اس نے شکست کھاکہ آنے والوں سے پوچھا تھا کہ مسلمانوں میں وہ کون سی خوبی تھی جس نے انہیں فتح iاب کیا تھا؟ خالد اٹھ بیٹھا اور انگلی سے ریت پر بدر کے میدان کے خدوخال بنا کر قریش اور مسلمانوں کی پوزیشنیں اور معرکے کے دوران دونوں کی چالوں کی لکیریں بنانے لگا۔ باپ نے اسے فنِ حرب و ضرب کا ماہر بنادیا تھا۔ بچپن میں اسے گھڑ سواری سکھائی،لڑکپن میں اسے اکھڑ اور منہ زور گھوڑوں کو قابو میں لانے کے قابل بنایا۔ نوجوانی میں وہ شہسوار بن چکا تھا ،شتر سواری میں بھی وہ ماہر تھا۔ اس کا باپ ہی اس کا استاد تھا ۔اس نے خالد کو نا صرف سپاہی، بلکہ سالار بنایا تھا۔ خالد کو جنگ و جدل اتنی اچھی لگی کہ وہ لڑنے اور لڑانے کے طریقوں پر غورکرنے لگااور جوانی میں فوج کی قیادت کے قابل ہو گیا تھا۔اسے بدر کی لڑائی میں شامل نہ ہو سکنے کا افسوس تھا اور وہ انتقام کے طریقے سوچتا رہتا تھا لیکن اب اس کی سوچوں کا دھارا اور طرف چل پڑا تھا ۔مکہ سے روانگی سے کچھ عرصہ پہلے سے وہ اس سوچ میں کھو گیا تھا کہ رسولِ اکرمﷺ نے رکانہ پہلوان کو تین بار پٹخاتھا ۔بدر میں آپ ﷺنے محض تین سو تیرہ مجاہدین سے ایک ہزار کو شکست دی،یہ کوئی اور ہی قوت تھی لیکن بدر کے معرکے کے بعد اس کے دل میں مسلمانوںکے خلاف انتقام کی آگ سلگ رہی تھی۔مسلمان معرکہ بدر میں قریش کے بہت سے آدمیوں کو قیدی بنا کر لے گئے تھے ۔قریش کے سرداروں کیلئے تو یہ صدمہ تھا ہی ،اس کا بہت برا اثر خالد نے قبول کیا تھا ۔اسے یاد تھا کہ جب بدر کا معرکہ لڑا جا رہا تھا اور مکہ میں کوئی خبر نہیں پہنچ رہی تھی کہ معرکہ کا انجام کیا ہوا، مکہ کے لوگ بدر کی سمت دیکھتے رہتے تھے کہ ادھر سے کوئی سوار دوڑا آئے گا اور فتح کی خبر سنائے گا۔آخر ایک روز ایک شتر سوار آتا نظر آیا۔ لوگ اسکی طرف دوڑ پڑے ۔سوار نے عرب کے رواج کے مطابق اپنا کرتا پھاڑ دیا تھا اور وہ روتا آ رہا تھا۔ بری خبر لانے والے قاصد ایسے ہی کیا کرتے تھے ۔وہ جب لوگوں کے درمیان پہنچا تو اس نے روتے ہوئے بتایا کہ اہلِ قریش کو بہت بری شکست ہوئی ہے ۔جس کے عزیز رشتے دار لڑنے گئے تھے وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھ بڑھ کر ان کے متعلق پوچھتے تھے کہ وہ زندہ ہیں ،زخمی ہیں یا مارے گئے ہیں ؟شکست خوردہ قریش پیچھے آ رہے تھے۔ مارے جانے والوں میں سترہ افراد خالد کے قبیلے بنو مخزوم کے تھے اور ان سب کے ساتھ خالد کا خون کا بڑا قریبی رشتہ تھا۔ ابو جہل بھی مارا گیا تھا۔ خالد کا بھائی جس کا نام ولید تھا جنگی قیدی بن گیا تھا۔ابو سفیان جو کہ قریش کے سرداروں کا سردار تھا اور ا س کی بیوی ہند بھی موجود تھے ۔”کچھ میرے باپ اور میرے چچا کے متعلق بتا اے قاصد!“ ہند نے پوچھا۔”تمہاراباپ عتبہ ،علی اور حمزہ کے ہاتھوں مارا گیا ۔“قاصد نے کہا ۔”اور تمہارے چچا شیبہ کو اکیلے حمزہ نے قتل کیا ہے اورتمہارا بیٹا حنظلہ علی کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔ “

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)