ايك يورپى ملك ميں سيكسى سوچ كے نتيجہ ميں رمضان المبارك ميں دن كے وقت بہت ہى شديد شہوت پيدا ہو جانے كے نتيجہ ميں منى خارج ہوگئى، ميرے دل ميں وسوسہ سا پيدا ہوا كہ روزہ ٹوٹ گيا ہے تو ميں نے مشت زنى بھى كر لى، كيا ميرے ذمہ روزے كى قضاء ہے يا كفارہ ؟
اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے

الحمد للہ:

مسلمان پر اپنى سمع و بصر اور سارے اعضاء كى حرام سے حفاظت كرنى واجب ہے، اور اصل ميں تو روزہ نفس كى تربيت و تہذيب كرتا ہے، اور روزے دار كو شہوات و فحاشى سے بچانے كا باعث ہے.

علماء كرام كا سوچ كے نتيجہ ميں منى خارج ہونےسے روزہ ٹوٹنے ميں اختلاف پايا جاتا ہے، مالكى حضرات روزہ باطل قرار ديتے ہيں، ليكن جمہور علماء كرام اس كے روزے كو باطل قرار نہيں ديتے، ظاہر يہى ہوتا ہے كہ جمہور علماء كرام اس كا روزہ اس ليے باطل نہيں كيا كيونكہ بندے كا اس ميں كوئى ارادہ شامل نہيں، اور سوچ ايك ايسى چيز ہے جو خيالات اور ذہن ميں آتى ہے اور اسے دور كرنا ممكن نہيں.

رہا عمدا سوچنا اور پھر اس سوچ سے انزال مقصود ہو تو اس صورت ميں انزال كى بنا پر ديكھنے اور سوچنے ميں كوئى فرق نہيں، جمہور علماء كرام انزال تك عمدا ديكھنے سے روزے كو باطل قرار ديتے ہيں.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

” احناف اور شافعى حضرات كے ہاں ديكھنے اور سوچنے سے منى يا مذى خارج ہونے كى بنا پر روزہ باطل نہيں ہوتا، ليكن اس كے مقابلہ ميں شافعى حضرات كے ہاں صحيح يہى ہے كہ جب ديكھنے كى بنا پر انزال كى عادت ہو جائے يا پھر بار بار ديكھے اور انزال ہوجائے تو روزہ فاسد ہو جائيگا.

ليكن مالكى اور حنابلہ كے ہاں مستقل ديكھنے سے منى خارج ہو جانے پر روزہ فاسد ہوجائيگا؛ كيونكہ يہ ايسا فعل كے ساتھ انزال ہے جس سے لذت حاصل كر رہا ہے اور اس فعل سے اجتناب ممكن ہے.

ليكن صرف سوچ كى بنا پر انزال ہو جانے سے مالكى حضرات كے ہاں روزہ فاسد ہو جاتا ہے اور حنابلہ كےہاں فاسد نہيں ہوگا؛ كيونكہ اس سے اجتناب ممكن نہيں ” انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 26 / 267 ).
لہذا جب روزہ ٹوٹ گيا تو اس كى قضاء بھى واجب ہو گى، ليكن كفارہ لازم نہيں ہوگا، اس ليے كہ كفارہ تو اس پر واجب ہوتا ہے جو جماع كے ساتھ روزہ توڑے.
آپ پر درج ذيل امور سرانجام دينا واجب ہيں:

ـ مشت زنى جيسى غلط عادت سے توبہ و استغفار كريں.
اس دن كى قضاء ميں روزہ ركھيں.

واللہ اعلم .