یہودی مدینہ میں بیٹھے لڑائی کی خبروں کا انتظار کر رہے تھے۔ جس یہودن کے طلسم میں ابو عامر گرفتار تھا وہ اپنی کامیابی کی خبر سننے کیلئے بے تاب تھی ۔اسے ابھی معلوم نہ تھا کہ اس کے حسن و جوانی کے طلسم کو مسلمانوں نے سنگسار کر دیا ہے۔ (اس سلسلے کی آنے والی اقساط میں یہودیوں اور قریش کی عورتوں کی زمین دوزکارروائیوں کی تفصیلی داستان سنائی جائے گی)
ابو عامر فاسق کے اس واقعہ سے پہلے وہ عورتیں جو قریش کے لشکر کے ساتھ گئی تھیں لشکر کے درمیان کھڑی ہو کر سریلی آوازوں میں ایسے گیت گا رہی تھیں جن میں بدر میں مارے جانے والے قریش کا ذکر ایسے الفاظ میں ایسی طرز میں کیا گیا تھا کہ سننے والوں کا خون کھولتا اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے ۔ان عورتوں میں سے ایک دو نے جوشیلی تقریر کی صورت میں بھی قریش کے خون کو گرمایا تھا۔
عورتوں کو پیچھے چلے جانے کاحکم ملا تو ابو سفیان کی بیوی ہند نے ایک گھوڑے پر سوار ہو کر ایک گیت گانا شروع کر دیا۔ اس کی آوا ز بلندتھی اور اس میں سوز بھی تھا ۔تاریخ لکھنے والوں نے اس گیت کے پورے اشعار قلم بند نہیں کیے ۔انہوں نے لکھا ہے کہ یہ گیت فحش تھا جس میں مردوعورت کے درپردہ تعلقات کا ذکر تھا۔ اشعار جو تاریخ میں آئے ہیں وہ اس طرح ہیں ۔ان میں جس عبدالدار کا نام آتا ہے ،یہ بنو عبدالدار ہے۔ بنو امیہ اسی کی ایک شاخ تھی بنو عبدالدار قریش کا بہت اونچا خاندان تھا۔
عبدالدار کے سپوتو!۔۔۔ہمارے گھرانو کے پاسبانو!۔۔۔۔ہم رات کی بیٹیاں ہیں۔۔۔ہم تکیوں کے درمیان حرکت کا کرتے ہیں ۔۔۔اس حرکت میں لطف اور لذت ہوتی ہے ۔۔۔تم دشمن پر چڑھ دوڑے تو ہم تمہیں اپنے سینوں سے لگالیں گی۔۔۔تم بھاگ آئے تو ہم تمہارے قریب نہیں آئیں گی ۔۔۔اس کے بعد ابو عامر فاسق پر مجاہدینِ اسلام کی طرف سے سنگ باری ہوئی اور اس کے فوراً بعد قریش نے مجاہدین پر تیر پھینکنے شروع کر دیئے ۔مجاہدین نے اس کے جواب میں تیر برسائے ۔خالد اپنے پہلو والے مسلمانوں کے پہلو پر حملہ کرنے کیلئے اپنے ایک سو سواروں کے ساتھ تیزی سے بڑھا اسے معلوم نہ تھا کہ بلندی پر تیر انداز چھپے بیٹھے ہیں ۔اس کے سوار بے دھڑک چلے آ رہے تھے۔ راستہ ذرا تنگ تھا ۔سواروں کو آگے پیچھے ہونا پڑا۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)