آخر ہم کب تلک غریب رہیں؟
——————————
آس دامن میں باندھ کر خواہش
جس سفر پہ بزرگ تھے نکلے
عمر تک رات کا سفر کاٹا
پھر بھی لیکن صبح نہیں آئی
آؤ سب مل کر ہمسفر سارے
خوابِ غفلت سے جاگ کر سوچیں
میر جعفر کو، میر صادق کو
مسندِ میر کِس نے دے چھوڑی؟

اپنے قائد کے قاتلوں پیچھے
آخر ہم کب تلک نماز پڑھیں؟
ڈھونگیوں کی دعاوں پہ کب تک
ہم فقط” آمین” کا یہ ورد کریں
یہ تو ناو ڈبو کے چھوڑیں گے
آؤ خود ہی سامانِ زیست کریں

تکیہ کب تک مہا جنوں پہ کریں
آخر ہم کب تلک غریب رہیں؟
کب تلک آنسووں کو بو کے ہم
فصلِ امید میں خوشی دیکھیں
آؤ اِس کارواں کا رخ موڑیں
ڈھونڈ لائیں کہیں سے صبح کو
ایسی ہی باغیانہ سوچوں سے
خوشبوئے اِنقلاب آتی ھے

کیوں روایت کو تھام کر بیٹھیں؟
فصلِ خواہش کے انتظار میں ہم
چل کے منزل کبھی نہیں آتی
خوش گمانی سے جھاڑ کر دامن
منزلوں کو سفر بھی لازم ھے
مل کے جب سب چلیں گے جگنو تو
راہ روشن بھی ہو ہی جائے گی
رات آخر تو سو ہی جائے گی
صبح اک دن تو ہو ہی جائے گی