ہم نے جہنم کی کھائی کو بہت اطمینان اور آرام سے عبور کیا تھا۔ اسے عبور کرکے میں نے پیچھے دیکھا تو دور دور تک روشنیوں کا ایک قافلہ تھا جو بلند آواز سے یہی دعا پڑھتے ہوئے ہمارے پیچھے چلا آرہا تھا۔ جس کی روشنی جتنی زیادہ تیز تھی وہ اتنی ہی آسانی کے ساتھ اس کھائی کو عبور کررہا تھا۔ میں نے آگے دیکھا تو ہم عرش کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے۔ عرش کیا تھا بقعۂ نور تھا۔ یہ روشنی اور نور کا ایک سیلاب تھا جس کی حقیقت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہ تھا۔ یہاں پہنچ کر ہماری اپنی روشنی عرش کی روشنی کے سامنے بے نور ہوگئی۔ عرش کے گرد صف در صف فرشتوں کی قطاریں تھیں جو مؤدبانہ انداز میں ہاتھ باندھے ’الحمد للہ رب العالمین‘کا نغمہ جانفزا بلند کررہے تھے۔ ہم بالکل قریب پہنچے تو میں نے دیکھا کہ فرشتوں نے اپنے بیچ سے جگہ چھوڑ رکھی ہے جس سے گزر کر لوگ قطار در قطار عرش کے نیچے داخل ہورہے ہیں۔ ہم قریب پہنچے تو آواز آئی:

’’میرے بندوں! تمھیں خوش آمدید۔ تم آج ختم نہ ہونے والی بادشاہی میں داخل ہورہے ہو۔ اپنے رب کی سلامتی میں تم ہمیشہ کے لیے داخل ہوجاؤ۔‘‘

ہم فرشتوں سے گزر کر آگے بڑھے تو میں نے صالح کی طرف سوالیہ انداز میں دیکھا۔ اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:

’’جنت کا راستہ عرش کے نیچے سے ہوکر داہنے طرف مڑکر آئے گا۔‘‘

’’مگر ہم عرش کے نیچے کیوں جارہے ہیں۔ براہ راست سیدھی طرف مڑجائیں؟‘‘

صالح ہنس کر بولا:

’’تم ہر بات وقت سے پہلے سمجھنا چاہتے ہو۔ خیر میں بتاتا ہوں۔ عرش کے نیچے جاکر ہر انسان کا آخری تزکیہ ہوجائے گا۔‘‘

’’مگر تزکیہ تو ہم دنیا میں کرتے تھے۔‘‘

’’تزکیہ یعنی پاکی حاصل کرنا دین کے ہر عمل کا مقصود تھا۔ دین کی پوری جدوجہد اس لیے تھی کہ انسان کا نفس پاک ہوجائے۔ مؤمن دنیا میں اپنے جسم کو صاف ستھرا رکھتا تھا۔ وہ اپنی خوراک کو پاکیزہ رکھتا تھا۔ وہ عبادات کے ذریعے اپنی روح اور احکام شریعت پر عمل کرکے اپنی معاشرت، معیشت اور اخلاق کو پاک رکھتا تھا۔ شیطانی ترغیبات، نفسانی خواہشات، حیوانی جذبات، یہ سب نجاستیں تھیں جن سے بچ کر بندۂ مؤمن خود کو پاک رکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ یہ دنیا میں اہل ایمان کی کوشش تھی۔ جس کا بدلہ آج رب کی پاکیزہ جنت میں داخلے کی صورت میں دیا جارہا ہے، لیکن اس پاک جنت میں داخلے سے قبل اللہ تعالیٰ خود اہل ایمان کو پاک کریں گے۔ جس کے بعد ان کی روح، جسم اور اخلاق ہر ناپاکی سے دھل جائے گا۔‘‘

’’کیا مطلب؟‘‘

’’مطلب یہ کہ تمھارا جسم جو دنیا میں خون، نجاست، بدبو اور دیگر ناپسندیدہ چیزوں سے بھرا ہوا تھا اب نور سے بھر جائے گا۔ جس کے بعد تمھارے جسم سے فضلات نکلیں گے، نہ بدبو آئے گی اور نہ بدبودار پسینہ بہے گا۔ تمھاری سانس کے ساتھ خوشبو آئے گی۔ پیشاب پاخانے کی جگہ خوشبودار پسینہ آئے گا۔ تمھارے کان، ناک، آنکھ، منہ اور جسم سے کوئی گندگی نہیں نکلے گی۔

اسی طرح تمھارے دل سے ہر منفی جذبہ جیسے حسد، تکبر، کینہ، پرائی عورت کے لیے شہوت، نفرت، تعصب وغیرہ ختم ہوجائیں گے۔ تمھاری سوچ، نظر، جسم اور روح سب پاکیزہ ہوجائیں گے۔‘‘

میں نے خوش ہوکر کہا:

’’سبحان اللہ! پھر تو جینے کا لطف آجائے گا۔‘‘

’’یہی نہیں بلکہ تمھاری صلاحیتیں اور طاقتیں غیر معمولی طور پر بڑھ جائیں گی۔ تمھیں نیند کی ضرورت ہوگی نہ آرام کی۔ تم تھکو گے نہ نڈھال ہوگے۔ بور ہوگے نہ بیزار ہوگے۔ ڈپریس ہوگے نہ ٹینشن کا شکار ہوگے۔ تم جتنا چاہو گے کھاؤ گے، جتنا چاہو گے پیو گے، تمھیں بدہضمی ہوگی نہ بیت الخلا جانے کی حاجت۔ تمھارے اندر طاقت کا خزانہ بھر جائے گا۔ تم ہمیشہ صحت مند رہوگے، ہمیشہ جوان رہوگے اور سب سے بڑھ کر اتنے حسین اور خوبصورت ہوجاؤ گے کہ کچھ حد نہیں۔ یہ تمھاری چنداندرونی کیفیت کا بیان ہے ،خارج کی نعمتیں اور درجات تو ابھی سامنے آنے ہیں۔‘‘

’’کیا سب کے ساتھ یہی ہوگا؟‘‘

’’ہاں سب کے ساتھ یہی ہوگا البتہ جس کے اعمال جتنے زیادہ اچھے ہوں گے، اس کی طاقت، حسن اور کمال اتنا ہی زیادہ ہوگا۔‘‘

میرے منہ سے بے اختیار نکلا:

’’الحمد للہ رب العالمین۔‘‘

ہم یہ گفتگو کرتے ہوئے عرش کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے۔ صالح نے یہاں پہنچ کر مجھ سے کہا:

’’عبد اللہ! اب میں تم سے جدا ہورہا ہوں۔ تم یہاں داخل ہوگے تو جنت کے دروازے پر نکلو گے۔ میں وہیں داروغۂ جنت کے ساتھ تمھیں مل جاؤں گا۔ تم اطمینان سے آگے بڑھو۔‘‘

یہ کہہ کر وہ رخصت ہوگیا۔

میں ایک لمحے کے لیے کھڑا سوچتا رہا۔ اچانک میرے سامنے ایک دروازہ کھل گیا۔ آواز آئی:

’’اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی طرف لوٹ آ۔ اس طرح کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے۔ پھر داخل ہوجا میرے بندوں میں اور داخل ہوجا میری جنت میں۔‘‘

میں ان الفاظ سے حوصلہ پاکر آگے بڑھا اور دروازے کے اندر داخل ہوگیا۔ میری زبان پر بے اختیار یہ کلمات جاری تھے:

’’اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد‘‘

اندر داخل ہوتے ہی مجھے یہ محسوس ہوا کہ میں ایک راہداری میں آگے بڑھ رہا ہوں۔ یہاں فرش، چھت اور دیواریں سب بالکل سفید دودھیا رنگ کی تھیں۔ اندر داخل ہوتے ہی مجھے ایک بہت خوشگوار احساس ہورہا تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ یہ راستہ غیر محسوس طریقے پر دائیں سمت میں مڑ رہا ہے۔ میں کچھ ہی دور گیا تھا کہ اچانک رنگ و نور کے مرغولوں نے میرا احاطہ کرلیا۔ قوس و قزح کے رنگ میرے اطراف میں جگمگانے لگے۔ میں پورے سکون و اعتماد کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔ یکایک نور کی ایک چادر میرے آرپار ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی میرے وجود کا ریشہ ریشہ لطف و سرور کے احساس میں ڈوب گیا۔ مجھے لگا کہ میں ہواؤں میں اڑرہا ہوں۔ میرا جسم بالکل بے وزن اور ہلکا ہوگیا۔ مجھے لگا کہ میرا جسم تحلیل ہوگیا ہے اور میں صرف روح کی شکل میں باقی ہوں۔ میں بے خود ہوکر آگے بڑھتا رہا۔ کچھ ہی دیر بعد پھر وہی دودھیا راہداری میرے سامنے تھی اور میں اس میں چلا جارہا تھا۔ مگر اب میرے احساسات میں زمین آسمان کا فرق آچکا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں بدل کر کچھ سے کچھ ہوچکا ہوں۔ قوت، طاقت، سکون و اطمینان اور اعتماد کی ایک ناقابل بیان کیفیت تھی جس میں میں چلا جارہا تھا کہ اچانک مجھے ٹھہرنا پڑا۔ میرے سامنے ایک ایسا مقام تھا جہاں سے آٹھ راستے نکل رہے تھے۔ ہر راستے پر یہ درج تھا کہ یہ راستہ جنت کے کس دروازے پر نکلے گا۔ میں یہ پڑھنے کی کوشش کررہا تھا کہ کیا لکھا ہے کہ ایک آواز آئی:

’’شہدا کے دروازے سے اندر چلے جاؤ۔‘‘

میں نے غور کیا تو دائیں طرف پہلا دروازہ انبیا کا تھا اور ا س کے برابر میں دوسرا دروازہ صدیقین اور پھر شہدا کادروازہ تھا۔ میں اسی میں داخل ہوگیا۔ یہ بھی ایک راہداری تھی جو ایک دروازے پر ختم ہورہی تھی۔ میں اس دروازے سے باہر آگیا۔ اس سے پہلے کہ میں باہر نکل کر کسی چیز کا جائزہ لیتا، میں نے اپنے سامنے صالح کو موجود پایا۔ اس کے ساتھ ایک فرشتہ کھڑا ہوا تھا۔ صالح کے بجائے اس نے آگے بڑھ کر میرا استقبال کیا اور کہا:

’’السلام علیکم۔ہمیشہ باقی رہنے والی جنت کی اس بستی میں آپ کو خوش آمدید۔ صالح نے مجھے آپ کا نامۂ اعمال دیا جس میں آپ کا نام عبد اللہ بیان ہوا ہے۔ مگر اس کے ساتھ اعزازات اتنے لکھے ہوئے تھے کہ سمجھ میں نہیں آتا آپ کو کیا کہہ کر مخاطب کروں۔‘‘

صالح نے مداخلت کرتے ہوئے کہا:

’’سر دست سردار عبداللہ سے کام چلائیے۔ کیونکہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کی موت کے بعد یہ کہہ کر ان کے استقبال کے لیے بھیجا تھا کہ میرا بندہ عبد اللہ سردار ہے۔ اسے لے کر میرے پاس آؤ۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔ سردار عبداللہ! ختم نہ ہونے والی بادشاہی میں آنا مبارک ہو۔‘‘، یہ کہتے ہوئے اس نے مجھ سے معانقہ کیا۔

’’ہمارے میزبان کا نام کیا ہے؟‘‘، معانقہ کرتے ہوئے میں نے صالح سے پوچھا۔

’’یہ میزبان نہیں دربان ہیں اور ان کا نام رضوان ہے۔‘‘

رضوان ہنستے ہوئے بولے:

’’یہاں میزبان آپ ہیں سردار عبد اللہ۔ یہ آپ کی بادشاہی ہے۔ ذرا دیکھیے تو آپ کہاں ہیں۔‘‘

اس کے کہنے پر میں نے نظر دوڑائی تو دیکھا کہ میں ایک بالکل نئی دنیا میں داخل ہوچکا ہوں۔ یہاں آسمان و زمین بدل کر کچھ سے کچھ ہوچکے تھے۔ نئے آسمان اور نئی زمین پر مشتمل یہ ایک ایسی دنیا تھی جہاں یقینا سب کچھ تھا۔ مگر اس کے حسن اور کاملیت کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔ میں زندگی بھر ایک قادر الکلام شخص رہا۔ مجھے زبان و بیان پر غیر معمولی عبور حاصل تھا، الفاظ میری دہلیز پر سجدہ کرتے اور اسالیب مجھ پر القا ہوتے۔ خدا نے مشکل سے مشکل حقائق کے بیان کو ہمیشہ میرے لیے بے حد آسان کیے رکھا تھا۔ مگر اس لمحے مجھے اندازہ ہوا کہ دنیا کی ہر زبان ان حقیقتوں کو بیان کرنے سے عاجز ہے جو میرے سامنے موجود تھیں۔ میں بالکل اسی کیفیت میں تھا جو پتھر کے زمانے کے کسی انسان پر صنعتی دور کے کسی جدید شہر میں اچانک آکر طاری ہوسکتی تھی۔ جو شخص اپنے غار کو لکڑیاں جلاکر روشن کرتا رہا ہو وہ اچانک لیزر لائٹ کی قوس و قزح اور ٹیوب لائٹ کی دودھیا روشنی کے جلوے دیکھ لیتا تو کبھی اس کی حقیقت کو بیان کرنے کیے الفاظ نہیں پاسکتا تھا۔ یہی کیفیت اس وقت میری تھی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

صالح میری بے خودی دیکھ کر بولا:

’’سردار عبد اللہ! بے خود ہونے کے لیے ابھی بہت کچھ ہے۔ بہتر ہے کہ آپ اپنی منزل کی طرف چلیے۔‘‘

رضوان نے ایک راستے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

’’چلیے۔ آپ کی رہائش گاہ کا علاقہ اس سمت میں ہے۔‘‘

ہم آگے بڑھے۔ ایک دبیز سرخ رنگ کا قالین اس راستے میں بچھا ہوا تھا۔ ہم اس پر چلنے لگے۔ اس راستے میں دونوں سمت فرشتوں کی قطار تھی جو ہاتھوں میں گلدستے لیے، ریشمی رومال لہراتے،پھولوں اور خوشبو کا چھڑکاؤ کرتے سلام و مرحبا کہتے میرا استقبال کررہے تھے۔ یہ ایک طویل راستہ تھا جو دور تک چلتا چلا جارہا تھا۔ بچپن میں تصوراتی پرستان اور کوہ قاف کی کہانیاں شاید سب سنتے پڑھتے ہیں۔ یہ راستہ ایسے ہی کسی پرستان پر جاکر ختم ہورہا تھا۔ دور سے اس پرستان کی بلند و بالا تعمیرات نظر آرہی تھیں۔ یہ عالیشان عمارات اور شاندار محلات کا ایک منظر تھا جو سبزے سے لدے پہاڑوں، اس کے دامن میں پھیلے پانی کے فرش اور نیلگوں آسمان کی چھت کے ساتھ ایک خیالی دنیا کی تصویر لگ رہا تھا۔

میں نے رضوان سے پوچھا:

’’اس وقت ان گنت لوگ جنت میں داخل ہورہے ہیں، آپ کے پاس کیا اتنا فارغ وقت ہے کہ سب کو چھوڑ کر میرے ساتھ آگئے ہیں؟‘‘

وہ ہنس کر بولے:

’’یہاں وقت رکا ہوا ہے۔ آپ یوں سمجھیں کہ دو جنتی جو ایک کے بعد ایک کرکے اندر داخل ہورہے ہیں، ان کے اندر آنے میں کافی وقفہ ہوتا ہے۔ اور جو جنتی ذرا کم درجے کے ہیں وہ تو مہینوں اور برسوں نہیں صدیوں کے فرق سے اندر آئیں گے۔‘‘

میں نے صالح کی سمت دیکھ کر کہا:

’’ناعمہ؟‘‘

میری بات کا جواب رضوان نے دیا:

’’سردار عبد اللہ! آپ تو بہت پہلے اندر آگئے ہیں۔ آپ کی اہلیہ محترمہ ناعمہ اور دیگر لوگ کچھ عرصے ہی میں یہاں آجائیں گے۔ مگر اس وقت میں آپ کے کرنے کا یہاں بہت کام ہے۔ آپ کو اپنی جنت، اپنی اس دنیا، اس کی بادشاہی ، یہاں کے خدام اوردیگر متعلقہ لوگوں سے واقفیت حاصل کرنی ہے۔‘‘

’’اچھا ! یہاں اور کون ہے؟‘‘

’’دیکھیے یہ آپ کے خدام میں سے چند نمایاں لوگ کھڑے ہیں۔‘‘

رضوان کے توجہ دلانے پر میں نے دیکھا کہ فرشتوں کے بعد قطار میں دونوں سمت ایسے لڑکے کھڑے تھے جو اپنی ٹین ایج کی ابتدا میں تھے۔ مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ غلمان ہیں اور یہی وہ لڑکے ہیں جن کے لیے قرآن نے موتیوں کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ یہ واقعتا ایسے ہی تھے۔ بلکہ شاید موتیوں سے بھی زیادہ صاف، شفاف اور چمکتے ہوئے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ قرآن نے جن حقائق کو بیان کرنے کی ذمے داری اٹھائی تھی، انسانی زبانیں ان کے بیان کے لیے اسالیب، تشبیہات اور استعاروں کا کتنا مختصر سرمایہ اپنے اندر لیے ہوئے تھیں۔ آج جو حقائق سامنے تھے وہ بیان کرنے کے نہیں صرف دیکھنے اور محظوظ ہونے کی چیز تھے۔ یہ غلمان بھی ایک ایسی ہی حقیقت تھے۔ فرشتوں کی طرح غلمان بھی پرجوش انداز میں میرا استقبال کررہے تھے۔ البتہ جیسے ہی میں ان کے قریب پہنچتا وہ گھنٹوں کے بل بیٹھ کر اپنا سر جھکادیتے۔ یہ موتیوں کی ایک لڑی تھی جو میرے استقبال میں بچھی جارہی تھی۔

قطار جب کافی طویل ہوگئی تو میں نے صالح سے کہا:

’’بھائی یہ نمایاں لوگ ہی اتنی تعداد میں ہیں تو کل خدام تعداد میں کتنے ہوں گے۔ اور اتنے لوگوں کا میں کیا کروں گا؟‘‘

صالح کے بجائے رضوان نے جو اسرار جنت سے زیادہ واقف تھے، جواب دیا:

’’آپ زمین سے آسمانوں تک پھیلی ہوئی ایک عظیم بادشاہی کے سربراہ ہیں۔ ان گنت کام ہیں جو آپ کو اس نئی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کیے جائیں گے۔ آپ ان کاموں کے لیے ان خدام کو استعمال کریں گے۔ یہ آپ کی ذاتی خدمت سے لے کر آپ کی عظیم سلطنت کی بیوروکریسی اور انتظامیہ تک کے سارے فرائض سرانجام دیں گے۔‘‘

’’تو گویا جنت بھی عیش و فراغت کی جگہ نہیں ہے۔ یہاں بھی کام کرنا ہوگا۔‘‘، میں نے ہنستے ہوئے تبصرہ کیا۔

’’آپ بے فکر رہیں۔ یہاں کام مشقت نہیں عیش ہوگا۔ باقی جس عیش و فراغت کو لوگ دنیا میں ڈھونڈتے ہیں، اس کی بھی یہاں کوئی کمی نہیں ہے۔‘‘

’’مگر یہ کام ہوگا کیا؟‘‘

’’میں تو یہ جانتا ہوں کہ آپ نے بادشاہی میں پیش آنے والے مسائل کے بغیر بادشاہی کرنی ہے۔ باقی اصل حقیقت تو صرف اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور وہ دربار کے دن یہ ساری باتیں آپ کو براہ راست خود بتادیں گے۔‘‘

ہم کچھ دور اور چلے تو صالح نے کہا:

’’اب حوریں آرہی ہیں۔‘‘

صالح کے اس جملے کے ساتھ ہی مجھے حوروں کے بارے میں اس کی وہ شاعرانہ تعریف یاد آگئی جو اس نے میدان حشر میں کی تھی۔ میں اُس وقت صالح کی باتوں کو مبالغہ سمجھا تھا۔ اب محسوس ہوا کہ اس کے بیان میں مبالغہ نہیں کچھ کمی تھی۔ حقیقت اس سے کہیں زیادہ برتر تھی۔ ہم جیسے ہی ان کے قریب پہنچے تو غلمان کے برخلاف انہوں نے ایک مختلف کام کیا۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھنے کے بجائے دو زانو بیٹھیں اور کمر کو خم دے کر سر جھکادیا۔

میں نے رک کر صالح سے پوچھا:

’’یہ کیا کر رہی ہیں؟‘‘

’’یہ دیدہ و دل فرشِراہ کررہی ہیں۔‘‘، اس نے ہنستے ہوئے کہا۔

رضوان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:

’’اصل میں انھوں نے آپ کے قدموں کو راحت پہنچانے کے لیے اپنے بال فرش پر بچھائے ہیں۔ اسی لیے یہ اس طرح جھکی ہوئی ہیں۔‘‘

اس کے کہنے پر میں نے غور کیا کہ وہ اس طرح سر کو جھٹکا دے کر جھک رہی ہیں کہ دونوں سمتوں سے ان کے بال زمین پر بچھ کر ایک ریشمی فرش بناتے جارہے ہیں۔ حسن کی یہ ادا میں نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھی تھی۔ میں پورے اعتماد اور وقار کے ساتھ مسکراتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ جب میرے قدموں نے ریشمی زلفوں سے بنے اس فرش کو چھوا تو سرور کی ایک لہر میری روح کے اندر تک تیرتی چلی گئی۔ مجھے پہلی دفعہ احساس ہوا کہ گرچہ میرے جسم پر انتہائی لطیف، مخملی اور دیدہ زیب شاہی لباس تھا لیکن میں نے جوتے نہیں پہن رکھے تھے۔

اس دوران میں رضوان نے مجھے ان حور و خدام کے متعلق مزید بتاتے ہوئے کہا:

’’ان حور و غلمان کے ظاہر سے ان کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوئیے گا۔ یہ لڑکے اور لڑکیاں انتہائی غیرمعمولی قوتوں اور صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ یہ لوگ آپ کے حکم پر زمین و آسمان ایک کردینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ آپ سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ آپ کے لیے جام شراب بھرنے کو بھی اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ان کو جو کچھ دیا ہے ابھی آپ کو اس کا معمولی سا اندازہ بھی نہیں ہے۔ ‘‘

میں رضوان کی بات کے جواب میں خاموش رہا۔ میرا دھیان احساس شکر گزاری کے ساتھ اس ہستی کے قدموں میں سجدہ ریز ہوگیا جس نے ایک فقیر اور بندۂ عاجز کو بہت معمولی عمل کے بدلے میں اس عزت و سرفرازی سے نوازا تھا۔ بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور میں خود بھی سجدے میں جاگرا۔ میری زبان پر تسبیح و تمجید کے الفاظ تھے۔میں اسی حال میں تھا کہ اچانک بارش کے قطروں کی سی آواز آنا شروع ہوگئی۔ صالح نے میری پیٹھ تھپتھپاکر کہا:

’’عبد اللہ! اٹھو اور اپنے سجدے کی مقبولیت دیکھو۔‘‘

میں اٹھا تو ایک حیرت انگیز منظر میرا منتظر تھا۔ میں نے دیکھا کہ حور و غلمان کے چہروں پر بشاشت اور خوشی کی لہر دوڑ رہی تھی اور ان کی جھولیاں انتہائی حسین موتیوں سے بھری ہوئی تھیں۔ میں کچھ نہیںسمجھا پایا۔ صالح نے میری حیرت دور کرتے ہوئے کہا:

’’خدا نے تمھاری طرف سے ان کو بخشش عطا کی ہے۔ تمھاری آنکھوں سے تو آنسو ہی بہے تھے، مگرخدا نے ان کو قبول کرکے موتیوں کی برسات برسادی۔ یہ ان کے لیے تمھاری آمد پر ایک تحفہ ہے جو ان کی زندگی کی سب سے قیمتی متاع ہے۔‘‘

ہم دوبارہ چلنے لگے اور آخر کار یہ استقبالی قطار ایک بلند و بالا دروازے پر ختم ہوئی۔ ہمارے قریب پہنچنے سے قبل ہی دروازے کے دونوں پٹ کھل چکے تھے۔ یہاں سے رضوان واپس لوٹ گئے اور میں صالح کے ساتھ اپنی رہائش گاہ میں داخل ہوگیا۔ رہائش گاہ کا لفظ میں نے اس لیے کہا کہ کاٹج، ہٹ، گھر، مکان، عمارت، بلڈنگ، بنگلہ، کوٹھی اور محل، قصر اور شہر جیسے تمام الفاظ میری اس رہائش گاہ کو بیان کرنے کے لیے قطعاً ناکافی تھے۔ یہ تاحد نظر پھیلا ہوا ایک وسیع علاقہ تھا جو سرسبز پہاڑوں، ان پر بنے فلک بوس محلات، ان کے دامن میں میلوں پھیلے باغات، ان کے نیچے بہتی ندیوں اور دریاؤں کا ایک ایسا مجموعہ تھا جن کے بیان کے لیے شاید الفاظ تو وہی ہیں جو میرے ذہن میں تھے ، مگر ان کی حقیقت ، ان کا حسن اور ان کی شان و شوکت ایک بالکل مختلف چیز تھی۔

میں نے اس وسیع منظر نامے پر نظر ڈالتے ہوئے صالح سے دریافت کیا:

’’اتنے سارے محلات میں سے میری رہائش گاہ کون سی ہے؟‘‘

اس نے ہنستے ہوئے کہا:

’’یہ محلات تمھاری رہائش گاہ نہیں۔ یہ تمھارے انتہائی قریبی خدام کی رہائش گاہ ہیں۔ تمھاری رہائش یہاں سے کافی دور ہے۔ تم چاہو تو پیدل بھی جاسکتے ہو، مگر بہتر ہے کہ اپنی سواری میں جاؤ۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے ایک طرف بڑھنے کا اشارہ کیا۔ میں نے اس سمت دیکھا تو ایک انتہائی شاندارمگر قدرے چھوٹاسا گھربنا ہوا تھا۔ چھوٹا اس دنیا کے حسا ب سے تھا وگرنہ پچھلی دنیا کے اعتبار سے یہ کوئی عظیم الشان محل جتنا وسیع تھا۔ مگر عجیب بات یہ تھی کہ صالح توجہ نہ دلاتا تو میں کبھی اس کی موجودگی محسوس نہیں کرسکتا تھا کیونکہ یہ مکمل طور پر شیشے کا بنا ہوا اور اتنا شفاف تھا کہ اس کے آر پار سب کچھ نظر آرہا تھا۔ صالح آگے بڑھا تو میں اس کے پیچھے اس خیال سے چلا کہ اس گھر میں کوئی گاڑی وغیرہ جیسی سواری کھڑی ہوگی۔ مگر وہ سیدھا مجھے اس گھر کے وسط میں موجود ایک کمرے میں لے گیا جہاں ہیرے جواہرات سے مرصع شاہانہ انداز کی عالیشان نشستیں نصب تھیں۔ صالح نے مجھے اشارے سے بیٹھنے کے لیے کہا۔ پھر وہ بولا:

’’یہ تمھاری سواری ہے جو تمھیں تمھاری منزل تک پہنچادے گی۔ میں تمھیں تنہا چھوڑ رہا ہوں تاکہ تمھیں یہ معلوم ہوجائے کہ یہاں کے اصل بادشاہ تم ہو۔ تمھیں کسی سہارے، کسی خادم اور کسی فرشتے کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم جو چاہو گے وہ خود بخود ہوجائے گا۔ اب میں تمھیں تمھارے گھر میں ملوں گا۔‘‘

قبل اس کے کہ میں کچھ کہتا وہ باہر نکل گیا۔ صالح کی اس بات پر میں شاک میں آگیا تھا۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ جنت میں داخلے کے بعد سے میں ایک مسلسل شاک کی حالت میں تھا۔ ہر لمحے ملنے والے مسرت آمیز صدمات نے مجھے قدرے ماؤف کردیا تھا۔

تاہم کچھ دیر میں خود کو سنبھال کر میں سوچنے لگا کہ میں کہاں ہوں اور کیوں ہوں؟ اور یہ کہ صالح نے مجھ سے ابھی کیا کہا تھا۔ صالح کے الفاظ کو میں نے ذہن میں دہرایا اور اس کی بات کا مطلب سمجھ میں آتے ہی مجھ میں انتہائی غیر معمولی اعتماد پیدا ہوگیا۔ مجھے لگا کہ میری بادشاہی اس لمحے سے شروع ہوتی ہے۔ تاہم سوال یہ تھا کہ یہ گھر یا سواری چلے گی کیسے۔ میں نے دل میں سوچا کہ صالح نہیں ہے تو کیا ہوا وہ رب تو اس لمحے بھی میرے ساتھ ہے جو دنیا میں زندگی بھر میرے ساتھ رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے بے اختیار قرآن کریم کا یہ بیان یاد آگیا کہ جنت میں بندوں کی ہر درخواست سبحان اللہ کہنے سے مل جایا کرے گی۔ میں نے دھیرے سے کہا:

’’سبحان اللہ۔‘‘

اس کے ساتھ ہی یہ گھر جو ایک سواری تھی خود بخود فضا میں بلند ہونے لگا۔ میں خوشی سے کھلکھلا اٹھا اور میں نے زور سے پکار کر کہا:

’’بسم اللہ مجریہا و مرسہا‘‘

یہ پیغمبر نوح علیہ السلام کے الفاظ تھے جوآپ نے اپنی کشتی میں بیٹھ کر کہے تھے۔ میری سواری دھیرے دھیرے ایک سمت بڑھنے لگی۔ میں خاموشی سے سر ٹکاکر نیچے پھیلے ہوئے حسین مناظر سے لطف اندوز ہونے لگا۔ گھر دھیرے دھیرے اڑ رہا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ نیچے شام کا سا دھندلکا پھیلنے لگا ہے۔ کچھ ہی دیر میں ہر طرف مکمل تاریکی چھاگئی۔ اس کے ساتھ ہی شیشے کا یہ گھر دودھیا رنگ کی اُس روشنی سے جگمگا اٹھا جس کا ماخذ اور منبع کہیں نظر نہ آتا تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اندھیرے میں میرا سفر جاری تھا۔ باہر دور تک گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ مگر اس تاریکی میں کوئی اندیشہ۔ ۔ ۔ کوئی خوف نہیں تھا۔ تاریکی کی اس تہہ پر دبیز سناٹے کی ایک اور تہہ جمی ہوئی تھی۔ مگر اس سناٹے میں بھی کوئی وحشت کوئی دہشت نہیں تھی۔ اندھیرے کی طرح یہ سناٹا بھی اپنے اندر ایک عجیب نوعیت کا سکون اور سرور لیے ہوئے تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ خاموشی میں بغیر آواز کے نغمے بکھرے ہوئے ہیں جو کانوں کے بجائے دل کے دروازوں سے وجودِ ہستی پر ہولے ہولے دستک دے رہے ہیں۔ بغیر ساز کے کچھ سُر فضا میں بکھرے ہوئے ہیں جوسماعتوں کے در و دیوار کے بجائے شعور کے دریچوں سے میکدۂ دل کی دنیا میں داخل ہوکر محوِ رقص ہیں۔

رہی تاریکی تو مجھے اس کا مقصد صرف ایک نظر آتا تھا۔ وہ یہ کہ تاریکی اُس روشنی کو خوب نمایاں کردے جو بہت دور فضا میں بلند ایک دیے کی مانند روشن تھی۔ یہ روشنی آسمان کے کسی تارے کی نہ تھی کہ اس وقت زمین کی طرح آسمان بھی تاریکی کی چادر اوڑھے ہوئے تھا۔ یہ روشنی ایک بلند پہاڑ کی چوٹی سے اٹھ رہی تھی۔ اندھیرے میں یہ روشنی کافی حسین اور دلکش لگ رہی تھی اتنی کہ اس سے نظر ہٹانے کا دل ہی نہیں چاہتا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ اس اندھیرے میں دیکھنے کو اور رکھا ہی کیا ہے۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں دیکھ سکتا کہ اس روشنی میں نیچے کا منظر کیسا نظر آرہا ہے۔ میں نے سبحان اللہ کہا جس کے ساتھ ہی تاریکی چھٹ گئی اور نیچے کا منظر صاف نظر آنے لگا۔

نیچے تاحد نظر وسیع و عریض پھیلا ہوا ایک سرسبز و شاداب میدان تھا جس کے عین وسط میں سنگِ مرمر کا ایک سفید پہاڑ نظر آرہا تھا۔ یہ کسی پہاڑی سلسلے کا کوئی حصہ نہیں بلکہ تنہا و یکتا سنگِ مرمر کا ایک بلند ٹیلہ تھا جو زمین کے سینے میں کسی تنہا ستون کی طرح ایستادہ تھا۔ اس پہاڑ کی چوٹی بلند ہوتے ہوتے ایک نیزے کی نوک کی طرح باریک ہوکر ختم ہورہی تھی۔ مگر یہ پہاڑ کا خاتمہ نہ تھی بلکہ یہ نوک اس عظیم الشان اور عالیشان محل کی بنیاد کا کام کررہی تھی جو عین اس کے سرے پر بنا ہوا تھا۔ مجھے یہ منظر حقیقت سے زیادہ کسی مصور کے تخیل کا شاہکار محسوس ہورہا تھا۔ اس لیے کہ میدانوں میں ایسے پہاڑ، پہاڑ کی اتنی باریک چوٹی اور چوٹی کے سہارے کھڑے ایسے محل حقیقت میں نہیں موجود ہوا کرتے۔

مگر وہ پچھلی دنیا کی باتیں تھیں۔ اب تو آزمائش اور طبعی قوانین کی وہ سابقہ دنیا ختم ہوچکی تھی۔ ایک نئی دنیا وجود میں آچکی تھی جس میںمیری بادشاہی تھی اورمیں تھا ۔ میں نے سوچا کہ انسانی تاریخ ہزاروں لاکھوں برس کا سفر طے کرکے دورِ توحید میں داخل ہوچکی ہے۔ ۔ ۔ جب زمین کا انتظام خدا کے فرشتوں نے سنبھال کر ہر ناممکن کو ممکن کردیا ہے۔ اور ایک ایسی دنیا بنادی ہے جس کی تاریکی ہر خوف اور خاموشی ہر اندیشے سے پاک ہے۔ جس کا اندھیرا چراغاں کا حصہ اور خاموشی موسیقی کا سامان ہوا کرتی ہے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میری خواہش پر ایک دفعہ پھر تاریکی چھاچکی تھی۔ تاریکی سے مجھے خیال آیا کہ کچھ اہل جہنم کا حال بھی دیکھوں۔ میں نے سبحان اللہ کہا اور اس کے ساتھ ہی میرے بائیں طرف نیچے کی سمت ایک اسکرین سی نمودار ہوگئی۔ اس پر جو منظر نمودار ہوا وہ حد درجہ دہشت ناک تھا۔ یہ جہنم کے وسطی حصے کا منظر تھا۔ خوفناک اور توانا فرشتے بھڑکتی ہوئی آگ سے چند انتہائی بدہیبت اور بدشکل انسانوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر باہر نکال رہے تھے۔ ان کے گلوں میں طوق تھے اور ہاتھ پاؤں میں بھاری اور نوکیلی زنجریں بندھی ہوئی تھیں۔ ان کے چہرے کا گوشت آگ میں جھلس چکا تھا۔ ان کے جسم پر تارکول کا بنا ہوا لباس تھا، جس سے سلگتی آگ ان کے گوشت کو جلارہی تھی۔ وہ شدتِ تکلیف کے مارے چیخ رہے تھے۔ رو رو کر اللہ سے فریاد کررہے تھے کہ انھیں ایک دفعہ دنیا کی زندگی میں جانے کا موقع دیا جائے پھر وہ کبھی ظلم، کفر اور ناانصافی کے قریب بھی نہیں پھٹکیں گے۔ مگر وہاں چیخنا، رونا اور دانت پیسنا سب بے سود تھا۔

پھر ان جہنمیوں نے چلا چلا کر پانی مانگنا شروع کیا تو فرشتے ان کو گھسیٹتے ہوئے پانی کے کچھ چشموں تک لے گئے۔ یہاں ابلتے پانی سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ مگر یہ جہنمی اتنے پیاسے تھے کہ اسی پانی کو پینے پر مجبور تھے۔ وہ کھولتے ہوئے پانی کو پیتے اور چیختے جارہے تھے۔ وہ اس پانی سے منہ ہٹاتے مگر کچھ ہی دیر میں اتنی شدید پیاس لگتی کہ پھر جانوروں کی طرح اسی پانی کو پینے پر خود کو مجبور پاتے۔ اس عمل کے نتیجے میں ان کے چہروں کی کھال اتر گئی اور ان کے ہونٹ نیچے تک لٹک گئے تھے۔

یہ منظر دیکھ کر میں نے بے اختیار اللہ کی پناہ مانگی اور اس کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے اس بدترین انجام سے بچالیا۔ پھر میں اس منظر کو بھول کر اُس جاذب نظر روشنی کو دیکھنے لگا جو پہاڑ کی چوٹی پر بنے میرے محل سے اٹھ رہی تھی۔ میری سواری دھیرے دھیرے اس محل کی سمت بڑھ رہی تھی۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ محل پہنچنے سے قبل ہی میں یہاں بیٹھے بیٹھے اس کو دیکھ لوں۔ حسب معمول میں نے سبحان اللہ کہا۔یکایک میرے کمرہ سینما گھر میں بدل گیا۔ مگر اس سینما کا اسکرین سامنے نہ تھا بلکہ دائیں بائیںسامنے اور اوپر کی سمت محل کا منظر کسی تھری ڈی فلم کی طرح چلنے لگا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں خود محل کے اندر موجود ہوں اور سب کچھ دیکھ اور سن سکتا ہوں۔

آج یہاں جشن کا سماں تھا۔ بلند پہاڑ کی چوٹی پر میرا یہ شاندار محل بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ بغیر قمقموں کے پھوٹتی ہوئی روشنیاں اور بغیر کسی شمع کے منور ہوتے فانوس اس شاندار محل کو اندھیرے کے سمندر میں روشنی کا ایک جزیرہ بنائے ہوئے تھے۔ یہ روشنی ہر سمت اور ہر رخ سے پھوٹ رہی تھی۔ یہ روشنی سے زیادہ رنگ و نور اور قوس و قزح کی وہ برسات لگتی تھی جو نگاہوں کے رستے احساسات کی دنیا کو ہر لمحہ ایک نئی لذت سے روشناس کرارہی تھی۔ روشنی اس قدر نظر نواز بھی ہوسکتی ہے، کسی آنکھ نے کبھی اس کا مشاہدہ نہ کیا ہوگا۔ وقفے وقفے سے یہاں نغمہ و آہنگ کا ترنم چھڑتا اور دلوں کے تار چھیڑتا ہوا فضا میں بکھر جاتا۔ موسیقی اس قدر مدہوش کن بھی ہوسکتی ہے، کسی سماعت کو کبھی اس کا گمان نہ گزرا ہوگا۔ فضا میں نغمگی کی لہریں ہی موجزن نہ تھیں، بلکہ دھیمی دھیمی خوشبو کی مہک بھی فضا کو معطر بنائے ہوئے تھی۔ خوشبو اس قدر فرحت انگیز بھی ہوسکتی ہے، کسی انسان نے کبھی اس کا تصور نہ کیا ہوگا۔

وسیع و عریض محل کی راہداریوں پر خدام کی چہل پہل بکھرے موتیوں کا منظر پیش کررہی تھی۔ ان کے چہروں پر روشنی، لباس میں خوبصورتی، گفتار میں دلکشی اور انداز میں مستعدی تھی۔ ان خدام کی منزل محل کے ایک کونے پر بنا وسیع و عریض باغ تھا۔ یہ باغ کیا تھا سبزے، پھولوں اور درختوں کا ایک ایسا گلدستہ تھا جس نے اپنے حسن سے چمن بندی کی ہر انتہا کو مات دے دی تھی۔ ہزارہا رنگ اس باغ میں بکھرے ہوئے تھے۔ صرف ایک سبز رنگ نے اتنی مختلف شکلوں میں اپنا ظہور کیا تھا کہ انھیں گنا نہ جاسکتا تھا۔ بلند و بالا درخت اور ان پر لگے ان گنت اقسام کے پھل، ہر درخت پر مختلف رنگ کے پتے، ہزارہا طرح کے پودے جن پر لگے ہوئے رنگ برنگے پھول و کلیاں۔ پھر یہ سب کچھ بے ترتیب نہ تھا بلکہ اصل حسن اس ترتیب میں ہی تھا جس کے ساتھ ان درختوں، پودوں اور پھولوں کو منظم کیا گیا تھا۔ یہ باغ کسی شاعر کی دل آویز غزل کی طرح تھا جس میں منتشر الفاظ کو وزن، قافیے اور ردیف کے نظم میں پروکر ایک شاہکار تخلیق کیا جاتا ہے۔ اس حسین و جمیل باغ کے حسن میں وہ راستے اور روشیں قیامت ڈھارہی تھیں جو یاقوت، موتی، زمرد، نیلم اور فیروزے جیسے قیمتی پتھروں کے سنگ ریزوں سے بنائی گئی تھیں۔ اس پر مزید وہ نہریں تھیں جو باغ کے درمیان بہتی ہوئی آنکھوں کو احساس لطافت اور ان کے بہنے کی آواز کانوں کو سرور بخش رہی تھی۔ ان نہروں میں سے کسی میں سفید دودھ، کسی میں جھاگ اڑاتا بے آمیز پانی، کسی میں سرخ ارغوانی شراب اور کسی میں بہتے شہد کی موجیں رواں تھیں۔ ہر نہر سے ایک منفرد نوعیت کی خوشبو اٹھ رہی تھی جو قریب جانے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی۔ نہروں کے ساتھ اور درختوں کے نیچے جگہ جگہ بیٹھنے والوں کے لیے ہیروں اور جواہرات سے جڑے ہوئے تخت، شاہانہ نشستیں، دبیز قالین اور آرام دہ تکیے رکھے ہوئے تھے۔

خوبصورت روشوں، دلکش نہروں، خوش رنگ پھولوں، خوشنما پتوں اور خوش ذائقہ پھلوں کا نذرانہ پیش کرتا ہوا یہ باغ چاروں طرف سے کھلا ہوا تھا۔ یہاں گہری مگر خوشگوار خنکی چھائی ہوئی تھی۔ کبھی کبھی ہوا کا کوئی جھونکا اٹھتا اور کسی نئی خوشبو سے اس خنکی کو معطر کردیتا۔ باغ سے دور تک کا نظارہ بالکل صاف نظر آرہا تھا۔ باہر جو اندھیرا ہر منظر کو نگل رہا تھا یہاں حیرت انگیز طور پر اس کا کوئی اثر محسوس نہ ہوتا تھا۔ دور تک ایک عظیم الشان شہر کی بلند عمارات اور ان میں جگمگاتی روشنیاں تھیں جو رات میں چمکتے ہوئے جگنوؤں کا منظر پیش کررہی تھیں۔ آسمان پر بھی چھوٹے چھوٹے تارے جگمگارہے تھے جن کی دودھیا روشنی نے سیاہ آسمان کو اور حسین بنادیا تھا۔ ایک سمت میں ایک جگمگاتی ہوئی روشنی تھی جو آہستہ آہستہ حرکت کرتے ہوئے محل کی سمت بڑھ رہی تھی۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ یہ دراصل میری ہی سواری تھی جسے خد اکی قدرت سے اندر بیٹھا ہونے کے باوجود میں باہر سے محل کی طرف بڑھتا ہوا دیکھ رہا تھا۔

باغ کے ایک حصے میں میں نے صالح کو بیٹھے ہوئے دیکھا اور دل میں سوچا کہ موصوف مجھ سے پہلے ہی یہاں پہنچ چکے ہیں۔ وہ جس جگہ بیٹھا ہوا تھا وہ غالباً باغ کا خوبصورت ترین حصہ تھا۔ اس کے اردگرد کا فرش شفاف شیشے کی طرح تھا۔ فرش اتنا شفاف تھا کہ دور تک نیچے کا منظر صاف نظر آرہا تھا۔ فرش کے نیچے ایک ڈھلتی ہوئی حسین شام کا منظر تھا جس میں سرسبز گھاس اور رنگین پھولوں سے ڈھکے میدان اور ان کے بیچ میں بہتے دریا انتہائی خوش منظر نظارہ پیش کررہے تھے۔

یہاں سے نظر نیچے دوڑانے پر ایک حسین شام نظر آتی تو اردگرد ایک مہکتی اور چمکتی ہوئی شب کا منظر تھا۔ نیچے اگر دریا بہہ رہے تھے تو اوپر درختوں کی پھلوں سے لدی ڈالیاں تھیں جو اشارہ پاکر نیچے آنے اور من پسند میووں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے بے قرار تھیں۔ کچھ خدام ایک کونے پر پرندوں اور جانوروں کا گوشت سلگتی انگیٹھیوں پر بھون رہے تھے۔ ان سے اٹھنے والی اشتہا انگیز خوشبو اس لذت اور ذائقے کا اعلانِ عام تھی جو کھانے والوں کی بھوک کو کبھی بجھنے نہیں دیتی تھی۔ ساتھ ہی شیشے سے زیادہ شفاف مگر چاندی کے بنے ہوئے جام و صبو اور پیالہ و ساغر بہت نفاست اور خوبصورتی سے رکھے ہوئے تھے۔ ۔ ۔ اس انتظار میں کہ محفل گرم ہو اور وہ ساقی گری کی خدمت سے اپنے مالک کے ذوق طلب کی تسکین کریں۔

میں یہ مناظر دیکھنے میں محو تھا اور مجھے احساس ہورہا تھا کہ یہ سب کچھ میرے لیے اجنبی نہیں ہے۔ مجھے یاد آیا کہ میںبرزخ کی زندگی میں ان مناظر کو دیکھ چکا تھا۔ اسی اثنا میں مجھے محسوس ہوا کہ سواری کی رفتار دھیمی ہورہی ہے۔ میں نے اشارہ کیا اور اسکرین غائب ہوگئی۔ میری سواری منزل مقصود پر پہنچ رہی تھی۔ بلندی سے یہ جگمگاتا ہوا محل اتنا حسین لگ رہا تھا کہ میرا دل چاہا کہ میں یہاں ٹھہر کر یہ منظر دیکھتا رہوں۔ اس منظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے میں نے محل کے اطراف میںدو تین چکر لگائے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ صالح نیچے میرا منتظر ہے۔ اس لیے میں نے اترنے کا فیصلہ کیا۔ میری یہ سواری یا شیش محل اسی جگہ دھیرے سے اترگیا جہاں صالح موجود تھا۔

میں باہر نکلا تو صالح نے ایک قہقہہ لگاکر میرا استقبال کیا اور بولا:

’’میں یہ سمجھ رہا تھا کہ تم اسے عرش سمجھ کر اس کا طواف کررہے ہو۔ اچھا ہوا تم نے سات چکر نہیں لگائے۔‘‘

اس کے دلچسپ تبصرے پر میں خود بھی اس کی ہنسی میں شریک ہوکر اس سے بغلگیر ہوگیا۔ پھر وہ مجھ سے علیحدہ ہوتے ہوئے بولا:

’’تم پہلے اپنے محل کا معائنہ کرو گے یا کھانے پینے کا ارادہ ہے؟‘‘

’’میں تو اس رہائش گاہ کے حسن سے مبہوت ہوکر رہ گیا ہوں۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ خوبصورتی اس طرح بھی تخلیق کی جاسکتی ہے۔‘‘

’’عبداللہ! یہ تو صرف آغاز ہے۔ اس وقت سے لے کر دربار والے دن تک جو کچھ بھی تم دیکھو گے قرآن اس سب کو ’نزل ‘یعنی ابتدائی مہمانی کا سر و سامان کہتا ہے۔ جو کچھ اس کے بعد ملے گا وہ تو نہ کسی کان نے سنا، نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی دل پر کبھی اس کا خیال گزرا ہے۔‘‘

’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ یہ باتیں قرآن و حدیث میں بیان ہوئی تھیں، مگر جنت اس سے مختلف ہے جو نقشہ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ یہ اس بیان سے کہیں زیادہ خوبصورت جگہ ہے۔‘‘

’’اس کا سبب یہ ہے کہ جنت کا قرآن میں ذکر نزول قرآن کے وقت اہل عرب کے ذہنوں میں پائے جانے والے عیش و عشرت کے اعلیٰ نمونے کے پس منظر میں ہوا ہے۔ یعنی جن چیزوں کو اہل عرب زیادہ بڑی نعمت سمجھتے تھے، اسی کو بیان کردیا گیا۔ وہ آدمی بے وقوف ہوگا جو جنت کو صرف انھی تک محدود سمجھے گا۔‘‘

’’تم صحیح کہتے ہو، زمانۂ نزولِقرآن کے عرب تو شاید ان بہت سی نعمتوں کا اندازہ بھی نہ کرسکتے تھے جو میرے زمانے یعنی انفارمیشن ایج میں ایجاد ہوچکی تھیں۔ قرآن مجید نے ان عربوں کی رعایت سے زرعی دور کی رفاہیت اور عیش و عشرت کا نقشہ کھینچا تھا۔ لیکن بھائی جس سواری میں سوار ہوکر میں آیا ہوں، اس نے تو میرے تخیل کو بھی شکست دے دی۔‘‘

’’اس طرح کی بہت سی چیزیں تم ابھی اور دیکھو گے۔ خیر سردست کیا ارادہ ہے؟‘‘

میں اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے اردگرد پھیلے ہوئے حسین ماحول میں کھوگیا۔ میں ایک ایک چیز اور ایک ایک منظر کو اپنی نگاہوں میں سمیٹ لینا چاہتا تھا۔ صالح نے میری محویت کو دیکھا تو شرارت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا:

’’تم غالباً حوروں کو ڈھونڈ رہے ہو۔ وہ تمھارا استقبال کرنے باہر آئی تھیں، اب سب اپنی رہائش گاہوں میں لوٹ گئی ہیں۔ البتہ تم چاہو تو۔ ۔ ۔ ‘‘

میں نے اسے جملہ پورا کرنے کا موقع دیے بغیر پوری سنجیدگی سے جواب دیا:

’’میرے زمانے میں انسانیت کے دو امام ہوا کرتے تھے۔ ایک امام کارل مارکس جو پیٹ کو زندگی کی اصل بتاتے تھے اور دوسرے امام فرائڈ جو۔ ۔ ۔ ‘‘

میں جملہ ادھورا چھوڑ کر لمحے بھر کے لیے رکا جس پر صالح نے ایک زوردار قہقہ لگایا۔ میں نے بھنے ہوئے گوشت کی اشتہا انگیز خوشبو کو سونگھتے ہوئے کہا:

’’میں سردست امام کارل مارس کی پیروی کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دنیا میں تمام انسانوں کی زندگی وقت کی غلامی میں گزرا کرتی تھی۔ وقت کا پہیہ لمحوں، ساعتوں، ایام اور ماہ و سال کی گردشیں طے کرتا آگے بڑھا کرتا تھا۔ پہروں اور موسموں کی تبدیلی سے وقت کے گزرنے کا احساس ہوا کرتا تھا۔ مگرمیں اب جس دنیا میں تھا، وہاں وقت غلام تھا اور انسان آقا۔ لمحے اور ساعتیں، دن اور ہفتے، مہینے اور سال، صدیاں اور قرن؛ ان کے دن ختم ہو چکے تھے۔ وقت گزرنے کا زمانہ ماضی کی زندگی کی طرح گزرچکا تھا۔ وقت و زمانے کے آثار قدیمہ میں سے اب جو کچھ باقی تھا وہ صرف پہر اور موسم تھے۔ اور وہ بھی تمام تر ہمارے اختیار میں۔ انسانوں کی سلطنت میں کہیں ہمیشہ صبح کی روشنی چھائی رہتی، کہیں دوپہر کے روشن سناٹے، کہیں سہ پہر کی دھیمی تمازت، کہیں شام کی پھیلتی ڈوبتی شفق کی سرخی، کہیں آخر شب کی سیاہ خامشی اور کہیں فجر کا جھٹپٹا،کہیں بدرِ کامل کی چاندنی،کہیں تاروں بھری راتیں، کہیں بہاروں کی گھنی چھاؤںاورکہیں ہزار رنگ خزاں کاروپ۔ اہل جنت کی رہائش گاہوں میں گرچہ موسم بہت معتدل اور خوشگوار رہتا، لیکن لوگوں کے ذوق کی تسکین کے لیے کہیں سانسیں منجمد کردینے والی سردیاں تھیں تو کہیں صحرائی گرمیاں، کہیں برکھا کی رت تھی، کہیں بہار اور خزاں کے رنگ۔ غرض جو دل چاہے اور جس کی انسان خواہش کرے وہ پہر اور وہ موسم انسانی تسکین کے لیے موجود تھا۔

میں ایک بہت بڑی سلطنت کا تنہا اور بلاشرکت غیرے حکمران بن چکا تھا۔ ہمدم دیرینہ صالح اس نئے جہانِ رنگ و بو میں بھی میرا رفیق اور میرا ساتھی تھا۔ اسی نے مجھے بتایا کہ یہ سلطنت وسیع ترین کائناتی نظام کا ایک حصہ تھی۔ اس نئے نظام میں تقسیم اس طرح تھی کہ تمام اہل جنت کی رہائش اسی زمین پر تھی جہاں ہزاروں لاکھوں برس تک انسانوں کی آزمائش ہوتی رہی۔ اہل جنت میں دو کلاسیں تھیں۔ ایک عوام اور دوسرے خواص۔ عوام یا کم درجے کے اعمال والے وہ لوگ تھے جنھیں انعام میں ایک یا ایک سے زیادہ ستاروں اور سیاروں کو دے دیا گیا تھا۔ یہ بتانے کی شاید ضرورت نہیں کہ اب یہ ستارے آگ اور اندھیرے کا مسکن نہیں رہے تھے بلکہ بدل کر حسین جنتوں اور پرفضا وادیوں میں بدل چکے تھے۔

خواص جنت کی حکمران کلاس تھی۔ اس میں پہلے شہدا اور صدیقین تھے۔ ان کو اربوں کھربوں ستاروں پر مشتمل کہکشاؤں کی بادشاہی اور حکمرانی دی گئی تھی۔ میں ایسی ہی ایک کہکشاں کا حکمران تھا۔ ان سے اوپر انبیا کرام تھے جو ان گنت کہکشاؤں پر مشتمل مجموعوں کے حکمران تھے۔

سر دست یہ بات ایک راز تھی کہ کس کو کون سی جگہ کی حکمرانی ملنی ہے، وہاں کیا کرنا ہوگا۔ صالح نے مجھے بتایا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ دربار کے دن بیان کریں گے۔ اسی روز ہر شخص کو اس کی سلطنت رسمی طور پر دے دی جائے گی۔ فی الوقت تو لوگ صرف زمین پر مقیم تھے اور بقول صالح کے ان کو جو کچھ نعمتیں یہاں مل رہی تھیں وہ بس ابتدائی مہمان نوازی کی نوعیت کی چیزیں تھیں۔ اصل نعمتیں جن کو کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل پر ان کا گمان گزرا وہ دربار والے دن کے بعد ہی ملنا شروع ہوں گی۔ جب رسمی طور پر ان کے اعزازات اور مناقب کا اعلان ہوگا۔ البتہ تب تک لوگوں کو پروٹوکول ان کی حیثیت کے مطابق ہی دیا جارہا تھا۔

اس پروٹوکول کا اظہار ان تقریبات، مجالس اور دعوتوں میں ہوتا جو اہل جنت آپس میں ایک دوسرے کے اعزاز میں کررہے تھے۔ گو ابھی تک سارے جنتی جنت میں داخل نہیں ہوئے تھے، مگر یہاں بھرپور زندگی شروع ہوچکی تھی۔ پیچھے حشر میں صرف اتنا ہورہا تھا کہ ایک کے بعد ایک کرکے صالحین جنت میں داخل ہورہے تھے، مگر یہاں وقت چونکہ رکا ہوا تھا اس لیے صرف دو لوگوں کے داخل ہونے کے درمیان بھی ان گنت سال اور صدیاں حائل ہوجاتے تھے۔ میرا اندازہ یہی تھا اور جس کی صالح نے تائید کی تھی کہ دربار اسی وقت منعقد ہوگا جب سارے جنتی جنت میں داخل ہوچکے ہوں گے۔ یہی جنت کی ابتدائی زندگی تھی۔ اسی دوران میں مجلسیں اور تقریبات ہورہی تھیں۔ زیادہ تر انبیاے کرام ہی تھے جو اپنی اپنی اور دیگر انبیا کی امتوں کے شروع میں آنے والے صالحین کے اعزاز میں دعوتیں کررہے تھے۔

انہی مجلسوں میں میری متعدد لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ میں گرچہ دنیا میں بہت کم کم لوگوں سے ملا کرتا تھا، مگر جنت میں آنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میں خلافِ عادت بہت زیادہ سوشل ہوچکا ہوں۔ اس لیے میرے نئے نئے دوست بننے لگے۔ لوگوں کے حالات اور ایک دوسرے کی سابقہ زندگی سے آگاہی حاصل ہونے لگی۔ میرے لیے یہ غیر متوقع تو نہیں تھا مگر پھر بھی مجھے قدرے تعجب ہوا کہ ابتدائی کامیاب لوگوں میں زیادہ تر غریب اور پریشان حال لوگ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے دنیا میں بہت پریشانیاں اور دکھ جھیلے، لیکن ہمیشہ صبر شکر سے کام لیا۔ میں نے یہ بات خاص طور پر نوٹ کی کہ اعلیٰ ترین درجے کے ان ابتدائی جنتیوں میں ایک بات قدر مشترک تھی۔ یہ سب کے سب صبر کرنے والے تھے جنھوں نے بدترین حالات میں بھی اللہ پر بھروسہ کیا اور تسلیم و رضا اور تفویض و توکل کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔