اب کوئی غفلت نا اب کوئی ندامت چاہیے
سرحدیں محفوظ ہوں ایسی حقیقت چاہیے

اتنے دن میں چپ رہا سہتا رہا سارے ستم
آج مجھ کو لب کشائی کی اجازت چاہیے

ڈال کر آنکھوں میں آنکھیں بات ان سے کر سکے
دوستو اس بار کچھ ایسی قیادت چاہیے

روز و شب کرتا رہے جو دیس میں خر مستیاں
ایسے سلطاں سے ہمیں کرنی بغاوت چاہیے

جس نے سرحد پر مری شب خون مارا ہے سہیل
اب نا وه مجرم کہیں مجھ کو سلامت چاہیے