وہ اس قتل پر خوش بھی تھا اور ناخوش بھی، خوش اس لیے کہ اس کے اپنے قبیلے کے ہی ایک آدمی نے اس کے مذہب کو جو بت پرستی تھی‘ باطل کہہ دیا اور اپنے آپ کو خدا کا پیغمبر کہہ دیا ۔ایسے دشمن کے قتل پر خوش ہونا فطری بات تھی۔اور وہ ناخوش اس لیے تھا کہ وہ اپنے دشمن کو للکار کر آمنے سامنے کی لڑائی لڑنے کا قائل تھا ۔اس نے سوئے ہوئے دشمن کو قتل کرنے کی کبھی سوچی ہی نہیں تھی بہرحال اس نے اس سازش کی مخالفت نہیں کی۔ لیکن قتل کی رات جب قاتل رسولِ خدا کو مقررہ وقت پر قتل کرنے گئے تو آپﷺ کا مکان خالی تھا۔ وہاں گھر کا سامان بھی نہیں تھا نہ آپﷺ کا گھوڑا تھا نہ اونٹنی ۔ قریش اس امید پر سوئے ہوئے تھے کہ صبح انہیں خوشخبری ملے گی کہ ان کے مذہب کو جھٹلانے اور انہیں اپنے نئے مذہب کی طرف بلانے والا قتل ہو گیاہے مگر صبح وہ ایک دوسرے کو مایوسی کے عالم میں دیکھ رہے تھے ۔پھر وہ سرگوشیوں میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے ”محمد کہاں گیا؟“رسولِ خداﷺقتل کے وقت سے بہت پہلے اپنے قتل کی سازش سے آگاہ ہوکر یثرب (مدینہ) کوہجرت کر گئے تھے۔ صبح تک آپ ﷺبہت دور نکل گئے تھے۔ خالد کے ذہن سے یادیں پھوٹتی چلی آ رہی تھیں۔ ذہن پیچھے ہی پیچھے ہٹتے ہٹتے سولہ برس دور جا نکلا613ءکی ایک شام رسولِ کریمﷺ نے قریش کے چند ایک سرکردہ افراد کو اپنے ہاں کھانے پر مدعو کیا،کھانے کے بعد رسولِ کریمﷺ نے اپنے مہمانوں سے کہا:”اے بنی عبدالمطلب! میں تمہارے سامنے جو تحفہ پیش کرنے لگا ہوں وہ عرب کا کوئی اور شخص پیش نہیں کر سکتا۔ اس لیے کہ اﷲ نے مجھے منتخب کیا ہے ۔مجھے اﷲ نے حکم دیا ہے کہ تمہیں ایک ایسے مذہب کی طرف بلائو ں جو تمہاری دنیا کے ساتھ تمہاری عاقبت بھی آسودہ اور مسرور کر دے گا۔“ اس طرح رسولِ خدا ﷺ نے پہلی وحی کے نزول کے تین سال بعد اپنے قریبی عزیزوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔خالد اس محفل میں نہیں تھا۔ اس کا باپ مدعو تھا۔ اس نے خالد کو مذاق اڑانے کے انداز میں بتایا تھا کہ عبد المطلب کے پوتے محمد (ﷺ)نے کہا ہے کہ کہ وہ اﷲ کا بھیجا ہوا نبی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ عبدالمطلب قریش کا ایک سردار تھا۔ الولید نے اپنے بیٹے خالد سے کہا ”بےشک محمد کا خاندان اعلیٰ حیثیت رکھتا ہے لیکن نبوت کا دعویٰ اس خاندان کا کوئی فرد کیوں کرے؟ اﷲ کی قسم اور ہبل اور عزیٰ کی‘ میرے خاندان کا رتبہ کسی سے کم نہیں ،کیا نبوت کا دعویٰ کرکے کوئی ہم سے اونچا ہو سکتا ہے ؟‘

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)