خالد کو یہ اطمینان ضرور تھا کہ اس کے باپ نے محمدﷺ کے خلاف ایسی کوئی گھٹیا حرکت نہیں کی تھی ۔وہ دو مرتبہ قریش کے تین چار سرداروں کو ساتھ لے کر رسولِ خداﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس یہ کہنے گیا تھا کہ وہ اپنے بھتیجے (رسولِ خداﷺ کو)بتوں کی توہین اور نبوت کے دعویٰ سے روکے ،ورنہ وہ کسی کے ہاتھوں قتل ہو جائے گا۔ ابو طالب نے ان لوگوں کو دونوں مرتبہ ٹال دیا تھا۔خالد کو اپنے باپ کی بہت بڑی قربانی یاد آئی ۔”عمارہ“ خالد کا بھائی تھا ۔وہ خاص طور پر خوبصورت نوجوان تھا ۔وہ ذہین تھا اور اس میں بانکپن تھا۔ خالد کے باپ الولید نے اپنے اتنے خوبصورت بیٹے عمارہ کو قریش کے دو سرداروں کے حوالے کیا اور انہیں کہا کہ اسے محمد کے چچا ابو طالب کے پاس لے جائو اور اس سے کہو کہ میرا بیٹا رکھ لو اور اس کے بدلے محمد (ﷺ)ہمیں دے دو۔ خالد اپنے باپ کے اس فیصلے پر کانپ اٹھا تھا اور جب اس کا بھائی عمارہ دونوں سرداروں کے ساتھ چلا گیا تھا تو خالد تنہائی میں جا کر رویا تھا۔”ابو طالب !“۔سرداروں نے عمارہ کو رسولِ کریم (ﷺ)کے چچا کے آگے کرکے کہا تھا۔” اسے تم جانتے ہو؟یہ عمارہ بن الولید ہے ۔تم یہ بھی جانتے ہو گے کہ بنو ہاشم نے جس کے تم سردار ہو، ابھی تک اس جیسا سجیلا اور عقلمند جوان پیدا نہیں کیا ۔یہ ہم ہمیشہ کیلئے تمہارے حوالے کرنے آئے ہیں۔ اسے اپنا بیٹا بنا کر رکھو گے تو یہ تمام عمر فرمانبردار رہے گا اور اگر اسے اپنا غلام بنائو گے تو قسم ہے اﷲ کی ‘تم پر اپنی جان بھی قربان کردے گا ۔“”مگر تم اسے میرے حوالے کیوں کررہے ہو؟“ابو طالب نے پوچھا ۔”کیا بنو مخزوم کی مائوں نے اپنے بیٹوں کو نیلام کرنا شروع کردیا ہے؟کہو‘اس کی کتنی قیمت چاہتے ہو؟“”اس کے عوض ہمیں اپنا بھتیجا محمد (ﷺ)دے دو۔“قریش کے ایک سردار نے کہا:” تمہارا یہ بھتیجا تمہاری رسوائی کا باعث بن گیاہے ۔اس نے تمہارے آبائو اجداد کے مذہب کو رد کرکے نیا مذہب بنا لیا ہے۔کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ اس نے قبیلے میں آدمی کو آدمی کا دشمن بنا دیا ہے۔“
” تم میرے بھتیجے کو لے جا کر کیا کرو گے؟“ ”قتل۔“ قریش کے دوسرے سردار نے جواب دیا۔ ”ہم محمد(ﷺ) کوقتل کریں گے ۔یہ بے انصافی نہیں ہوگی ۔تم دیکھ رہے ہو کہ ہم تمہارے بھتیجے کے بدلے تمہیں اپنا بیٹا دے رہے ہیں ۔”یہ بہت بڑی بے انصافی ہو گی۔“ابو طالب نے کہا ۔”تم میرے بھتیجے کو قتل کرو گے اور میں تمہارے بیٹے کو پالوں گا اور اس پر خرچ کروں گا اور اسے بہت اچھی زندگی دوں گا ؟تم میرے پاس کیسا انصاف لے کر آئے ہو؟میں تمہیں عزت سے رخصت کرتا ہوں ۔“خالد نے جب اپنے بھائی کو اپنے سرداروں کے ساتھ واپس آتے دیکھا اور سرداروں سے سنا کہ ابو طالب نے یہ سودا قبول نہیں کیا تو خالد کو دلی مسرت ہوئی تھی۔

(جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔)