سیاہی زما نے کی، مٹانے ہوں میں نکلا
طارقؓ کی طرح کشتی، جلانے ہوں میں نکلا

میں برف کا پیکر بھی ہوں، اور آنچ سا جذبہ
سورج سے زمانے کو، بچانے ہوں میں نکلا

دشمن ہوں ہوائیں بھی، سہی ریت کی ضد بھی
صحرا میں سے اک رستہ، بنانے ہوں میں نکلا

اِس راتِ مسلسل کی، ظلمت کے نویں پہر
سوئی ہوئی صبحوں کو، جگانے ہوں میں نکلا

میں بھانپ کے نیت، محافظ کی سرِشب ہی
دھوئیں سے قبل آگ، بجھانے ہوں میں نکلا

شاعر نے ِمرے سپنا، جو قائد کو دکھایا
اُس خواب جزیرے کو، بسانے ہوں میں نکلا

جس نے ھے جنا مجھ کو، ہوں جس گود میں کھیلا
مٹی کا ھے کچھ قرض، چُکانے ہوں میں نکلا