وہ مسافر عرب کے صحرا میں اکیلا چلا جا رہا تھا۸ ہجری کے زمانے میں عرب کا وہ علاقہ جہاں مکہ اور مدینہ واقع ہےبڑا ہی خوفناک صحرا ہو اکرتا تھا۔ جلتا اور انسانوں کو جھلساتا ہوا ریگزار۔ ایک تو صحرا کی اپنی صعوبتیں تھیں دوسرا خطرہ رہزنوں کا تھا۔مسافر قافلوں کی صورت سفر کیا کرتے تھے لیکن یہ مسافر اکیلا چلا جا رہا تھا۔ وہ اعلیٰ نسل کے جنگی گھوڑے پر سوار تھا ۔اس کی زِرہ گھوڑے کی زین کے ساتھ بندھی ہوئی تھی۔اس کی کمر سے تکوار لٹک رہی تھی اور اس کے ہاتھ میں برچھی تھی۔اس زمانے میں مردوں کے قد دراز، سینے چوڑے اور جسم گٹھے ہوئے ہوتے تھے، یہ اکیلا مسافر بھی انہی مردوں میں سے تھا لیکن جس انداز سے وہ گھوڑے کی پیٹھ پہ بیٹھاتھا ‘اس سے پتا چلتا تھا کہ وہ شہ سوار ہے اور وہ کوئی معمولی آدمی نہیں، اس کے چہرے پہ خوف کا ہلکا سا بھی تاثر نہیں تھا کہ رہزن اسے لوٹ لیں گے‘ اس سے اتنی اچھی نسل کا گھوڑا چھین لیں گے اور اسے پیدل سفر کرنا پڑے گا لیکن اس کے چہرے پہ جو تاثر تھا وہ قدرتی نہیں تھا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا ،یادوں سے دل بہلا رہا تھا یا کچھ یادوں کو ذہن میں دفن کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔آگے ایک گھاٹی آ گئی۔ گھوڑا چڑھتا چلا گیا ۔خاصی بلندی پر جاکر زمین ہموار ہوئی۔ سوا ر نے گھوڑا روک کر اسے گھمایا اور رکابوں پر کھڑے ہوکر پیچھے دیکھا ۔اسے مکہ نظر نہ آیا ۔مکہ افق کے نیچے چلا گیا تھا ۔”ابو سلیمان !“۔اسے جیسے آواز سنائی دی ہو۔ ”اب پیچھے نہ دیکھو، مکہ کو ذہن سے اتار دو، تم مردِ میدان ہو اپنے آپ کو دو حصوں میں نہ کٹنے دو،اپنے فیصلے پر قائم رہو،تمہاری منزل مدینہ ہے۔“اس نے مکہ کی سمت سے نگاہیں ہٹا لیں ۔گھوڑے کا رخ مدینہ کی طرف کیا اور باگ کو ہلکا سا جھٹکا دیا ۔گھوڑا اپنے سوار کے اشارے سمجھتا تھا ۔نپی تلی چال چل پڑا۔ سوار کی عمر 43 برس تھی لیکن وہ اپنی عمر سے جوان لگتا تھا۔” سلیمان “اس کے بیٹے کا نام تھا۔ اس کے باپ کانام” الولید“ تھا لیکن سوار نے ”خالد بن ولید “کے بجائے ”ابو سلیمان “کہلانا زیادہ پسند کیا۔ اسے معلوم نہ تھا کہ تاریخ اسے ”خالد بن ولید“ کے نام سے یاد رکھے گی اور یہ نام اسلام کی عسکری روایات اور جذبے کا دوسرا نام بن جائے گا۔ مگر 43 برس کی عمر میں جب خالد مدینے کی طرف جا رہا تھا اس وقت وہ مسلمان نہیں تھا ۔چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کے علاوہ وہ مسلمانوں کے خلاف دو بڑی جنگےں ”جنگِ احد اور جنگِ خندق“ لڑ چکا تھا۔جب رسولِ کریم ﷺ پر 610 ءبروز سوموار پہلی وحی نازل ہوئی اس وقت خالد کی عمر 24سال تھی۔

اُس وقت تک وہ اپنے قبیلے بنو مخزوم کی عسکری قوت کا قائد بن چکا تھا۔ بنو مخزوم کا شمار قریش کے چند ایک معزز خاندانوں میں ہوتا تھا ۔قریش کے عسکری امور اسی خاندان کے سپرد تھے ۔قریش خالد کے باپ الولید کے احکام اور فیصلے مانتے تھے۔ 24 برس کی عمر میں یہ حیثیت خالد کو بھی حاصل ہو گئی تھی مگر اس حیثیت کو ٹھکرا کر خالد ابو سلیمان مدینے کو جا رہا تھا۔کبھی وہ محسوس کرتا جیسے اس کی ذات سے کوئی قوت اسے پیچھے کو گھسیٹ رہی ہو۔ جب وہ اس قوت کے اثر کو محسوس کرتا تو اس کی گردن پیچھے کو مڑ جاتی لیکن اس کی اپنی ذات سے ایک آواز اٹھتی ۔”آگے دیکھ خالد! تو ولید کا بیٹا تو ہے لیکن وہ مر گیا ہے اب تو سلیمان کا باپ ہے ۔وہ زندہ ہے۔“اس کے ذہن میں دو نام اٹک گئے” محمد(رسول اﷲﷺ) جو ایک نیا دین لے کر آئے تھے اور الولید “جو خالد کا باپ اور محمدﷺ اور آپﷺ کے نئے دین کا بہت بڑا دشمن تھا ۔باپ یہ دشمنی ورثے کے طور پہ خالد کے حوالے کر کے دنیا سے اٹھ گیا تھا۔خالد کے گھوڑے نے پانی کی مشک پر اپنے آپ ہی رخ بدل لیا تھا۔ خالد نے اُدھر دیکھا اسے گول دائرے میں کھجوروں کے درخت اور صحرا کے جھاڑی نما درخت نظر آئے گھوڑا اُدھر ہی جا رہا تھا۔نخلستان میں داخل ہو کر خالد گھوڑے سے کود گیا۔ عمامہ اتار کر وہ پانی کے کنارے دو زانو ہو گیا ۔اس نے پانی چلو بھر بھر کر اپنے سر پر ڈالا اور دو چار چھینٹے منہ پر پھینکے ۔اس کا گھوڑا پانی پی رہا تھا۔ خالد نے اس چشمہ سے پانی پیا جو صرف انسانوں کے استعمال کیلئے تھا ۔یہ ایک چھوٹا سا جنگل تھا ۔خالد نے گھوڑے کی زِین اتاری اور زِین کے ساتھ بندھی ہوئی چھوٹی سی ایک دری کھول کر جھاڑی نما درختوں کے جھنڈ تلے بچھائی اور لیٹ گےا۔وہ تھک گیا تھا ۔تھوڑی دیر کیلئے سو جانا چاہتا تھا مگر اس کے ذہن میں یادوں کا جو قافلہ چل پڑا تھا وہ اسے سونے نہیں دے رہا تھا۔ اسے سات سال پہلے کا ایک دن یاد آیا جب اس کے عزیزوں نے محمدﷺ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اس منصوبے میں خالد کا باپ الولید پیش پیش تھا۔وہ ستمبر 622ءکی ایک رات تھی ۔قریش نے رسولِ خداﷺ کو سوتے میں قتل کرنے کیلئے ایسے آدمی چنے تھے جو انسانوں کے روپ میں وحشی اور درندے تھے۔ خالد قریش کے سرکردہ خاندان کا جوان تھا اس وقت اس کی عمر ستائیس سال تھی ۔وہ حضورﷺ کے قتل کی سازش میں شریک تھا لیکن وہ قتل کے لئیے جانے والوں کے گروہ میں شامل نہیں تھا۔ اسے سات سال پہلے کی وہ رات گزرے ہوئے کل کی طرح یاد تھی ۔

وہ اس قتل پر خوش بھی تھا اور ناخوش بھی، خوش اس لیے کہ اس کے اپنے قبیلے کے ہی ایک آدمی نے اس کے مذہب کو جو بت پرستی تھی‘ باطل کہہ دیا اور اپنے آپ کو خدا کا پیغمبر کہہ دیا ۔ایسے دشمن کے قتل پر خوش ہونا فطری بات تھی۔اور وہ ناخوش اس لیے تھا کہ وہ اپنے دشمن کو للکار کر آمنے سامنے کی لڑائی لڑنے کا قائل تھا ۔اس نے سوئے ہوئے دشمن کو قتل کرنے کی کبھی سوچی ہی نہیں تھی بہرحال اس نے اس سازش کی مخالفت نہیں کی۔ لیکن قتل کی رات جب قاتل رسولِ خدا کو مقررہ وقت پر قتل کرنے گئے تو آپﷺ کا مکان خالی تھا۔ وہاں گھر کا سامان بھی نہیں تھا نہ آپﷺ کا گھوڑا تھا نہ اونٹنی ۔ قریش اس امید پر سوئے ہوئے تھے کہ صبح انہیں خوشخبری ملے گی کہ ان کے مذہب کو جھٹلانے اور انہیں اپنے نئے مذہب کی طرف بلانے والا قتل ہو گیاہے مگر صبح وہ ایک دوسرے کو مایوسی کے عالم میں دیکھ رہے تھے ۔پھر وہ سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے ”محمد کہاں گیا؟“رسولِ خداﷺقتل کے وقت سے بہت پہلے اپنے قتل کی سازش سے آگاہ ہوکر یثرب (مدینہ) کوہجرت کر گئے تھے۔ صبح تک آپ ﷺبہت دور نکل گئے تھے۔ خالد کے ذہن سے یادیں پھوٹتی چلی آ رہی تھیں۔ ذہن پیچھے ہی پیچھے ہٹتے ہٹتے سولہ برس دور جا نکلا613ءکی ایک شام رسولِ کریمﷺ نے قریش کے چند ایک سرکردہ افراد کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا،کھانے کے بعد رسولِ کریمﷺ نے اپنے مہمانوں سے کہا:”اے بنی عبدالمطلب! میں تمہارے سامنے جو تحفہ پیش کرنے لگا ہوں وہ عرب کا کوئی اور شخص پیش نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ اﷲ نے مجھے منتخب کیا ہے ۔مجھے اﷲ نے حکم دیا ہے کہ تمہیں ایک ایسے مذہب کی طرف بلائو ں جو تمہاری دنیا کے ساتھ تمہاری عاقبت بھی آسودہ اور مسرور کر دے گا۔“ اس طرح رسولِ خدا ﷺ نے پہلی وحی کے نزول کے تین سال بعد اپنے قریبی عزیزوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔خالد اس محفل میں نہیں تھا۔ اس کا باپ مدعو تھا۔ اس نے خالد کو مذاق اڑانے کے انداز میں بتایا تھا کہ عبد المطلب کے پوتے محمد (ﷺ)نے کہا ہے کہ کہ وہ اﷲ کا بھیجا ہوا نبی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ عبدالمطلب قریش کا ایک سردار تھا۔ الولید نے اپنے بیٹے خالد سے کہا ”بےشک محمد کا خاندان اعلیٰ حیثیت رکھتا ہے لیکن نبوت کا دعویٰ اس خاندان کا کوئی فرد کیوں کرے؟ اﷲ کی قسم اور ہبل اور عزیٰ کی‘ میرے خاندان کا رتبہ کسی سے کم نہیں ،کیا نبوت کا دعویٰ کرکے کوئی ہم سے اونچا ہو سکتا ہے ؟‘

”آپ نے اسے کیا کہاہے؟“خالد نے پوچھا۔”پہلے تو ہم چپ ہو گئے۔ پھر ہم سب ہنس پڑے۔“الولید نے کہا۔” لیکن محمد کے چچا زاد بھائی علی نے محمد کی نبوت کو قبول کر لیا ہے۔“
خالد اپنے باپ کی طنزیہ ہنسی کو بھولا نہیں تھا۔خالد کو629ءکے ایک روز مکہ اور مدینہ کے راستے میں ایک نخلستان میں لیٹے ہوئے وہ وقت یاد آ رہا تھا۔ رسول اﷲﷺ جن کی نبوت کو قریش کے سردار قبول نہیں کر رہے تھے ۔اس نبوت کو لوگ قبول کرتے چلے جا رہے تھے۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی تھی ۔بعض مفلس لوگوں نے بھی اسلام قبول کرلیا ۔اس سے نبی کریمﷺ کے حوصلے میں جان آ گئی اور آپﷺ نے اسلام کی تبلیغ تیز کردی ۔آپﷺ بت پرستی کے خلاف تھے ۔مسلمان ان تین سو ساٹھ بتوں کا مذاق اڑاتے تھے جو کعبہ کے اندر اور باہر رکھے ہوئے تھے۔طلوعِ اسلام سے پہلے عرب ایک خدا کو مانتے تھے اور پوجتے ان بتوں کو تھے انہیں وہ دیویاں اور دیوتا کہتے اور انہیں اﷲ کے بیٹے اور بیٹیاں مانتے تھے ۔وہ ہر بات میں اﷲ کی قسم کھاتے تھے۔قریش نے دیکھا کہ محمد ﷺکے جس دین کا انہوں نے مذاق اڑایا تھا وہ مقبول ہوتا جارہا ہے تو انہوں نے آپﷺ کی تبلیغی سرگرمیوں کے خلاف محاذ بنالیا اور مسلمانوں کا جینا حرام کر دیا۔خالد کو یاد آ رہا تھا کہ اس نے اﷲ کے رسولﷺ کو گلیوں اور بازاروں میں لوگوں کو اکھٹا کرکے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے اور بتاتے دیکھا تھا کہ بت انہیں نہ فائدہ دے سکتے ہیں نہ نقصان ۔عبادت کے لائق صرف اﷲ ہے جو وحدہ لا شریک ہے۔رسولِ خدا ﷺ کی مخالفت کے قائد قریش کے چار سردار تھے۔ ایک تو خالد کا باپ الولید تھا ۔دوسرا نبی کریمﷺ کا اپنا چچا ابو لہب تھا ،تیسرا ابو سفیان اور چوتھا ابوالحکم تھا، جو خالد کا چچا زاد بھائی تھا۔ مسلمانوں پر سب سے زیادہ ظلم و تشدد اسی شخص نے کیا تھا، وہ جہالت کی حد تک کینہ پرور اور مسلم کش تھا اسی لیے مسلمان اسے” ابو جہل “کہنے لگے تھے ۔یہ نام اتنا عام ہوا کہ لوگ جیسے اس کا اصل نام بھول ہی گئے ہوں۔ تاریخ نے بھی اس پستہ قد، بھینگے اور لوہے کی طرح مضبوط آدمی کو ”ابو جہل “کے نام سے ہی یاد رکھا ہے۔خالد کو یہ یادیں پریشان کرنے لگیں ۔شاید شرمسار بھی۔ قریش کے لوگوں نے رسولِ خداﷺ کے گھرمیں کئی بارغلاظت پھینکی تھی۔ جہاں کوئی مسلمان اسلام کی تبلیغ کررہا ہوتا وہاں قریش کے آدمی جا پہنچتے اور ہلڑ مچاتے تھے ۔بد اخلاق اور دھتکارے ہوئے آدمیوں کو رسولِ خداﷺ کو پریشان کرتے رہنے کے کام پر لگا دیا گیا تھا ۔

خالد کو یہ اطمینان ضرور تھا کہ اس کے باپ نے محمدﷺ کے خلاف ایسی کوئی گھٹیا حرکت نہیں کی تھی ۔وہ دو مرتبہ قریش کے تین چار سرداروں کو ساتھ لے کر رسولِ خداﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس یہ کہنے گیا تھا کہ وہ اپنے بھتیجے (رسولِ خداﷺ کو)بتوں کی توہین اور نبوت کے دعویٰ سے روکے ،ورنہ وہ کسی کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا۔ ابو طالب نے ان لوگوں کو دونوں مرتبہ ٹال دیا تھا۔خالد کو اپنے باپ کی بہت بڑی قربانی یاد آئی ۔”عمارہ“ خالد کا بھائی تھا ۔وہ خاص طور پر خوبصورت نوجوان تھا ۔وہ ذہین تھا اور اس میں بانکپن تھا۔ خالد کے باپ الولید نے اپنے اتنے خوبصورت بیٹے عمارہ کو قریش کے دو سرداروں کے حوالے کیا اور انہیں کہا کہ اسے محمد کے چچا ابو طالب کے پاس لے جائو اور اس سے کہو کہ میرا بیٹا رکھ لو اور اس کے بدلے محمد (ﷺ)ہمیں دے دو۔ خالد اپنے باپ کے اس فیصلے پر کانپ اٹھا تھا اور جب اس کا بھائی عمارہ دونوں سرداروں کے ساتھ چلا گیا تھا تو خالد تنہائی میں جا کر رویا تھا۔”ابو طالب !“۔سرداروں نے عمارہ کو رسولِ کریم (ﷺ)کے چچا کے آگے کرکے کہا تھا۔” اسے تم جانتے ہو؟یہ عمارہ بن الولید ہے ۔تم یہ بھی جانتے ہو گے کہ بنو ہاشم نے جس کے تم سردار ہو، ابھی تک اس جیسا سجیلا اور عقلمند جوان پیدا نہیں کیا ۔یہ ہم ہمیشہ کیلئے تمہارے حوالے کرنے آئے ہیں۔ اسے اپنا بیٹا بنا کر رکھو گے تو یہ تمام عمر فرمانبردار رہے گا اور اگر اسے اپنا غلام بنائو گے تو قسم ہے اﷲ کی ‘تم پر اپنی جان بھی قربان کردے گا ۔“”مگر تم اسے میرے حوالے کیوں کررہے ہو؟“ابو طالب نے پوچھا ۔”کیا بنو مخزوم کی مائوں نے اپنے بیٹوں کو نیلام کرنا شروع کردیا ہے؟کہو‘اس کی کتنی قیمت چاہتے ہو؟“”اس کے عوض ہمیں اپنا بھتیجا محمد (ﷺ)دے دو۔“قریش کے ایک سردار نے کہا:” تمہارا یہ بھتیجا تمہاری رسوائی کا باعث بن گیاہے ۔اس نے تمہارے آبائو اجداد کے مذہب کو رد کرکے نیا مذہب بنا لیا ہے۔کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ اس نے قبیلے میں آدمی کو آدمی کا دشمن بنا دیا ہے۔“
” تم میرے بھتیجے کو لے جا کر کیا کرو گے؟“ ”قتل۔“ قریش کے دوسرے سردار نے جواب دیا۔ ”ہم محمد(ﷺ) کوقتل کریں گے ۔یہ بے انصافی نہیں ہوگی ۔تم دیکھ رہے ہو کہ ہم تمہارے بھتیجے کے بدلے تمہیں اپنا بیٹا دے رہے ہیں ۔”یہ بہت بڑی بے انصافی ہو گی۔“ابو طالب نے کہا ۔”تم میرے بھتیجے کو قتل کرو گے اور میں تمہارے بیٹے کو پالوں گا اور اس پر خرچ کروں گا اور اسے بہت اچھی زندگی دوں گا ؟تم میرے پاس کیسا انصاف لے کر آئے ہو؟میں تمہیں عزت سے رخصت کرتا ہوں ۔“خالد نے جب اپنے بھائی کو اپنے سرداروں کے ساتھ واپس آتے دیکھا اور سرداروں سے سنا کہ ابو طالب نے یہ سودا قبول نہیں کیا تو خالد کو دلی مسرت ہوئی تھی۔

”محمد ﷺکا تم نے کیا بگاڑ لیا تھا ابو سلیمان؟ “خالد کی ذات سے ایک سوال اٹھا۔ اس نے خیالوں ہی خیالوں میں سر ہلایا اور دل ہی دل میں کہا :”کچھ نہیں ۔بے شک محمد(ﷺ) کا جسم طاقتور ہے لیکن رکانہ بن عبد یزید جیسے پہلوان کو اٹھا کر پٹخنے کیلئے صرف جسمانی طاقت کافی نہیں ۔“رکانہ بن عبدیزید رسولِ کریمﷺ کا چچاتھا جس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ یہ عرب کا مانا ہوا پہلوان تھا۔نا می گرامی پہلوان آئے جنہیں اس نے ایک ہی داؤ میں پٹخ کر اٹھنے کے قابل نہ چھوڑا ،وہ وحشی انسان تھا۔ صرف لڑنا مارنا جانتا تھا۔خالد کو وہ وقت یاد آنے لگا جب مسلمانوں کو دِق کرنے والے تین چار آدمیوں نے ایک دن رکانہ پہلوان کو خوب کھلایاپلایا اور اسے کہا تھا کہ” تمہارا بھتیجا محمد (ﷺ)کسی کے ہاتھ نہیں آتا ۔نہ اپنی تبلیغ سے باز آتا ہے نہ کسی سے ڈرتا ہے اور لوگ اس کے باتوں کے جادو میں آتے چلے جا رہے ہیں ۔کیا تم اسے سیدھا نہیں کر سکتے ؟“”کیا تم میرے ہاتھوں اس کی ہڈیاں تڑوانا چاہتے ہو؟“رکانہ نے اپنے چہرے پر مست بھینسے کا تاثر پیدا کرکے تکبر کے لہجے میں کہا تھا ۔”لاؤ اسے میرے مقابلے پہ ،لیکن وہ میرا نام سن کر مکہ سے بھاگ جائے گا۔نہیں نہیں۔ میں اس کے ساتھ لڑنا اپنی توہیں سمجھتا ہوں ۔“اس نے اکسانے والے آدمیوں کی بات نہ مانی ۔وہ کسی پہلوان کو اپنے برابر سمجھتا ہی نہیں تھا۔مسلمانوں کے دشمن خاموش ہو گئے لیکن سوچتے رہے کہ رسول ِخداﷺ کو رکانہ کے ہاتھوں گرا کر آپ (ﷺ)کا تماشہ بنایا جائے۔مکہ کے یہودی خاص طورپر رسولِ اکرمﷺ کے دشمن تھے ۔لیکن وہ کھل کر میدان میں نہیں آتے تھے ۔وہ خوش تھے کہ اہلِ قریش آپس میں بٹ کر ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے ہیں۔ انہیں پتا چل گیا کہ قریش کے کچھ آدمیوں نے رکانہ پہلوان کو اکسایا ہے کہ وہ رسولِ خداﷺ کو کشتی کیلئے للکارے ۔لیکن وہ نہیں مان رہا تھا۔ ایک روز رکانہ رات کے وقت ایک گلی سے گزر رہا تھا کہ اس کے قریب سے ایک بڑی حسین اور جوان لڑکی گزری۔چاندنی رات میں لڑکی نے رکانہ کو پہچان لیا اور مسکرائی ۔رکانہ وحشی تھا ۔وہ رک گیا اور لڑکی کا راستہ روک لیا۔”کیا تم جانتی ہو کہ عورت مرد کی طرف دیکھ کر مسکراتی ہے تو اس کامطلب کیا ہوتا ہے؟“رکانہ پہلوان نے پوچھا :”کون ہو تم؟“
”اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عورت اس مرد کو چاہتی ہے۔“اس جوان لڑکی نے جواب دےا ۔”میں سبت بنت ارمن ہوں۔“

”اوہ۔ارمن یہودی کی بیٹی۔“رکانہ نے کہا اور لڑکی کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے قریب کرکے بولا۔”کیا میرا جسم تجھے اتنا اچھا لگتا ہے اور کیا میری طاقت ۔“”تمہاری طاقت نے مجھے مایوس کردیا ہے ۔“سبت نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا ۔”تم اپنے بھتیجے محمد سے ڈرتے ہو ۔“”کون کہتا ہے؟“رکانہ نے گرج کر پوچھا۔”سب کہتے ہیں ۔“سبت نے کہا۔” پہلے محمد کو گراؤ۔ میں اپنا جسم تمہیں انعام میں دوں گی۔ “”اﷲ کے بیٹوں اور بیٹیوں کی قسم !تیری بات پوری کرکے تیرے سامنے آؤں گا۔“رکانہ نے کہا۔”لیکن تو نے غلط سنا ہے کہ میں محمد سے ڈرتا ہوں ۔بات یہ ہے کہ میں اپنے سے کمزور کے ساتھ لڑنا اپنی توہین سمجھتا ہوں لیکن تیری بات پوری کروں گا۔“مشہور مؤرخ ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے خود رکانہ پہلوان کوکشتی کیلئے للکارا تھا لیکن دوسرے مؤرخ ابن الاثیر نے جو شہادت پیش کی ہے وہ صحیح ہے کہ رکانہ نے محمدﷺ کو کشتی کیلئے للکارا اور اس نے کہا تھا:”میرے بھائی کے بیٹے !تم بڑے دل اور بڑی جرات والے آدمی ہو۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم جھوٹ بولنے سے نفرت کرتے ہو۔لیکن مرد کی جرات اور صداقت کا پتا اکھاڑے میں چلتا ہے۔آؤ میرے مقابلے میں اکھاڑے میں اترو۔ اگر مجھے گرا لو تو میں تمہیں اﷲ کا بھیجا ہوا نبی مان لوں گا،اﷲ کی قسم !تمہارا مذہب قبول کرلوں گا۔“”لیکن یہ ایک بھتیجے اور چچا کی کشتی نہیں ہو گی۔“ رسولِ خداﷺ نے رکانہ کی للکار کے جواب میں کہا ۔”ایک بت پرست اور سچے دین کے ایک پیغمبر کی لڑائی ہو گی،تو ہار گیا تو اپنا وعدہ نہ بھول جانا۔“مکہ میں یہ خبر صحرا کی آندھی کی طرح پھیل گئی کہ رکانہ پہلوان اور محمد(ﷺ) کی کشتی ہو گی اور جو ہار جائے گا وہ جیتنے والے کا مذہب قبول کر لے گا۔قریش کا بچہ بچہ مردوزن اور یہودی ہجوم کرکے آ گئے۔ مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی ۔وہ تلواروں اور برچھیوں سے مسلح ہو کر آئے ۔کیونکہ انہیں خطرہ محسوس ہو رہا تھا کہ قریش کشتی کو بہانہ بنا کر رسولِ خداﷺ کو قتل کر دیں گے۔“ عرب کا سب سے زیادہ طاقتور اور وحشی پہلوان رکانہ بن عبد یزید رسولِ کریمﷺ کے مقابلے پہ اترا۔ اس نے رسول ِ خداﷺ پر طنزیہ نظر ڈالی اور آپﷺ پر پھبتی کسی۔ آپﷺ مکمل خاموشی اور اطمینان سے رکانہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کردیکھتے رہے کہ وہ بے خبری میں کوئی داؤ نہ کھیل جائے۔

رِکانہ آپ (ﷺ)کے اردگرد یوں گھوما جیسے شیر اپنے شکار کے اردگرد گھوم گیا ہو اور اب اسے کھا جائے گا۔ ہجوم رسولِ اکرمﷺ کا مذاق اڑا رہا تھا۔ مسلمان خاموش تھے وہ دل ہی دل میں اﷲ کو یاد کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی تلواروں کے دستوں پہ ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔پھر نہ جانے کیا ہوا؟رسول ِاکرم ﷺ نے کیاداؤکھیلا؟ابن الاثیر کہتا ہے کہ آپﷺ نے رکانہ کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔ رکانہ زخمی شیر کی طرح اٹھا اور غرا کر آپﷺ پر حملہ آور ہوا۔آپﷺ نے پھر وہی داؤ کھیلا اور اسے پٹخ دیا۔ وہ اٹھا تو آپﷺ نے اسے تیسری بار پٹخا۔ بھاری بھرکم جسم تین بار پٹخا گیا تو کشتی جاری رکھنے کے قابل نہ رہا۔ رکانہ سر جھکا کر اکھاڑے سے نکل گیا۔ ہجوم پر سناٹا طاری ہو گیا اور مسلمان ننگی تلواریں اور برچھیاں ہوا میں لہرا لہرا اور اچھال اچھال کر نعرے لگا رہے تھے۔”چچا رکانہ۔“ رسول اﷲﷺ نے للکار کر کہا۔” اپنا وعدہ پورا کر اور یہیں اعلان کر کہ آج سے تو مسلمان ہے۔“رکانہ نے قبولِ اسلام سے صاف انکار کر دیا۔”یہ طاقت جسمانی نہیں تھی ۔“خالد نے نخلستان میں لیٹے لیٹے اپنے آ پ سے کہا۔ ”رکانہ کو یوں تین بار پٹخنا تو دور کی بات ہے۔ اسے کوئی پچھاڑ بھی نہیں سکا تھا۔“رسولِ اکرمﷺ کا تصور خالد کے ذہن میں نکھر آیا ۔وہ آپ(ﷺ) کو اچھی طرح سے جانتا تھا لیکن اب وہ محسوس کر رہاتھا جیسے وہ محمدﷺ کوئی اور تھے جنہیں وہ بچپن سے جانتا تھا۔ا س کے بعد آپ ﷺنے جو رخ اختیار کیا تھاا س میں خالد آپ ﷺکو نہیں پہچانتا تھا ۔نبوت کے دعویٰ کے بعد خالد کی آپﷺ کے ساتھ بول چال بند ہو گئی تھی۔ وہ آپ ﷺکے ساتھ دو دو ہاتھ کرنا چاہتا تھا ۔لیکن وہ رکانہ کی طرح پہلوان نہیں تھا۔ وہ میدانِ جنگ میں لڑنے والا اور لڑنے والوں کی قیادت کرنے والا جنگجو تھا لیکن اس وقت مسلمان فوج کی صورت میں لڑنے کے قابل نہیں تھے۔
جب مسلمان فوج کی صورت میں لڑنے کے قابل ہوئے اور قریش کے ساتھ ان کا پہلا معرکہ ہوا ۔اس وقت خالد کیلئے ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ وہ اس معرکے میں شامل نہیں ہو سکا تھا ۔ا سکا اسے بہت افسوس تھا ۔یہ معرکہ بدر کا تھا جس میں تین سو تیرہ مجاہدینِ اسلام نے ایک ہزار قریش کو شکست دی تھی۔خالد دانت پیستا رہ گیا تھا لیکن اس روز جب وہ اس نخلستان میں لیٹا ہوا تھا اسے خیال آیا کہ تین سو تیرہ نے ایک ہزار کو کس طرح سے شکست دے دی تھی؟

اس نے شکست کھاکہ آنے والوں سے پوچھا تھا کہ مسلمانوں میں وہ کون سی خوبی تھی جس نے انہیں فتح iاب کیا تھا؟ خالد اٹھ بیٹھا اور انگلی سے ریت پر بدر کے میدان کے خدوخال بنا کر قریش اور مسلمانوں کی پوزیشنیں اور معرکے کے دوران دونوں کی چالوں کی لکیریں بنانے لگا۔ باپ نے اسے فنِ حرب و ضرب کا ماہر بنادیا تھا۔ بچپن میں اسے گھڑ سواری سکھائی،لڑکپن میں اسے اکھڑ اور منہ زور گھوڑوں کو قابو میں لانے کے قابل بنایا۔ نوجوانی میں وہ شہسوار بن چکا تھا ،شتر سواری میں بھی وہ ماہر تھا۔ اس کا باپ ہی اس کا استاد تھا ۔اس نے خالد کو نا صرف سپاہی، بلکہ سالار بنایا تھا۔ خالد کو جنگ و جدل اتنی اچھی لگی کہ وہ لڑنے اور لڑانے کے طریقوں پر غورکرنے لگااور جوانی میں فوج کی قیادت کے قابل ہو گیا تھا۔اسے بدر کی لڑائی میں شامل نہ ہو سکنے کا افسوس تھا اور وہ انتقام کے طریقے سوچتا رہتا تھا لیکن اب اس کی سوچوں کا دھارا اور طرف چل پڑا تھا ۔مکہ سے روانگی سے کچھ عرصہ پہلے سے وہ اس سوچ میں کھو گیا تھا کہ رسولِ اکرمﷺ نے رکانہ پہلوان کو تین بار پٹخاتھا ۔بدر میں آپ ﷺنے محض تین سو تیرہ مجاہدین سے ایک ہزار کو شکست دی،یہ کوئی اور ہی قوت تھی لیکن بدر کے معرکے کے بعد اس کے دل میں مسلمانوںکے خلاف انتقام کی آگ سلگ رہی تھی۔مسلمان معرکہ بدر میں قریش کے بہت سے آدمیوں کو قیدی بنا کر لے گئے تھے ۔قریش کے سرداروں کیلئے تو یہ صدمہ تھا ہی ،اس کا بہت برا اثر خالد نے قبول کیا تھا ۔اسے یاد تھا کہ جب بدر کا معرکہ لڑا جا رہا تھا اور مکہ میں کوئی خبر نہیں پہنچ رہی تھی کہ معرکہ کا انجام کیا ہوا، مکہ کے لوگ بدر کی سمت دیکھتے رہتے تھے کہ ادھر سے کوئی سوار دوڑا آئے گا اور فتح کی خبر سنائے گا۔آخر ایک روز ایک شتر سوار آتا نظر آیا۔ لوگ اسکی طرف دوڑ پڑے ۔سوار نے عرب کے رواج کے مطابق اپنا کرتا پھاڑ دیا تھا اور وہ روتا آ رہا تھا۔ بری خبر لانے والے قاصد ایسے ہی کیا کرتے تھے ۔وہ جب لوگوں کے درمیان پہنچا تو اس نے روتے ہوئے بتایا کہ اہلِ قریش کو بہت بری شکست ہوئی ہے ۔جس کے عزیز رشتے دار لڑنے گئے تھے وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھ بڑھ کر ان کے متعلق پوچھتے تھے کہ وہ زندہ ہیں ،زخمی ہیں یا مارے گئے ہیں ؟شکست خوردہ قریش پیچھے آ رہے تھے۔ مارے جانے والوں میں سترہ افراد خالد کے قبیلے بنو مخزوم کے تھے اور ان سب کے ساتھ خالد کا خون کا بڑا قریبی رشتہ تھا۔ ابو جہل بھی مارا گیا تھا۔ خالد کا بھائی جس کا نام ولید تھا جنگی قیدی بن گیا تھا۔ابو سفیان جو کہ قریش کے سرداروں کا سردار تھا اور ا س کی بیوی ہند بھی موجود تھے ۔”کچھ میرے باپ اور میرے چچا کے متعلق بتا اے قاصد!“ ہند نے پوچھا۔”تمہاراباپ عتبہ ،علی اور حمزہ کے ہاتھوں مارا گیا ۔“قاصد نے کہا ۔”اور تمہارے چچا شیبہ کو اکیلے حمزہ نے قتل کیا ہے اورتمہارا بیٹا حنظلہ علی کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ “

ابو سفیان کی بیوی ہند نے پہلے تو علی اور حمزہ کو بلند آواز سے برا بھلا کہا پھر بولی۔” اﷲ کی قسم! میں اپنے باپ اور اپنے چچا اور اپنے بیٹے کے خون کا بدلہ لوں گی۔“ابو سفیان پر خاموشی طاری تھی۔خالد کا خون کھول رہا تھا۔ قریش کے ستر آدمی مارے گئے تھے اور جو جنگی قیدی ہوئے تھے ان کی تعداد بھی اتنی ہی تھی ۔خالد اٹھا ۔دری جھاڑکر لپیٹی اور گھوڑے کی زِین کے ساتھ باندھ کر سوار ہوا اور مدینہ کی سمت چل پڑا۔اس نے ذہن کو یادوں سے خالی کر دینا چاہا لیکن اس کا ذہن مدینہ پہنچ جاتا جہاں رسول اﷲﷺ تھے اور جو تبلیغِ اسلام کا مرکز بن گیا تھا۔ آپﷺ کا خیال آتے ہی اس کا ذہن پیچھے چلا جاتا اور اسے وہ منظر دکھاتا جس کے خالق حضورﷺ تھے۔اس کے ذہن میں ہند کے الفاظ یادآ ئے جو اس نے اپنے خاوند ابو سفیان سے کہے تھے: ”میں اپنے باپ اور چچا کو بھول سکتی ہوں۔“ ہند نے کہا تھا ۔”کیا میں اپنے لختِ جگر حنظلہ کو بھی بھول جاؤں؟ ماں اپنے بیٹے کو کیسے بھول سکتی ہے ؟اﷲکی قسم !میں محمد کو اپنے بیٹے کا خون معاف نہیں کروں گی۔یہ لڑائی محمد نے کرائی ہے۔ میں حمزہ اور علی کو نہیں بخشوں گی ۔وہ میرے باپ، میرے چچا اور میرے بیٹے کے قاتل ہیں۔“”میرے خون کو صرف میرے بیٹے کا قتل گرمارہا ہے ۔“ابو سفیان نے کہا تھا۔” مجھ پر اپنے بیٹے کے خون کا انتقام فرض ہو گیا ہے۔ میں سب سے پہلے یہ کام کروں گا کہ محمد کے خلاف زبردست فوج تیار کرکے اسے آئندہ لڑنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔“ مشہور مؤرخ اور وقائع نگار واقدی لکھتا ہے کہ اگلے ہی روز ابو سفیان نے تمام سرداروں کو بلایا ۔ان میں زیادہ تعداد ان سرداروں کی تھی جو کسی نہ کسی وجہ سے جنگِ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے اور ا ن میں سے ہر ایک کا کوئی نہ کوئی عزیز اس جنگ میں مارا گیا تھا۔ سب انتقام کاارادہ لے کر اکھٹے ہوئے ۔کیا مجھے زیادہ باتیں کرنے کی ضرورت ہے ؟ابو سفیان نے کہا۔” میرا اپنا جوان بیٹا مارا گیا ہے۔ اگر میں انتقام نہیں لیتا تو مجھے جینے کا کوئی حق نہیں۔“سب ایک ہی بار بولنے لگے۔ وہ اس پر متفق تھے کہ مسلمانوں سے بدر کی شکست کا انتقام لیا جائے ۔
”لیکن آپ میں سے کوئی بھی اپنے گھر میں نہ بیٹھا رہے ۔“خالد نے کہا۔” بدر میں ہم صرف اس لیے ذلت میں گھرے کہ سردار گھروں میں بیٹھے رہے اور ان لوگوں کو لڑنے بھیج دیا جو قریش کی عظمت کو نہیں سمجھتے تھے ۔“

”کیا میرے باپ کو بھی قریش کی عظمت کا خیال نہ تھا؟“خالد کے چچا زاد بھائی عکرمہ، جو ابو جہل کا بیٹا تھا۔ برہم ہوتے ہوئے کہا ۔”کیا صفوان بن امیہ کے باپ کو بھی قریش کی عظمت کا خیال نہ تھا ؟ تم کہاں تھے
الولید کے بیٹے؟“”ہم یہاں ایک دوسرے سے لڑنے کیلئے اکھٹے نہیں ہوئے ۔“ابو سفیان نے کہا۔” خالد! تمہیں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے تھی جس سے کوئی اپنی بے عزتی محسوس کرے۔“
”ہم میں سے کوئی بھی عزت والا نہیں رہا۔“ خالد نے کہا ۔”ہم سب اس وقت تک بے عزت رہیں گے جب تک ہم محمد(ﷺ) اور اس کے چیلوں کو ہمیشہ کیلئے ختم نہیں کر دےتے۔ مجھے اپنے گھوڑے کے سموں کی
قسم! میرے خون کی گرمی نے میری آنکھیں جلا دی ہیں۔ ان آنکھوں کو مسلمانوں کا خون ٹھنڈا کر سکتا ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ اب سردار آگے ہوں گے اور میں جانتا ہوں کہ میں میدانِ جنگ میں کہاں ہوں گا۔لیکن جنگ میں ہمارا جو سردار ہو گا میں اس کے حکم کا پابند رہوں گا اور اگر میں سمجھوں گا کہ مجھے سردار نے ایسا حکم دیا ہے جو ہمیں نقصان دے گا تو میں ایسا حکم نہیں مانوں گا۔“ سب نے متفقہ طور پر ابو سفیان کو اپنا سردار مقرر کیا۔اس سے ایک روز پہلے اہلِ مکہ کا ایک قافلہ فلسطین سے مکہ واپس آیا تھا ۔یہ تجارتی قافلہ تھا ۔مکہ کے باشندوں خصوصاً قریش کے ہر خاندان نے اس تجارت میں حصہ ڈالا تھا۔ اس قافلے میں کم و بیش ایک ہزار اونٹ تھے اور جو مال گیاتھا اس کی مالیت پچاس ہزار دینار تھی۔ قافلے کا سردار ابو سفیان تھا جس نے پچاس ہزار پر پچاس ہزار دینار منافع کمایا تھا۔قافلے سے واپسی کا راستہ مدینہ سے گزرتا تھا ۔مسلمانوں کو پتا چل گیا ۔انہوں نے پورے قافلے کو گرفتار کرنے کا ارادہ کیا اور ایک مقام پر قافلہ کو گھیرے میں لے لیا لیکن وہ زمین ایسی تھی کہ ابو سفیان نے ایک ایک آدمی اور ایک ایک اونٹ کو زمین کے اونچے نیچے خدوخال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گھیرے سے نکال دیا تھا۔خالد کا گھوڑا خراماں خراماں مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا مگر خالد کا ذہن پیچھے کو سفر کر رہا تھا ۔اسے اس وقت کا جب قریش انتقام کی اسکیم بنانے کیلئے اکھٹے ہوئے تھے ایک ایک لفظ جو کسی نے کہا تھا سنائی دے رہا تھا۔”اگر تم نے مجھے اپنی سرداری دی ہے تو میرے ہر فیصلے کی پابندی تم پر لازم ہے ۔“ابو سفان نے کہا ۔

”میرا پہلا فیصلہ یہ ہے کہ میں نے ابھی پچاس ہزار دینار منافع سب میں تقسیم نہیں کیا۔ وہ میں تقسیم نہیں کروں گا۔ یہ مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ میں استعمال ہو گا۔“”مجھے اور میرے خاندان کو یہ فیصلہ منظور ہے ۔“سب سے پہلے خالد نے کہا۔پھر ”منظور ہے ،ایسا ہی کرو، منظور ہے “کی آوازیں اٹھیں۔ ”میرا دوسراحکم یہ ہے۔“ ابو سفیان نے کہا کہ۔” جنگِ بدر میں ہمارے جو آدمی مارے گئے ہیں ان کے لواحقین آہ و زاری کر رہے ہیں ۔میں نے مردوں کو دھاڑیں مارتے اور عورتوں کو بَین کرتے سنا ہے۔ اﷲ کی قسم! جب آنسو بہہ جاتے ہیں تو انتقام کی آگ سرد ہو جاتی ہے ۔آج سے بدرکے مقتولین پرکوئی نہیں روئے گا ۔۔۔“”اور میرا تیسرا حکم یہ ہے کہ مسلمانوں نے بدر کی لڑائی میں ہمارے جن آدمیوں کو قید کیا ہے ان کی رہائی کیلئے کوئی کوشش نہیں کی جائے گی ۔تم جانتے ہو کہ مسلمانوں نے قیدیوں کی رہائی کیلئے ان کے درجے مقرر کر دیئے ہیں اور ان کا فدیہ ایک ہزار سے چالیس درہم مقرر کیا ہے ۔ہم مسلمانوں کو ایک درہم بھی نہیں دےں گے۔ یہ رقم ہمارے ہی خلاف استعمال ہو گی ۔“
خالد کو گھوڑے کی پیٹھ پہ بیٹھے اور مدینہ کی طرف جاتے ہوئے جب وہ لمحے یاد آ رہے تھے تو اس کی مٹھیاں بند ہو گئیں۔ غصے کی لہر اس کے سارے وجود میں بھر گئی۔ وہ وقت بہت پیچھے رہ گیا تھا لیکن اب بھی اس کے اندر غصہ بیدارہو گیا تھا۔ اسے غصہ اس بات پہ آیا کہ اجلاس میں طے تھا کہ مسلمانوں کے پاس مکہ کا کوئی آدمی اپنے قیدی کو چھڑانے مدینہ نہیں جائے گا لیکن ایک آدمی چوری چھپے مدینہ چلا جاتا اور اپنے عزیز رشتے دار کو رہا کرا لاتا۔ ابو سفیان نے اپنا حکم واپس لے لیا۔ خالد کا اپنا ایک بھائی جس کا نام ولید تھا۔ مسلمانوں کے پاس جنگی قیدی تھا اگر اس وقت تک قریش اپنے بہت سے قیدی رہا نہ کرا لائے ہوتے تو خالد اپنے بھائی کی رہائی کیلئے کبھی نہ جاتا۔اسے اپنے بھائیوں نے مجبور کیا تھا کہ ولید کی رہائی کیلئے جائے ۔خالد کو یاد آ رہا تھا کہ وہ اپنے وقار کو ٹھیس پہنچانے پر آمادہ نہیں ہو رہا تھا لیکن اسے خیال آیا تھا ۔خیال یہ تھا کہ رسولِ کریمﷺ بھی اسی کے قبیلے کے تھے اور آپﷺ کے پیروکار یعنی جو مسلمان ہو گئے تھے وہ بھی قریش اور اہلِ مکہ سے تھے۔ وہ آسمان سے تو نہیں اترے تھے۔ وہ اتنے جری اور دلیر تو نہیں تھے کہ تین سو تیرہ کی تعداد میں ایک ہزار کو شکست دے سکتے ۔اب ان میں کیسی قوت آ گئی ہے کہ وہ ہمیں نیچا دکھا کر ہمارے آدمیوں کی قمتیں مقرر کر رہے ہیں ؟

”انہیں ایک نظر دیکھوں گا۔“ خالد نے سوچا تھا۔” محمدﷺ کو غور سے دیکھوں گا۔“اور وہ اپنے بھائی ہشام کو ساتھ لے کر مدینہ چلا گیا تھا ۔اس نے اپنے ساتھ چار ہزار درہم باندھ لیے تھے ۔اسے معلوم تھا کہ بنو مخزوم کے سردار الولید کے بیٹے کا فدیہ چار ہزار درہم سے کم نہیں ہو گا ایسا ہی ہوا۔۔۔اس نے مسلمانوں کے ہاں جا کر اپنے بھائی کانام لیا تو ایک مسلمان نے جو قیدیوں کی رہائی اور فدیہ کی وصولی پر معمور تھا ۔کہا کہ چار ہزار درہم ادا کرو۔”ہم فدیہ میں کچھ رعایت چاہتے ہیں ۔“خالد کے بھائی ہشام نے کہا ۔”تم لوگ آخر ہم میں سے ہو ۔کچھ پرانے رشتوں کا خیال کرو ۔“”اب ہم تم میں سے نہیں ہیں ۔“مسلمانوں نے کہا ۔”ہم اﷲ کے رسولﷺ کے حکم کے پابند ہیں۔“”کیا ہم تمہارے رسول اﷲﷺ سے بات کر سکتے ہیں ؟“ہشام نے پوچھا ۔”ہشام !“خالد نے گرج کر کہا۔” میں اپنے بھائی کو اپنے وقار پر قربان کر چکا تھا ،مگر تم مجھے ساتھ لے آئے ۔یہ جتنا مانگتے ہیں اتنا ہی دے دو۔ میں محمد(ﷺ) کے سامنے جا کہ رحم کی بھیک نہیں مانگوں گا“ ۔اس نے درہموں سے بھری تھیلی مسلمانوں کے سامنے پھینکتے ہوئے کہا ۔”گن لو اور ہمارے بھائی کو ہمارے حوالے کر دو۔“رقم گنی جا چکی تو ولید کو خالد اور ہشام کے حوالے کر دیا گیا۔ تینوں بھائی اسی وقت مکہ کو روانہ ہو گئے ۔راستے میں دونوں بھائیوں نے ولید سے پوچھا کہ”ان کی شکست کا باعث کیا تھا؟ “انہیں توقع تھی کہ ولید جو ایک جنگجوخاندان کا جوان تھا۔ انہیں جنگی فہم و فراست اور حرب و ضرب کے طور طریقوں کے مطابق مسلمانوں کی جنگی چالوں کی خوبیاں اور اپنی خامیاں بتائے گا مگر ولید کا انداز ایسا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ایسی تھی جیسے اس پر کوئی پراسرار اثر ہو۔ ”ولید کچھ تو بتاؤ۔“ خالد نے اس سے پوچھا۔”ہمیں اپنی شکست کا انتقام لینا ہے ۔قریش کے تمام سردار اگلی جنگ میں شامل ہو رہے ہیں۔ ہم اردگرد کے قبائل کو بھی ساتھ ملا رہے ہیں اور و ہ مکہ میں جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔“ ”سارے عرب کو اکھٹا کرلو خالد۔“ ولید نے کہا ۔”تم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکو گے ۔میں نہیں بتا سکتا کہ محمدﷺ کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے یا ان کا نیا عقیدہ سچا یا کیا بات ہے کہ میں نے ان کا قیدی ہوتے ہوئے بھی انہیں نا پسند نہیں کیا۔“”پھر تم اپنے قبیلے کے غدار ہو۔“ ہشام نے کہا۔” غدار ہو یا تم پر ان کا جادو اثر کر گیا ہے۔ وہ یہودی پیشوا ٹھیک کہتا تھا کہ محمد(ﷺ) کے پاس کوئی نیا عقیدہ اور نیا مذہب نہیں،اس کے ہاتھ میں کوئی جادو آگیا ہے“۔

”جادو ہی تھا ،ورنہ بدر میں قرiش شکست کھانے والے نہیں تھے۔“خالد نے کہا۔ولید جیسے ان کی باتیں سن ہی نہیں رہا تھا ۔اس کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور وہ مڑ مڑ کر مدینہ کی طرف دیکھتا تھا۔ مدینہ سے کچھ دورذی الحلیفہ نام کی ایک جگہ ہوا کرتی تھی۔ تینوں بھائی وہاں پہنچے تو رات گہری ہو چکی تھی۔ رات گزارنے کیلئے وہ وہیں رہ گئے۔صبح آنکھ کھلی تو ولید غائب تھا۔ اس کا گھوڑا بھی وہاں نہیں تھا ۔خالد اور ہشام سوچ سوچ کر اس نتیجے پر پہنچے کہ ولید واپس مدینہ چلا گیا ہے،انہوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی اثر تھا یہ اثر مسلمانوں کا ہی ہوسکتا تھا۔ دونوں بھائی مکہ آ گئے۔ چند دنوں بعد انہیں مکہ میں ولید کا زبانی پیغام ملا کہ اس نے محمدﷺکو خدا کا سچارسول تسلیم کر لیا ہے اور وہ آپﷺ کی شخصیت اور باتوں سے اتنا متاثر ہوا ہے کہ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے۔
مورخین لکھتے ہیں کہ ولید بن الولید رسولِ اکرمﷺ کے منظورِ نظر رہے اور انہوں نے مذہب میں بھی اور کفار کے ساتھ معرکہ آرائی میں بھی نام پیدا کیا۔خالد کو اس وقت بہت غصہ آیا تھا ایک تو اس کا بھائی گیا دوسرے چار ہزار درہم گئے ۔چونکہ قریش اور مسلمانوں کے درمیان خونی دشمنی پیدا ہو چکی تھی اس لیے مسلمانوں نے یہ رقم واپس نہ کی ۔رقم واپس نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ولید نے رسولِ کریمﷺ کو بتا دیا تھا کہ قریش مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاری کر رہے ہیں اور ا س کیلئے بے انداز درہم و دینار اکھٹے کیے جا چکے ہیں۔
خالد مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا۔ اسے افق سے ایک کوہان سی ابھری ہوئی نظر آنے لگی۔ خالد جانتا تھا یہ کیا ہے۔ یہ احد کی پہاڑی تھی جو مدینہ سے چار میل شمال میں ہے۔ اس وقت خالد ریت کی بڑی لمبی اور کچھ اونچی ٹیکری پر چلا جا رہا تھا۔اُحد۔ اُحد۔ خالد کے ہونٹوں سے سرگوشی نکلی اور اسے اپنی للکار سنائی دینے لگی۔” میں ابو سلیمان ہوں ! میں ابو سلیمان ہوں ۔“اس کے ساتھ ہی اسے ایک خونریز جنگ کا شوروغل اور سینکڑوں گھوڑوں کے ٹاپ اور تلواریں ٹکرانے کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔خالد یہ جنگ لڑنے کیلئے بیتاب تھا اور اس نے یہ جنگ لڑی۔
خالد کا ذہن پیچھے ہی ہٹتا گیا۔چار ہی سال پہلے کا واقعہ تھا ۔

مارچ 625ء(شوال ۳ ہجری ) کے مہینے میں قریش نے مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے جو لشکر تیار کیا تھا وہ مکہ میں اکھٹا ہو چکا تھا اس کی کل تعداد تین ہزار تھی۔ اس میں سات سو افراد نے زِرہ پہن رکھی تھی۔ گھوڑ سوار دو سو کے لگ بھگ تھے اور رسد اور سامانِ جنگ تین ہزار اونٹوں پر لدا ہوا تھا۔ یہ لشکر کوچ کیلئے تیار تھا۔خالد کو ایک روز پہلے کی بات کی طرح یاد تھا کہ اس لشکر کو دیکھ کر وہ کس قدرخوش ہوا تھا۔ انتقام کی آگ بجھانے کا وقت آ گیا تھا اس لشکر کا سالارِ اعلیٰ ابو سفیان تھا اور خالد اس لشکر کے ایک حصے کا کمانڈر تھا۔ اس کی بہن بھی اس لشکر کے ساتھ جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ چودہ عورتیں اس لشکر کے ساتھ جانے کیلئے تیار تھیں ۔ ان میں ابو سفیان کی بیوی ہند بھی تھی، عمرو بن العاص کی اور ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کی بیویاں بھی شامل تھیں ۔ باقی سب گانے بجانے والیاں تھیں ۔سب کی آواز میں سوز تھا اور ان کے ساز دف اور ڈھولک تھے۔ ان عورتوں کا جنگ میں یہ کام تھا کہ جوشیلے اور جذباتی گیت گا کر سپاہیوں کا حوصلہ بلند رکھیں اور انکی یاد تازہ کرتی رہیں جو جنگِ بدر میں مارے گئے تھے۔خالد کو افریقہ کا ایک حبشی یاد آیا جس کا نام وحشی بن حرب تھا۔ وہ قریش کے ایک سردار جُبیر بن مُطعم کا غلام تھا۔ وہ دراز قد اور سیاہ رو اور طاقتور تھا۔ اس نے برچھی مارنے کے فن میں شہرت حاصل کی تھی۔ اس کے پاس افریقہ کی بنی ہوئی برچھی تھی۔ اس کا افریقی نام کچھ اور تھا ۔اسے عربی نام جُبیر نے اس کے جنگی کمالات دیکھ کر دیا تھا۔”بِن حرب! “کوچ سے کچھ دیر پہلے جُبیر بن مُطعِم نے اسے کہا۔”مجھے اپنے چچا کے خون کا بدلہ لینا ہے ۔شاید مجھے موقع نہ مل سکے ،میرے چچا کو بدر کی لڑائی میں محمد(ﷺ) کے چچا حمزہ نے قتل کیا تھا اگر تم حمزہ کو قتل کر دو تو میں تمہیں آزاد کر دوں گا۔“”حمزہ میری برچھی سے قتل ہو گا یا آقا!“وحشی بن حرب نے کہا۔یہ حبشی غلام اس طرف جا نکلا جہاں وہ عورتیں اونٹوں پر سوار ہو چکی تھیں جو اس لشکر کے ساتھ جا رہی تھیں۔”ابو وسمہ!“کسی عورت نے پکارا۔یہ وحشی بن حرب کا دوسرا نام تھا۔ وہ رک گیا۔ دیکھا کہ ابو سفیان کی بیوی ہند اسے بلا رہی تھی ۔وہ اس کے قریب چلا گیا۔”ابو وسمہ! “ہندنے کہا ۔”حیران نہ ہو، تجھے میں نے بلایا ہے۔ میرا سینہ انتقام کی آگ سے جل رہا ہے۔ میرا سینہ ٹھنڈا کردے۔“”حکم خاتون۔“غلام نے کہا۔” اپنے سالار کی زوجہ کے حکم پر اپنی جان بھی دے دوں گا۔“”بدر میں میرے باپ کو حمزہ نے قتل کیاتھا“۔ ہندنے کہا۔” تو حمزہ کو اچھی طرح پہچانتا ہے ،یہ دیکھ میں نے سونے کے جو زیورات پہن رکھے ہیں اگر تو حمزہ کو قتل کر دے گا تو یہ سب زیورات تیرے ہوں گے۔“وحشی بن حرب نے ہند کے زیورات پر نظر ڈالی تو وہ مسکرایا اور زیرِ لب پر عزم لہجے میں بولا۔” حمزہ کو میں ہی قتل کروں گا۔“

خالد کو اپنے لشکر کا کوچ یاد تھا۔ اسی رستے سے لشکر مدینہ کو گیا تھا۔ اس نے ایک بلند جگہ کھڑے ہو کر لشکر کو دیکھا تھا۔ اس کا سینہ فخر سے پھیل گیا تھا۔ اسے مدینہ کے مسلمانوں پر رحم آ گیا تھا لیکن اس رحم نے بھی اسے مسرت دی تھی۔ یہ خون کی دشمنی تھی ،یہ اس کے وقار کا مسئلہ تھا۔مسلمانوں کو کچل ڈالنا اس کا عزم تھا۔جنگِ احد کے بہت دن بعد اسے پتاچلا تھا کہ جب مکہ میں قریش اپنا لشکر جمع کر رہے تھے تو اطلاع رسولِ کریمﷺ کو مل گئی تھی اور جب یہ لشکر مدینہ کے راستے میں تھا تو رسولِ خدا ﷺکو اس کی رفتار ،پڑاؤ اور مدینہ سے فاصلے کی اطلاعیں مسلسل ملتی رہی تھیں۔ آپﷺ کو لشکر کے مکہ سے کوچ کی اطلاع حضرت عباسؓ نے دی تھی۔قریش کے اس لشکر نے مدینہ سے کچھ میل دور کوہِ احد کے قریب ایک ایسی جگہ کیمپ کیا تھا جو ہری بھری تھی اور وہاں پانی بھی تھا ۔خالد کو معلوم نہ تھا کہ مسلمانوں کے دو جاسوس اس لشکر کی پوری تعداد دیکھ آئے ہیں اور رسولِ کریمﷺ کوبتا چکے ہیں۔21مارچ 625ءکے روز رسولِ کریمﷺ نے اپنی فوج کو کوچ کا حکم دیا اور شیخین نامی ایک پہاڑی کے دامن میں جا خیمہ زن ہوئے۔ آپﷺ کے ساتھ ایک ہزار پیادہ مجاہدین تھے جن میں ایک سَو نے سروں پر زِرہ پہن رکھی تھی۔ مجاہدین کے پاس صرف دو گھوڑے تھے جن میں سے ایک نبیﷺ کے پاس تھا ۔اس موقع پر منافقین کے نفاق کا پہلا خطرناک مظاہرہ ہوا جو غداری کے مترادف تھا۔ مدینہ کے بعض ایسے لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا جو دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ انہیں رسولﷺ نے منافقین کہا تھا۔ کسی کے متعلق یہ معلوم کرنا کہ وہ سچا مسلمان ہے یا منافق‘ بہت مشکل تھا ۔جب مجاہدین مدینہ سے شیخین کی پہاڑی کی طرف کوچ کرنے لگے تو ایک بااثر آدمی جس کا نام ”عبداﷲ بن ابی “تھا۔ رسول ﷺ کے ساتھ اس بحث میں الجھ گیا کہ قریش کا لشکر تین گنا ہے اس لیے مدینہ سے باہر جاکر لڑنا نقصان دہ ہو گا۔آپﷺ نے مجاہدین کے دوسرے سرداروں سے رائے لی تو اکثریت نے یہ کہا کہ شہر سے باہر لڑنا زیادہ بہتر ہوگا۔ آپﷺ عبداﷲ بن ابی کے ہی ہم خیال تھے لیکن آپﷺ نے اکثریت کا فیصلہ ہی منظور فرمایا اور کوچ کا حکم دے دیا۔ عبداﷲ بن ابی نے شہر سے باہر جانے سے انکار کر دیا اس کے پیچھے ہٹنے کی دیر تھی کہ لشکر میں سے تین سو آدمی پیچھے ہٹ گئے۔ تب پتا چلا کہ یہ سب منافقین تھے اور عبداﷲ ان کا سردار ہے۔اب تین ہزار کے مقابلے میں مجاہدین کی نفری صرف سات سو رہ گئی۔

رسول اﷲﷺ دلبرداشتہ نہ ہوئے اور سات سو ہی کو ساتھ لے کر کوہِ احد کے دامن میں شیخین کے مقام پر مجاہدiن کو جنگی ترتیب میں کردیا۔خالد نے ایک بلند ٹیکری پر کھڑے ہوکر مسلمانوں کی ترتیب دیکھی تھی اور اس نے اپنے سالار ابو سفیان کو بتا کر اپنے دستے کی جگہ طے کرلی۔رسولِ اکرمﷺ نے مجاہدین کو کم و بیش ایک ہزار گز لمبائی میں پھیلا دیا۔ پیچھے وادی تھی ۔مجاہدین کے ایک پہلو کے ساتھ پہاڑی تھی لیکن دوسرے پہلو پر کچھ نہیں تھا۔ اس پہلو کو مضبوط رکھنے کیلئے رسول ﷺ نے پچاس تیر اندازوں کو قریب کی ایک ٹیکری پر بٹھا دیا ۔ان تیر اندازوں کے کمانڈر عبداﷲ بن جبیر تھے ۔”اپنی ذمہ داری سمجھ لو عبداﷲ ۔“رسولِ خداﷺ نے اسے ہدایت دیتے ہوئے فرمایا ۔”اپنے عقب کو دیکھو، دشمن ہمارے عقب میں نقل و حرکت کر سکتا ہے جو ہمارے لیے خطرہ ہے ۔دشمن کے پاس گھڑ سوار زیادہ ہیں۔وہ ہمارے پہلو پر گھڑ سواروں سے حملہ کر سکتا ہے۔ اپنے تیرانداوں کو گھڑ سواروں پر مرکوز رکھو۔ پیادوں کا مجھے کوئی ڈر نہیں۔“ تقریباً تمام مستند مؤرخین جن میں ابن ہشام اور واقدی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں ،لکھتے ہیں کہ رسولِ کریمﷺ نے عبداﷲ بن جبیر ؓکو واضح الفاظ میں کہا تھا” ہماراعقب صرف تمہاری بیداری اور مستعدی سے محفوظ رہے گا۔ تمہاری ذرا سی کوتاہی بھی ہمیں بڑی ذلت آمیز شکست دے سکتی ہے ۔یاد رکھو عبداﷲ! اگر تم دشمن کو بھاگتے ہوئے اور ہمیں فتح یاب ہوتے ہوئے دیکھ لو، تو بھی اس جگہ سے نہ ہلنا ۔اگر دیکھو کہ ہم پر دشمن کا دباؤ بڑھ گیا ہے اور تمہیں ہماری مدد کیلئے پہنچنا چاہیے تو بھی یہ جگہ نہ چھوڑنا۔ پہاڑی کی یہ بلندی دشمن کے قبضے میں نہیں جانی چاہیے ۔یہ بلندی تمہاری ہے ،وہاں سے تم نیچے اس تمام علاقے کے حکمران ہو گے جہاں تک تمہارے تیر اندازوں کے تیرپہنچیں گے۔“خالد نے مسلمانوں کی ترتیب دیکھی اور ابو سفیان کو بتایا کہ مسلمان کھلے میدان کی لڑائی نہیں لڑیں گے ۔ابو سفیان کو اپنی کثیر نفری پر ناز تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ لڑائی کھلے میدان میں یعنی لا محدود محاذ پر ہو تاکہ وہ اپنے پیادوں اور گھوڑوں کی افراط سے مجاہدینِ اسلام کو کچل ڈالے۔ خالد کو اپنے باپ نے جنگی چالوں کی تربیت بچپن سے دینی شروع کر دی تھی۔ دشمن پر بے خبری میں پہلو یا عقب سے جھپٹنا اور دشمن کو چکر دے دے کر مارنا اپنے دستوں کی تقسیم اور ان پر کنٹرول اس کی تربیت میں شامل تھا۔ جو اسے باپ نے دی تھی ۔اس نے تجربے کار سردار کی نگاہوں سے مجاہدین کی ترتیب دیکھی تو اس نے محسوس کیا کہ مسلمان فن و حرب کے کمالات دِکھا سکتے ہیں۔

ابو سفیان اپنی فوج کو مسلمانوں کے بالمقابل لے گیا۔ اس نے گھڑ سواروں کو مسلمانوں کے پہلوؤں پر حملہ کر نے کیلئے بھیجا ۔ایک پہلو پر خالد اور دوسرے پر عکرمہ تھا۔ دونوں کے ساتھ ایک سو گھڑ سوار تھے ۔تمام گھڑ سواروں کا کمانڈر عمرو بن العاص تھا۔ پیادوں کے آگے ابو سفیان نے ایک سو تیر انداز رکھے ۔قریش کا پرچم طلحہ بن ابو طلحہ نے اٹھا رکھاتھا ۔اس زمانے کی جنگوں میں پرچم کو دل جیسی اہمیت حاصل تھی۔ پرچم کے گرنے سے فوج کا حوصلہ ٹوٹ جاتا اور بھگدڑ مچ جاتی تھی۔قریش نے جنگ کی ابتداءاس طرح کی کہ ان کی صفوں سے ایک شخص ابو عامر فاسق آگے ہو کر مجاہدین کے قریب چلا گیا ۔اس کے پیچھے قریش کے غلاموں کی کچھ تعداد بھی تھی۔ ابو عامر مدینہ کا رہنے والا تھا۔ وہ قبیلہ اوس کا سردار تھا۔ جب رسولِ کریمﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ گئے تو ابو عامر نے قسم کھالی تھی کہ وہ آپ (ﷺ)کو اور تمام مسلمانوں کو مدینہ سے نکال کر دم لے گا۔ اس پر ایک بڑی ہی حسین یہودن کا اور یہودیوں کے مال و دولت کا طلسم طاری تھا۔ یہودیوں کی اسلام دشمن کارروائیاں زمین دوز ہوتی تھیں ۔بظاہر انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ دوستی اور فرمانبرداری کا معاہدہ کر رکھا تھا ۔ابو عامر انہی کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنا ہوا تھا۔ لیکن ان یہودیوں نے اسے قریش کا دوست بنا رکھا تھا۔ اب مجاہدین قریش کے خلاف لڑنے کیلئے مدینہ سے نکلے تو ابو عامر قریش کے پاس چلا گیا ۔اس کے قبیلہ اوس کے بہت سے آدمی رسولِ کریمﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کر چکے تھے اور وہ قریش کے مقابلے میں صف آراءتھے ۔ابو عامر آگے چلا گیا اور مجاہدین سے بلند آواز سے مخاطب ہوا ۔رسولِ کریمﷺ نے اسے فاسق کا خطاب دیا تھا۔ ”قبیلہ اوس کے غیرت مند بہادرو !“ابو عامر فاسق نے کہا۔