رختِ جاں پہ عذاب رت تھی، نہ برگ آئے نہ پھول آئے
بہار وادی سے جتنے پنچھی اِدھر کو آئے ملول آئے

وہ ساری خوشیاں جو اس نے چاہِیں، اٹھا کے دامن میں اپنے رکھ لِیں
ہمارے حصے میں عذر آئے جواز آئے ، سوال آئے ۔ ۔ ۔