ابو سفیان اپنی فوج کو مسلمانوں کے بالمقابل لے گیا۔ اس نے گھڑ سواروں کو مسلمانوں کے پہلوؤں پر حملہ کر نے کیلئے بھیجا ۔ایک پہلو پر خالد اور دوسرے پر عکرمہ تھا۔ دونوں کے ساتھ ایک سو گھڑ سوار تھے ۔تمام گھڑ سواروں کا کمانڈر عمرو بن العاص تھا۔ پیادوں کے آگے ابو سفیان نے ایک سو تیر انداز رکھے ۔قریش کا پرچم طلحہ بن ابو طلحہ نے اٹھا رکھاتھا ۔اس زمانے کی جنگوں میں پرچم کو دل جیسی اہمیت حاصل تھی۔ پرچم کے گرنے سے فوج کا حوصلہ ٹوٹ جاتا اور بھگدڑ مچ جاتی تھی۔قریش نے جنگ کی ابتداءاس طرح کی کہ ان کی صفوں سے ایک شخص ابو عامر فاسق آگے ہو کر مجاہدین کے قریب چلا گیا ۔اس کے پیچھے قریش کے غلاموں کی کچھ تعداد بھی تھی۔ ابو عامر مدینہ کا رہنے والا تھا۔ وہ قبیلہ اوس کا سردار تھا۔ جب رسولِ کریمﷺ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ گئے تو ابو عامر نے قسم کھالی تھی کہ وہ آپ (ﷺ)کو اور تمام مسلمانوں کو مدینہ سے نکال کر دم لے گا۔ اس پر ایک بڑی ہی حسین یہودن کا اور یہودیوں کے مال و دولت کا طلسم طاری تھا۔ یہودیوں کی اسلام دشمن کارروائیاں زمین دوز ہوتی تھیں ۔بظاہر انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ دوستی اور فرمانبرداری کا معاہدہ کر رکھا تھا ۔ابو عامر انہی کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بنا ہوا تھا۔ لیکن ان یہودیوں نے اسے قریش کا دوست بنا رکھا تھا۔ اب مجاہدین قریش کے خلاف لڑنے کیلئے مدینہ سے نکلے تو ابو عامر قریش کے پاس چلا گیا ۔اس کے قبیلہ اوس کے بہت سے آدمی رسولِ کریمﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کر چکے تھے اور وہ قریش کے مقابلے میں صف آراءتھے ۔ابو عامر آگے چلا گیا اور مجاہدین سے بلند آواز سے مخاطب ہوا ۔رسولِ کریمﷺ نے اسے فاسق کا خطاب دیا تھا۔ ”قبیلہ اوس کے غیرت مند بہادرو !“ابو عامر فاسق نے کہا۔” تم مجھے یقیناً پہچانتے ہو ۔میں کون ہوں ؟میری بات غور سے سن لو“
وہ اپنی للکار پوری نہ کر پایا تھا کہ مجاہدینِ اسلام کی صف سے قبیلہ اوس کے ایک مجاہد کی آواز گرجی ۔”او فاسق بدکار! ہم تیرے نام پر تھوک چکے ہیں ۔“خالد کو وہ وقت یاد آ رہا تھا۔ مجاہدینِ اسلام کی صف سے ابو عامر اور اس کے ساتھ گئے ہوئے غلاموں پر پتھروں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی ۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ پتھر برسانے والے قبیلہ اوس کے مجاہدین تھے۔ابو عامر اور غلام جو مجاہدین کے پتھروں کی زد میں تھے ایک ایک دو دو پتھر کھا کر پیچھے بھاگ آئے ۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)