رِکانہ آپ (ﷺ)کے اردگرد یوں گھوما جیسے شیر اپنے شکار کے اردگرد گھوم گیا ہو اور اب اسے کھا جائے گا۔ ہجوم رسولِ اکرمﷺ کا مذاق اڑا رہا تھا۔ مسلمان خاموش تھے وہ دل ہی دل میں اﷲ کو یاد کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی تلواروں کے دستوں پہ ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔پھر نہ جانے کیا ہوا؟رسول ِاکرم ﷺ نے کیاداؤکھیلا؟ابن الاثیر کہتا ہے کہ آپﷺ نے رکانہ کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔ رکانہ زخمی شیر کی طرح اٹھا اور غرا کر آپﷺ پر حملہ آور ہوا۔آپﷺ نے پھر وہی داؤ کھیلا اور اسے پٹخ دیا۔ وہ اٹھا تو آپﷺ نے اسے تیسری بار پٹخا۔ بھاری بھرکم جسم تین بار پٹخا گیا تو کشتی جاری رکھنے کے قابل نہ رہا۔ رکانہ سر جھکا کر اکھاڑے سے نکل گیا۔ ہجوم پر سناٹا طاری ہو گیا اور مسلمان ننگی تلواریں اور برچھیاں ہوا میں لہرا لہرا اور اچھال اچھال کر نعرے لگا رہے تھے۔”چچا رکانہ۔“ رسول اﷲﷺ نے للکار کر کہا۔” اپنا وعدہ پورا کر اور یہیں اعلان کر کہ آج سے تو مسلمان ہے۔“رکانہ نے قبولِ اسلام سے صاف انکار کر دیا۔”یہ طاقت جسمانی نہیں تھی ۔“خالد نے نخلستان میں لیٹے لیٹے اپنے آ پ سے کہا۔ ”رکانہ کو یوں تین بار پٹخنا تو دور کی بات ہے۔ اسے کوئی پچھاڑ بھی نہیں سکا تھا۔“رسولِ اکرمﷺ کا تصور خالد کے ذہن میں نکھر آیا ۔وہ آپ(ﷺ) کو اچھی طرح سے جانتا تھا لیکن اب وہ محسوس کر رہاتھا جیسے وہ محمدﷺ کوئی اور تھے جنہیں وہ بچپن سے جانتا تھا۔ا س کے بعد آپ ﷺنے جو رخ اختیار کیا تھاا س میں خالد آپ ﷺکو نہیں پہچانتا تھا ۔نبوت کے دعویٰ کے بعد خالد کی آپﷺ کے ساتھ بول چال بند ہو گئی تھی۔ وہ آپ ﷺکے ساتھ دو دو ہاتھ کرنا چاہتا تھا ۔لیکن وہ رکانہ کی طرح پہلوان نہیں تھا۔ وہ میدانِ جنگ میں لڑنے والا اور لڑنے والوں کی قیادت کرنے والا جنگجو تھا لیکن اس وقت مسلمان فوج کی صورت میں لڑنے کے قابل نہیں تھے۔
جب مسلمان فوج کی صورت میں لڑنے کے قابل ہوئے اور قریش کے ساتھ ان کا پہلا معرکہ ہوا ۔اس وقت خالد کیلئے ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ وہ اس معرکے میں شامل نہیں ہو سکا تھا ۔ا سکا اسے بہت افسوس تھا ۔یہ معرکہ بدر کا تھا جس میں تین سو تیرہ مجاہدینِ اسلام نے ایک ہزار قریش کو شکست دی تھی۔خالد دانت پیستا رہ گیا تھا لیکن اس روز جب وہ اس نخلستان میں لیٹا ہوا تھا اسے خیال آیا کہ تین سو تیرہ نے ایک ہزار کو کس طرح سے شکست دے دی تھی؟

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)