واقعہ کربلا کو بیان کرنے والے اکثر رواۃ جھوٹے’مجہول ’غیرمعتبر’غالى ہیں’ انہوں نے مبالغہ آرائیوں اور داستانوں سے بھرے ہوئے واقعات بیان کئے اور بہت سی روایتیں خود گھڑی ہیں اور مؤرخین نے انکو بلا تحقیق اور بلا کسی نقد وتبصرہ نقل کیا –یہی وجہ ہے کہ واقعات کربلا کی اصل حقیقت سے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ نا واقف رہ گیا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور یزید کے سلسلے میں طرح طرح کی غلط فہمیوں کا شکارہوگیا- واقعات کربلا کے بیان میں تاریخ کی کتابوں میں اتنا تضاد ہے کہ ان میں واقعہ کی صحیح نوعیت کی پہچان بڑا مشکل امرہے اور کونسی روایت صحیح ہے اور کونسی غلط ہے اسکی تمییز کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں رہا ہے- زیرنظر مضمون میں واقعہ کربلا کو اسلامى تاریخ ’ائمہ رجال کی کتب اور حقیقت پسند مؤلفین اور اعتدال کے خوگرمؤرخین اور ائمہ کی تحریروں کی روشنی میں مختصرا پیش کیا گیا ہے .واضح رہے کہ اس مضمون میں تاریخ کی ان روایتوں پر اعتماد کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن پر اکثر مؤرخین متفق ہیں.
واقعہ کربلا ہماری تاریخ کا المناک ترین باب ہے ۔نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے نصف صدی بعد آپ کے محبوب نواسے کو ان کے پورے اہل و عیال کو اس بے دردی کے ساتھ تہ تیغ کر دینا اموی حکومت کے دامن پر سیاہ ترین دھبہ ہے اس کا سبب محض یہ تھا کہ اموی حکمران یزید کی حکومت باقی نہ رہ سکتی تھی اگر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہہ زندہ رہتے ۔یزید اور اس کے لاﺅ لشکر نے جس سنگدلی اور شقاوت کا مظاہرہ کیا وہ ہر لحاظ سے قابلِ مذمت ہے ۔ان واقعات کا علمی تجزیہ تو ہونا چاہیے مگر افراط و تفریط کا شکار ہو کر تاریخ کو اپنی من مانی تعبیر کے سانچے میں نہیں ڈھالنا چاہیے۔مستند واقعات کی کسوٹی پر تمام کرداروں کو پرکھاجائے تو ہر ایک کا درست تعارف سامنے آجاتا ہے۔
یزید تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے کہ جس پر سبّ و شتم کی بوچھاڑ ہوتی ہے مگر سب و شتم نہ تو درست طرزِ عمل ہے، نہ اس سے کوئی مسئلہ حل ہوتا ہے۔ دوسری جانب ردعمل کے طور پر کچھ لوگ یزید کی پارسائی اور مناقب بیان کرنے کا محاذ سنبھال لیتے ہیں۔ یوں دونوں جانب کی کھینچا تانی نے حقائق کو کافی حد تک مسخ کیا ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ نے نہایت معتدل اور مبنی برحق موقف بیان فرماتے ہوئے کہا کہ یزید کے بارے میں تین گروہ پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ اس کی تحسین و تعظیم کرتا اور اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے۔ دوسرا گروہ اس پر سبّ و شتم اور لعنت بھیجتا اور اس کی تفکیر ضروری سمجھتا ہے۔ تیسرا موقف ہمارا ہے کہ ہم نہ اس سے محبت کرتے ہیں، نہ اس کی تعظیم و تحسین اور نہ ہی اس کو گالیاں دیتے ہیں۔ (مفہوم از فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ) یزید میں بلاشبہ کئی کبائر اور بڑی بڑی برائیاں تھیں اور خلافت کے اعلیٰ منصب کا تو وہ کسی لحاظ سے بھی اہل نہیں تھا۔ اس کے خلاف صحابہ کرام کا موقف مبنی برحق تھا۔ یہ بالکل الگ موضوع ہے کہ اس کا تختہ کیوں نہ الٹا جاسکا۔ اس کے تخت پر براجمان ہونے کو قطعاً دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ حق پر تھا۔اگر اس دلیل کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر فرعون اور نمرود جیسے تمام حکمرانوں کو بھی برحق ماننا پڑے گا جو کہ سرا سر خلافِ حقیقت ہے ۔
اسلام کے نظامِ خلافت کو جاننے والے صحابہ کرام بخوبی سمجھتے تھے کہ یزید اپنے کردار کے لحاظ سے خلافت کی عظیم ذمہ داری کے لیے بالکل نااہل ہے۔ ان حالات میں اہلِ حجاز کے مشورے سے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہہ نے حجاز میں اپنی خلافت قائم کی اور یہاں کے تمام لوگوں نے ان کے ہاتھ پر برضا و رغبت بیعت کی۔ دوسری طرف اہلِ کوفہ نے ہزاروں کی تعداد میں خطوط لکھ کر حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی، یہ سب واقعات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ ابن اثیر ج۲، ص ۲۵۰، تاریخ طبری ج۴، ص ۲۲۵، الکامل لابن الاثیر، ج۲، ص ۵۰-۴۹ پر وہ تمام تفصیلات موجود ہیں جو اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ یزید حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہہ کا بیٹا ہونے کے علاوہ کسی لحاظ سے بھی اس قابل نہیں تھا کہ کوئی فرد یہ سوچتا کہ زمامِ اقتدار اس کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔
صائب رائے
حضرت احنف بن قیس کے بارے میں ابن الاثیر نے صراحت سے لکھا ہے کہ اگرچہ وہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہہ کے قریبی ساتھی تھے لیکن ان کی اس سوچ سے کہ وہ اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین مقرر کریں، انھیں سخت اختلاف تھا۔ جب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہہ نے ان سے اس موضوع پر رائے لینا چاہی تو انھوں نے صاف لفظوں میں فرمایا کہ آپ کے سامنے سچی بات کہتے ہوئے لوگ ڈرتے ہیں لیکن خداخوفی کا تقاضا ہے کہ بات سچی کی جائے۔ امیر المومنین! آپ بخوبی جانتے ہیں کہ یزید کی راتیں کہاں بسر ہوتی ہیں اور دن کیسے گزرتے ہیں۔ آپ کے سامنے اس کا ظاہر و باطن سب عیاں ہے۔ پھر آپ اسے کس طرح اپنا جانشین بنا رہے ہیں؟ ۔ کبار صحابہ کی مخالفت کے باوجود حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہہ نے اپنے نااہل بیٹے کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ البتہ تاریخ میں مذکور ہے کہ انھوں نے یزید کو کئی مرتبہ نصیحت کی کہ اگر کبھی حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہہ سے معاملہ پیش آجائے تو نرمی اور درگزر کا رویہ اپنانا۔ انھوں نے سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہہ کے مناقب بھی بیان کیے مگر مناقب بیان کرنے سے کیا ہوتا ہے جبکہ فیصلہ نااہل کے حق میں صادر ہوجائے۔
سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہہ اور اہل کوفہ
یزید کی خلافت پورے عالمِ اسلام میں قبول نہیں کی گئی تھی۔ اہل عراق، حجاز، مصر اور دیگر بہت سے علاقوں میں یزید کی مخالفت کی جارہی تھی۔ اہلِ کوفہ نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہہ کو نہ صرف خطوط لکھے بلکہ کئی وفود بھی ان کی خدمت میں بھیجے۔ ان لوگوں کے مسلسل اصرار اور پُر زور مطالبے پر آپ نے عراق کی طرف رختِ سفر باندھا۔ اس دوران مکہ، مدینہ اور پورے حجاز میں موجود صحابہ کرام یزید کی ناجائز حکومت اور سیدنا حسین کے سفرِ کوفہ پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ اکثر صحابہ کی رائے یہ تھی کہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہہ کو حجاز ہی میں مقیم رہنا چاہیے۔
اہلِ کوفہ کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہہ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہہ کے تایازاد بھائی اور بہنوئی حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ تعالی عنہہ کی جچی تلی رائے یہ تھی کہ وہ قابلِ اعتماد لوگ نہیں ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہہ نے اس کے باوجود کوفہ جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ جہاں تک انسانی تدبیر، حکمت اور دور اندیشی کا تعلق ہوسکتا ہے، حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہہ نے بلاشبہ اس کا اہتمام کیا تھا۔ انھوں نے خود کوفہ جانے سے قبل اپنے معتمد ساتھی اور تایا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ تعالی عنہہ کو کوفہ بھیجا۔ انھوں نے کوفہ جاکر حالات کا جائزہ لیا اور مفصل خط میں موافق اور سازگار حالات کی رپورٹ دی۔ بعد میں اچانک جو حالات نے پلٹا کھایا تھا، اس کی اطلاع سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہہ تک بروقت نہیں پہنچ پائی تھی۔ راستے میں ایک مقام پر آپ کو اس دور کا مشہور شاعر فرزدق ملا جو کوفہ سے آرہا تھا۔ وہ آپ کا بڑا مدّاح تھا۔ اس سے آپ نے وہاں کے احوال پوچھے تو اس نے واضح الفاظ میں کہا ”قلوب الناس معک وسیوفھم مع بنی امیہ“ (الکاملج۳، ص ۲۷۷) یعنی ان کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں بنو امیہ کے ساتھ ہوں گی۔ یہ ایسا مرحلہ تھا کہ اس رپورٹ پر یہاں سے راہِ فرار اختیار کرنا کمزوری کی دلیل بن جاتا۔
نعمان بن بشیر اور ابن زیاد
کوفہ میں بنو امیہ کی طرف سے حضرت نعمان بن بشیر گورنر تھے۔ ہر چند کہ گورنر دربارِ بادشاہت کا مقرر کردہ تھا مگر وہ خود بھی موروثی بادشاہت پر انشراحِ صدر نہیں رکھتا تھا۔ دوسری جانب بصرہ کا گورنر عبید اللہ بن زیاد، حضرت معاویہ کا معتمد ترین شخص تھا مگر ان کی وفات کے بعد یزید بوجوہ اس سے نالاں تھا اور معزول کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ حضرت مسلم بن عقیل کی بیعت کی اطلاعات گورنر ہاﺅس کے علاوہ دمشق کے شاہی دربار میں بھی پہنچ رہی تھیں۔
بنو امیہ نے جاسوسی کا ایک بہت موثر نظام قائم کر رکھا تھا اور کمال یہ ہے کہ دورِ جدید کی طرح عام طور پر کسی جاسوس کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہوتا تھا کہ یہ سرکاری کارندہ ہے۔ جاسوسوں کو بڑی بڑی رقوم سے نوازا جاتا تھا۔ جاسوسوں کے ذریعے حضرت نعمان بن بشیر کی شکایات مسلسل یزید کو مل رہی تھیں۔ کسی جاسوس نے ان سے ملاقات کرکے کہا کہ حکومت کے خلاف یہاں بغاوت ہو رہی ہے اور آپ گورنر ہوتے ہوئے خاموش ہیں۔ یا تو آپ کمزور ہیں یا آپ کے عزائم کچھ اور ہیں۔ نعمان بن بشیر جاسوس کے ارادوں کا ادراک نہ کرسکے اور انھوں نے کہا: میں گورنری کی قوت کو استعمال کرکے احکامِ الہٰی کے خلاف سرکشی اور خلقِ خدا پر ظلم نہیں ڈھاسکتا۔ جاسوس نے فوراً یہ اطلاع دمشق بھیج دی۔ اس پر یزید نے اپنے کچھ معتمد درباریوں سے مشورہ کیا تو انھوں نے اسے کہا کہ اگر آپ کے والد معاویہ رضی اللہ تعالی عنہہ آج زندہ ہوتے تو وہ ابن زیاد کی خدمات سے ضرور فائدہ اٹھاتے۔
بے وفا اور بزدل اہلِ کوفہ
ہانی بن عروہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہہ کے زبردست حامی تھے مگر اس جاسوس کی مخبری اور پھرگواہی کے بعد سخت خلجان کا شکار ہوگئے۔ اب وہ زخمی حالت میں یہ سب منظر دیکھ رہے تھے۔ انھیں قید کرنے اور حضرت مسلم بن عقیل کو پکڑنے ، قتل کرنے اور ان کا سر ابن زیاد کے سامنے پیش کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا۔ جس شخص نے یہ جاسوسی کی تھی، اس کا نام مورخین نے سرجون بیان کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے یزید نے دمشق سے ابن زیاد کے پاس بھیجا تھا۔ حضرت مسلم کو ہانی بن عروہ کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو انھوں نے اپنے حمایتیوں کو ساتھ لے کر مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ ان کے ساتھ ساڑھے تین چار ہزار کے لگ بھگ کوفی میدان میں نکل کھڑے ہوئے مگر جوں ہی ان بد بختوں نے بڑے بڑے سرداروں کو عبید اللہ بن زیاد کے محل میں دیکھا اور انھوں نے بالکونی سے اپنے اپنے قبیلے کے تمام لوگوں کو سرزنش کی تو آہستہ آہستہ یہ بدعہد حضرت مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ کر منتشر ہوگئے۔ آخر میں ان کے ساتھ صرف چند سو افراد رہ گئے۔
مسلم بن عقیل اور ان کے بچوں کی شہادت
حضرت مسلم نے یہ صورتِ حال دیکھی تو انھوں نے بھی شام کے وقت کسی محفوظ جگہ کی طرف نکلنا چاہا۔ اس دوران پورے شہر میں جاسوسی کا جال پھیلایا جاچکا تھا۔ اسی رات کو حضرت مسلم بن عقیل کو سرکاری جتھوں نے گرفتار کیا اور گورنر ہاﺅس لے آئے۔ حضرت مسلم کے دو کمسن بچے بھی شہید کر دیے گئے تھے۔ ابن زیاد نے حضرت مسلم کو دیکھتے ہی حکم دیا کہ اسے فی الفور قتل کردیا جائے۔ اس کا بے سر لاشہ محل کے سامنے پھینک دیا جائے۔ حضرت ہانی کو سولی پر چڑھانے کا حکم صادر ہوا۔ یوں ایک جانب یہ نقشہ یکسر بدل گیا مگر دوسری جانب حضرت حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہہ تک درست اطلاعات نہ پہنچ سکیں۔ وہ اس وقت تک حجاز سے حدودِ عراق میں داخل ہوچکے تھے۔ ان کے ساتھ کوئی بہت بڑا لشکر نہیں تھا۔ ان کے قافلے میں کچھ خواتین تھیں اور ڈیڑھ سو کے قریب ان کے اعیان و انصار تھے۔
یہ بات بھی تاریخ میں منقول ہے کہ قادسیہ کے قریب حر بن یزید آپ سے ملا اور اس نے کوفے کے حالات آپ کو بتائے۔ مسلم بن عقیل اور ان کے بچوں کی شہادت کی خبر بھی ملی۔ حر کی رائے یہ تھی کہ قافلے کو وہیں سے واپس پلٹ جانا چاہیے۔ حضرت حسین کا بھی اسی جانب میلان تھا مگر حضرت مسلم بن عقیل کے بھائیوں نے کہا کہ جب ہمارا بھائی قتل ہوگیا ہے تو ہم یہاں سے کیسے واپس جاسکتے ہیں۔ اصل بات تو یہی ہے کہ تقدیر ہر چیز پر غالب ہوتی ہے۔ حضرت حسین نے اپنا رخ کوفہ سے کربلا کی طرف موڑ لیا۔
راستے کی رکاوٹیں
راستے میں جگہ جگہ یزیدی دستوں نے قافلہ¿ اہلِ بیت کو روکنا چاہا مگر وہ کسی نہ کسی طرح کربلا تک آپہنچے۔ یہ 60ھ کے آخری دن تھے۔ اسی اثنا میں نئے سال کا ہلال طلوع ہوا۔ عمرو بن سعد بن ابی وقاص بنو امیہ کی حکومت میں ایک علاقے کا حاکم تھا۔ جب اسے ابن زیاد نے اس قافلے کو قتل کرنے کا حکم دیا تو شروع میں اس نے کافی پس و پیش کیا۔ آخر کار ابن زیاد کے دباﺅ کے تحت عمرو بن سعد نے اس جرم کا ارتکاب کر ہی ڈالا۔ جب عمرو بن سعد نے حضرت حسین کا راستہ روکنا چاہا تو آپ نے اسے بتایا کہ مجھے اہلِ عراق نے آنے کی دعوت دی، جس کے نتیجے میں میں حجاز سے چل کر یہاں آیا۔ آپ نے خطوط کا انبار بھی اس کے سامنے پیش کیا۔ عمرو بن سعد نے حضرت حسین کے دعوے کی تکذیب نہیں کی بلکہ کہا کہ اہلِ کوفہ نے آپ کو خطوط لکھے مگر اب وہ آپ کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ آپ کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ یزید کی بیعت کرلیں۔ حضرت حسین نے فرمایا کہ میں ایسا شخص نہیں ہوں جو دب کر بیعت کرلے۔ میں تمھارے سامنے تین شرائط پیش کرتا ہوں۔ طبری اور دیگر مورخین نے ان شرائط کا ذکر کیا ہے جو درج ذیل ہیں:
۱- مجھے چھوڑ دو کہ میں براہِ راست یزید کے پاس چلا جاﺅں اور خود اس سے معاملہ کروں۔
۲- مجھے چھوڑ دو کہ میں جہاں سے آیا ہوں، وہیں واپس چلا جاﺅں۔
۳- مجھے چھوڑ دو کہ میں کسی سرحد پر چلا جاﺅں۔
نواسہ¿ رسول کی جرا¿ت ایمانی
عمرو بن سعد نے امام کا موقف سننے کے بعد کسی حد تک نرمی کا اظہار کیا مگر کہا کہ وہ خود کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ اسے ابن زیاد سے منظوری لینا پڑے گی۔ جب ابن زیاد تک یہ پیغام پہنچا تو وہ آگ بگولہ ہوگیا اور اس نے سخت الفاظ میں عمرو بن سعد کو سرزنش کرتے ہوئے حکم دیا کہ یا تو حسین سے بیعت لویا اس کا سر قلم کر کے میرے دربار میں بھیجو۔ سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہہ کو جب اس صورتِ حال کا علم ہوا تو انھوں نے پوری جرا¿تِ ایمانی کے ساتھ فرمایا کہ اللہ کی قسم! میں سر تو کٹوا سکتا ہوں مگر زبردستی مجھ سے بیعت نہیں لی جاسکتی۔ اب وہ مرحلہ آگیا کہ جو تاریخ میں معروف ہے اور بے شک اس پر افراط و تفریط کے شکار لوگوں نے جتنے بھی ردے چڑھائے ہیں، بہر حال اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت حسین ابن علی اور ان کے ساتھیوں نے ایک بڑی قربانی پیش کی، جس کا مقصد آمریت و ملوکیت کا انکار اور اسلامی دستور کی اہم ترین شق خلافت و شورائیت کا تحفظ تھا۔ حضرت حسین کے ساتھی ایک ایک کرکے شہید ہوتے چلے گئے۔ آخر میں آپ تنہا رہ گئے۔ پانی تک رسائی بھی ممکن نہ تھی۔ گرمی کی حدت اور جنگ کی شدت، اس لمحے کی سختی اور دل دہلا دینے والا منظر، اس سب کچھ کے باوجود سیدنا حسین بن علی رضی اللہ تعالی عنہہ کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ وہ بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے مگر یزید کی ناجائز حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔”