قاتل کو آج صاحبِ اعجاز مان کر
دیوارِ عدل اپنی جگہ سے سرک گئی

قیمت ہے ہر کسی کی دُکاں‌ پر لگی ہوئی
بِکنے کو ایک بِھیڑ ہے باہر  لگی ہوئی

غافل نہ جان  اُسے کہ تغافل کے باوجود
اُس کی نظر ہے سب پہ برابر  لگی ہوئی

خوش ہو نہ سر نوشتہء مقتل کو دیکھ کر
فہرست ایک اور ہے اندر  لگی ہوئی

کس کا  گماشتہ ہے امیرِ سپاہِ شہر
کن معرکوں میں‌ہے صفِ لشکر  لگی ہوئی

برباد کر کے بصرہ و بغداد کا جمال
اب چشمِ بد ہے جانبِ خیبر  لگی ہوئی

غیروں سے کیا گِلہ ہو کہ اپنوں کے ہاتھ سے
ہے دوسروں کی آگ مِرے گھر  لگی ہوئی

لازم ہے مرغِ باد نما بھی اذان دے
کلغی تو آپ کے بھی ہے سر پر  لگی ہوئی

میرے ہی قتل نامے پہ میرے ہی دستخط
میری ہی مُہر ہے سرِ محضر  لگی ہوئی

کِس کے لبوں پہ نعرہء منصور تھا  فراز
ہے چار سُو صدائےمکرّر  لگی ہوئی