جاتا پل جب آ نے والے پل کا ہاتھ پکڑ تا ہے

میری خواب سراۓ میں اک نیا دریچہ کھلتا ہے

پھر میں اس میں جھانک کے جانے کتنے منظر دیکھتی ہوں

وقت کا د ھ ار ا جیسے میرے ساتھ ہی چلتا رکتا ہے

میری سوچیں مجھے اڑ ا کر دور کہیں لے جاتی ہیں

اس انجان محل میں جس کا ہر اک برج سنہرا هے

جس میں چند اکیلی یادیں صدیوں سے لہراتی ہیں

لیکن جس کے در پیے آج بھی تیز ہوا کا پہرا ہے

سینکڑ و ں بار صدا دینے پرایک جھروکا کھلتا ہے

اک ان جانی سرگوشی مجھے اپنے پاس بلاتی ہے

سب کلیوں سے شبنم چن کر میرے ہاتھ پی رکھتی ہے

اور گھٹا کےآ ینۓ میں سارا جہاں دکھلاتی ہے

سوچ سمندر کی سیپوں سے موتی چنتی رہتی ہوں

میں اپنے دل کی سب بٹن اس ہمدم سے کہتی ہوں

وو بے شکل صدا میرا ہر خواب مکمل کرتی ہے

چند کو میرے ہاتھ کا کنگن دھنک کو آنچل کرتی ہے

لیکن نام پتا پوچھوں تو وہ چھپ سی ہو جاتی ہے

بند ہوتا ہے محل جھروکا پھر سے کہیں کھو جاتی ہے