”جادو ہی تھا ،ورنہ بدر میں قرiش شکست کھانے والے نہیں تھے۔“خالد نے کہا۔ولید جیسے ان کی باتیں سن ہی نہیں رہا تھا ۔اس کے ہونٹوں پر تبسم تھا اور وہ مڑ مڑ کر مدینہ کی طرف دیکھتا تھا۔ مدینہ سے کچھ دورذی الحلیفہ نام کی ایک جگہ ہوا کرتی تھی۔ تینوں بھائی وہاں پہنچے تو رات گہری ہو چکی تھی۔ رات گزارنے کیلئے وہ وہیں رہ گئے۔صبح آنکھ کھلی تو ولید غائب تھا۔ اس کا گھوڑا بھی وہاں نہیں تھا ۔خالد اور ہشام سوچ سوچ کر اس نتیجے پر پہنچے کہ ولید واپس مدینہ چلا گیا ہے،انہوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی اثر تھا یہ اثر مسلمانوں کا ہی ہوسکتا تھا۔ دونوں بھائی مکہ آ گئے۔ چند دنوں بعد انہیں مکہ میں ولید کا زبانی پیغام ملا کہ اس نے محمدﷺکو خدا کا سچارسول تسلیم کر لیا ہے اور وہ آپﷺ کی شخصیت اور باتوں سے اتنا متاثر ہوا ہے کہ اس نے اسلام قبول کر لیا ہے۔
مورخین لکھتے ہیں کہ ولید بن الولید رسولِ اکرمﷺ کے منظورِ نظر رہے اور انہوں نے مذہب میں بھی اور کفار کے ساتھ معرکہ آرائی میں بھی نام پیدا کیا۔خالد کو اس وقت بہت غصہ آیا تھا ایک تو اس کا بھائی گیا دوسرے چار ہزار درہم گئے ۔چونکہ قریش اور مسلمانوں کے درمیان خونی دشمنی پیدا ہو چکی تھی اس لیے مسلمانوں نے یہ رقم واپس نہ کی ۔رقم واپس نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ولید نے رسولِ کریمﷺ کو بتا دیا تھا کہ قریش مسلمانوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاری کر رہے ہیں اور ا س کیلئے بے انداز درہم و دینار اکھٹے کیے جا چکے ہیں۔
خالد مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا۔ اسے افق سے ایک کوہان سی ابھری ہوئی نظر آنے لگی۔ خالد جانتا تھا یہ کیا ہے۔ یہ احد کی پہاڑی تھی جو مدینہ سے چار میل شمال میں ہے۔ اس وقت خالد ریت کی بڑی لمبی اور کچھ اونچی ٹیکری پر چلا جا رہا تھا۔اُحد۔ اُحد۔ خالد کے ہونٹوں سے سرگوشی نکلی اور اسے اپنی للکار سنائی دینے لگی۔” میں ابو سلیمان ہوں ! میں ابو سلیمان ہوں ۔“اس کے ساتھ ہی اسے ایک خونریز جنگ کا شوروغل اور سینکڑوں گھوڑوں کے ٹاپ اور تلواریں ٹکرانے کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔خالد یہ جنگ لڑنے کیلئے بیتاب تھا اور اس نے یہ جنگ لڑی۔
خالد کا ذہن پیچھے ہی ہٹتا گیا۔چار ہی سال پہلے کا واقعہ تھا ۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)