اس وقت وحشی بن حرب جھکا ہوا ہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اسے زمین اور جھاڑیوں نے اوٹ دے رکھی تھی۔ حمزہ ؓاپنے دشمن کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ سبا کے سوا انہیں کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔وحشی ان کے قریب پہنچ گیا۔ برچھی نشانے پر پھینکنے کا وہ ماہر تھا۔ وہ اتنا قریب ہو گیا جہاں سے اس کی برچھی خطا نہیں جا سکتی تھی ۔وہ اٹھ کھڑا ہوا اور برچھی کو ہاتھ میں تولا پھر اسے پھینکنے کی پوزیشن میں لایا۔ حمزہؓ نے سبا پر یکے بعددیگرے تزی سے دو تین وار کیے ۔آخری وار ایسا پڑا کہ حمزہ ؓکی تلوار سبا کے پیٹ میں اتر گئی۔ حمزہؓ نے تلوار اس کے پیٹ سے اس طرح نکالی کہ اس کا پیٹ اور زیادہ پھٹ گیااور وہ حمزہؓ کے قدموں میں گر پڑا۔ حمزہؓ ابھی سنبھلے ہی تھے کہ وحشی نے ان پر پوری طاقت سے برچھی پھینکی۔ فاصلہ بہت کم تھا ۔برچھی حمزہ ؓکے پیٹ میں اتنی زیادہ اتر گئی کہ اس کی انی حمزہؓ کی پیٹھ سے آگے نکل گئی ۔حمزہؓ گرے نہیں ۔انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا انہیں وحشی دِکھائی دیا۔ حمزہ ؓبرچھی اپنے جسم میں لیے ہوئے وحشی کی طرف بڑھے۔ وحشی جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا رہا۔ حمزہؓ چار پانچ قدم چل کر گر پڑے۔ وحشی ان کے جسم کو ہلتا جلتا دیکھتا رہا ۔جب جسم کی حرکت بند ہو گئی تو وحشی ان تک آیا ۔وہ شہید ہو چکے تھے۔ وحشی نے ان کے جسم سے برچھی نکال لی اور چلا گیا ۔اب وہ ہند اور اپنے آقا جبیر بن مطعم کو ڈھونڈنے لگا۔خالد کو وہ معرکہ یاد آ رہا تھا اور اس کے دل پر بوجھ سا بڑھتا جا رہا تھا۔اس کا گھوڑا چلا جا رہا تھا۔ وہ نشیبی جگہ سے گزر رہا تھا اس لیے احد کی پہاڑی کی چوٹی اس کی نظروں سے اوجھل ہو گی تھی ۔اسے اپنے قبیلے کی عورتیں یاد آئیں جو قریش اور ان کے اتحادی قبائل کو جوش دِلا رہی تھیں ۔خالد کویاد آیا کہ وہ معرکہ کا نظارہ کرنے کیلئے ایک بلند جگہ چڑھ گیا تھا۔ اسے مسلمان عورتیں نظر آئیں۔ مسلمان اپنے جن زخمیوں کو پیچھے لاتے تھے انہیں عورتیں سنبھال لیتی تھیں ان کی مرہم پٹی کرتیں اور انہیں پانی پلاتیں ۔مسلمانوں کے ساتھ چودہ عورتیں تھیں جن میں حضرت فاطمہ ؓ بھی تھیں۔پھر یوں ہوا کہ قلیل تعداد مجاہدین ،کثیر تعداد کفار پر غالب آ گئے۔ قریش کا پرچم بردار گرا تو کسی اور نے پرچم اٹھا لیا ،وہ بھی گرا ۔پرچم کئی بار گرا۔ آخر میں ایک غلام نے پرچم اٹھا کر اونچا کیا لیکن وہ بھی مارا گےا۔ پھر مسلمانوں نے قریش کو پرچم اٹھانے کی مہلت نہ دی۔ قریش کے جذبے جواب دے گئے۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)