کبھی تو فرصت کے موسموں میں
کسی بڑے شہر کی نکڑ پہ
کچی بستی کے سہمے سہمے
ننھے بچوں کے چہرے پڑھنا
کہ جن کے ننگے بدن نجانے
کتنی ہی خنک رتوں کو
لباس کر کے پہن چکے ہیں
معصوم سے ہاتھ، پھول چہرے
کھلونے روٹی کے مانگتے ہیں

زرد موسم نجانے کتنی
بہاریں اُن کی نگل چکے ہیں
کئی تو ہیں جو کہ پیدا ہوتے ہی
بچپنے سے نکل چکے ہیں
اُن کی آنکھوں میں دیکھو اک بار
حسرتیں برف بن گئی ہیں
اُن کے حصے کی خوشیاں تھیں جو
کبھی یہ سوچا، کدھر گئی ہیں؟