاں سے رخصت ہوگئے۔

میں صالح کے ساتھ کھڑا یہ عبرتناک مناظر دیکھ رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ وہ بدنصیب ہیں جن کے لیے قرآن مجید کی ہدایت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ناکافی تھی۔ اس لیے انھوں نے اس میں اضافہ اور تبدیلی کرکے دین حق کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی۔ ان کے پاس اپنی ہر گمراہی اور بدعملی کی ایک بے جا منطق موجود ہوتی تھی۔ جب کوئی سمجھانے والا انھیں سمجھانے کی کوشش کرتا یہ اس کی جان کے دشمن ہوجاتے تھے۔ جب انھیں بتایا جاتا کہ قرآن مجید سے باہر کوئی عقیدہ ایجاد نہیں کیا جاسکتا اور سنت رسول کے علاوہ کوئی اور عمل خدا کے ہاں مقبول نہیں ہوسکتا تو یہ ان باتوں کو بکواس سمجھتے اور اپنی گمراہیوں میں مگن رہتے تھے۔ مگر اس کا نتیجہ انھوں نے آج بھگت لیا تھا۔ میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ صالح نے مجھ سے کہا:

’’عبد اللہ! میں انسانوں کو سمجھ نہیں سکا کہ آخر ہر نبی کی امت نے ہدایت واضح طور پر پالینے کے بعد بدعتوں میں اتنی دلچسپی کیوں لی؟‘‘

’’تم نے اچھا سوال کیا ہے۔ میں خود بھی زندگی بھر اس مسئلے پر سوچتا رہا ہوں۔ میرے خیال میں اس کی اصل وجہ غلو ہے۔ انسان بڑی جذباتی مخلوق ہے۔ وہ افراط و تفریط کا شکار ہوجاتا ہے۔ انبیا کے نام لیواؤں کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ کچھ لوگ مادیت کی طرف اپنے رجحان کی بنا پر انبیا کی تعلیمات کو چھوڑ بیٹھے تو کچھ لوگوں نے انبیا اور صالحین کی محبت اور عبادت کے شوق میں اعتدال سے تجاوز کیا۔ یہی تجاوز اور غلو بدعت کا سبب بن گیا۔‘‘

صالح نے میری بات پر گردن ہلاتے ہوئے کہا:

’’اس افراط و تفریط اور غلو و تجاوز کا سب سے بڑا نمونہ مسیحی تھے۔ ایک طرف ان کے ہاں حضرت موسیٰ کی شریعت کو ترک کردیا گیا۔ دوسری طرف رہبانیت ایجاد کرکے ایسی ایسی عبادتیں، ریاضتیں اور بدعتیں دین میں داخل کرلی گئیں کہ کسی نارمل انسان کے لیے مذہبی شناخت کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہوگیا۔ عمل کے ساتھ ان کے ہاں عقیدے کا غلو بھی آخری درجے میں ظاہر ہوا۔ انھوں نے نبیوں کی امت ہوتے ہوئے بھی خدا کی بیوی اور بیٹا گھڑلیا۔ مگر یار حقیقت یہ ہے کہ تم مسلمان اس کام میں کون سا پیچھے رہے ہو۔‘‘

یہ آخری بات اس نے بہت زور دے کر کہی۔ میں نے بلا توقف جواب دیا:

’’اور آج اس کا نتیجہ بھی بھگت لیا۔ عیسائیوں نے بھی اور مسلمانوں نے بھی۔‘‘

یہ کہتے وقت میری نظر میں کچھ دیر قبل رونما ہونے والے مناظر گھوم رہے تھے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔