”کیا میرے باپ کو بھی قریش کی عظمت کا خیال نہ تھا؟“خالد کے چچا زاد بھائی عکرمہ، جو ابو جہل کا بیٹا تھا۔ برہم ہوتے ہوئے کہا ۔”کیا صفوان بن امیہ کے باپ کو بھی قریش کی عظمت کا خیال نہ تھا ؟ تم کہاں تھے
الولید کے بیٹے؟“”ہم یہاں ایک دوسرے سے لڑنے کیلئے اکھٹے نہیں ہوئے ۔“ابو سفیان نے کہا۔” خالد! تمہیں ایسی بات نہیں کہنی چاہیے تھی جس سے کوئی اپنی بے عزتی محسوس کرے۔“
”ہم میں سے کوئی بھی عزت والا نہیں رہا۔“ خالد نے کہا ۔”ہم سب اس وقت تک بے عزت رہیں گے جب تک ہم محمد(ﷺ) اور اس کے چیلوں کو ہمیشہ کیلئے ختم نہیں کر دےتے۔ مجھے اپنے گھوڑے کے سموں کی
قسم! میرے خون کی گرمی نے میری آنکھیں جلا دی ہیں۔ ان آنکھوں کو مسلمانوں کا خون ٹھنڈا کر سکتا ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ اب سردار آگے ہوں گے اور میں جانتا ہوں کہ میں میدانِ جنگ میں کہاں ہوں گا۔لیکن جنگ میں ہمارا جو سردار ہو گا میں اس کے حکم کا پابند رہوں گا اور اگر میں سمجھوں گا کہ مجھے سردار نے ایسا حکم دیا ہے جو ہمیں نقصان دے گا تو میں ایسا حکم نہیں مانوں گا۔“ سب نے متفقہ طور پر ابو سفیان کو اپنا سردار مقرر کیا۔اس سے ایک روز پہلے اہلِ مکہ کا ایک قافلہ فلسطین سے مکہ واپس آیا تھا ۔یہ تجارتی قافلہ تھا ۔مکہ کے باشندوں خصوصاً قریش کے ہر خاندان نے اس تجارت میں حصہ ڈالا تھا۔ اس قافلے میں کم و بیش ایک ہزار اونٹ تھے اور جو مال گیاتھا اس کی مالیت پچاس ہزار دینار تھی۔ قافلے کا سردار ابو سفیان تھا جس نے پچاس ہزار پر پچاس ہزار دینار منافع کمایا تھا۔قافلے سے واپسی کا راستہ مدینہ سے گزرتا تھا ۔مسلمانوں کو پتا چل گیا ۔انہوں نے پورے قافلے کو گرفتار کرنے کا ارادہ کیا اور ایک مقام پر قافلہ کو گھیرے میں لے لیا لیکن وہ زمین ایسی تھی کہ ابو سفیان نے ایک ایک آدمی اور ایک ایک اونٹ کو زمین کے اونچے نیچے خدوخال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گھیرے سے نکال دیا تھا۔خالد کا گھوڑا خراماں خراماں مدینہ کی طرف چلا جا رہا تھا مگر خالد کا ذہن پیچھے کو سفر کر رہا تھا ۔اسے اس وقت کا جب قریش انتقام کی اسکیم بنانے کیلئے اکھٹے ہوئے تھے ایک ایک لفظ جو کسی نے کہا تھا سنائی دے رہا تھا۔”اگر تم نے مجھے اپنی سرداری دی ہے تو میرے ہر فیصلے کی پابندی تم پر لازم ہے ۔“ابو سفان نے کہا ۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔)